ہمارے والدین نے ایک بات سکھا کے ہم پر بہت احسان کیا تھا اور وہ
بات یہ تھی" کبھی کسی کے ساتھ موازنہ نہیں کرنا "- فلاں کے پاس یہ ہے وہ ہے اور
ہمارے پاس نہیں ہے فلاں کے گھر میں یہ لگژریز ہیں اور ہمارے گھر میں نہیں ہیں : اس
طرح کی سوچ انسان کو ناشکرا اور ڈیپریس بناتی ہے -ہمارے دین کی تعلیم تو یہ ہے کہ
دین کے معاملے میں اپنے سے بہتر انسان کی طرف دیکھو تاکہ خود کو بہتر کرسکو اور
دنیا کے معاملے میں اپنے سے کم وسائل والے انسان کو دیکھو تاک اپنے پاس موجود
نعمتوں کی قدر کرسکو ۔جب اپنے پاس موجود نعمتوں کی شکر گزاری کی جاۓ تو دل و دماغ
بھی پرسکون رہتے ہیں۔دوسری طرف یہ موازنہ بھی درست نہیں کہ : میں یہ ہوں ،میں نے یہ
کام کئے ہیں ،دوسرے نہیں کر رہے لہذا میں ان سے برتر ہوں : اس طرح کا موازنہ انسان
کو متکبر بنادیتا ہے کیوں کہ اس کیفیت میں انسان اپنے کاموں اور قابلیتوں کو زیادہ
اہمیت دیتا ہے اور دوسروں کو حقیر اور فضول تصور کرنے لگتا ہے۔ درحقیقت ،کاموں کو
انجام دینے کی صلاحیت اور توفیق بھی رب العالمین کی عطا ہے ،انسان کو اس پر شکر
گذار ہونا چاہئیے نہ کہ گھمنڈ میں مبتلا ہونا چاہئیے۔کسی کتاب میں پڑھا تھا کہ"
انسان اپنے اعمال کی وجہ سے جنت میں نہیں جاۓ گا بلکہ جس پر رب_ کریم رحمت فرمائے
،اور جنت تمہارے اخلاص کی قیمت ہے" ۔ اپنے آپ پر فخر و غرور انسان کی صفت نہیں بلکہ
شیطان کی ہے جس نے حضرت آدم علیہ السلام کو خلیفہ بنانے پر اعتراض کرتے ہوۓ کہا تھا
کہ" میں اس سے بہتر ہوں"- خدا جسے چاہے جو درجہ عطا کردے ۔تیسری طرح کا موازنہ ، دو
انسانوں کے مابین کیا جاتا ہے کہ فلاں ایسا ہے اور فلاں ایسا نہیں ہے۔کوئی زیادہ
خوب صورت ہے کوئی اتنا نہیں ،کوئی زیادہ تعلیم یافتہ ہے کوئی کم ۔کسی کے حالات
موافق ،کسی کے آرام دہ ہیں اور کسی کے مخالف اور چیلنجنگ ہیں۔کسی کے پاس مادی اسباب
و وسائل زیادہ ہوں گے اور کسی کے پاس کم ہوں گے تو دونوں کی کارکردگی کا موازنہ
بنتا نہیں ہے ۔ہر ایک کی زندگی کا کمرہء امتحان،الگ الگ ہے۔کسی نے کام کے دوران
تکالیف اور آزمائشیں برداشت کیں اور کوئی ان کے بغیرہی سب مرحلوں سے گذر گیا۔یہ
سواۓ رب العالمین کے کون جان سکتا ہے ۔ صلاحیتوں کے لحاظ سے بھی سب انسان مختلف
ہوتے ہیں ،کوئی اپنے موقف کا اظہار کرنے میں دبنگ ہوتا ہے اور کوئی خاموش طبع۔کوئی
اپنی باتوں سے دوسروں کو مطمئن کرنے کا فن جانتا ہے اور کوئی سادگی سے صرف سچ بول
دیتا ہے ،خواہ کوئی یقین کرے یا نہ کرے۔ کس نے کون سا کام کس نیت سے کیا ،ہم کچھ
نہیں کہہ سکتے کہ دلوں کے راز جاننے والی ذات صرف خداۓ واحد کی ہے۔انگریزی ادب کا
ایک قول_زریں ہے کہ " Before you judge me ,try walking my shoes"
اور اردو میں کہتے ہیں کہ" جس تن لاگے ،وہ تن جانے" لہذا ہر کوئی کسی دوسرے کو جانچ
نہیں سکتا اور نہ اس کے اعمال کو تول سکتا ہے کیوں کہ نیت کو جاننے والی اور دلوں
کے راز جاننے والی ذات صرف خداۓ واحد کی ہے ۔ تاریخی واقعہ ہے کہ ایک صحابی رضی
اللہ عنہ کسی کافر سے برسرِ پیکار تھے ،دونوں میں جنگ جاری تھی کہ یکدم اس کافر نے
کلمہ پڑھ لیا مگر صحابی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ چل چکا تھا اور ان کے ہاتھ سے وہ بندہ
قتل ہوگیا ،جب یہ خبر حضور صلی اللّٰہ علیہ وسلم تک پہنچی تو آپ کو بہت رنج ہوا اور
آپ نے اس صحابی کو بلایا ،انھوں نے کہا کہ یا رسول اللہ ،اس نے اپنی جان کے خوف سے
کلمہ پڑھا تھا ۔ آپ نے فرمایا کہ تم نے اسے کلمہ پڑھنے کے باوجود قتل کردیا؟ اور آپ
یہ بات دہراتےرہے۔ ایک روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا کہ کیا تم نے اس کا دل چیر کے
دیکھ لیا تھا ؟۔
موجودہ دور کا یہ المیہ ہے کہ ہر کوئی دوسرے پر تبصرہ کرنا ،کمنٹ کرنا اور جج کرنا
معمول کی بات سمجھتا ہے ،کسی کے بارے میں غلط الفاظ کہہ دینا ،کسی پر اعتراض کردینا
،کسی کو دوسروں کی نظر سے گرادینا ،ہمارے دین کی تعلیم ہر گز نہیں ہے ۔ قرآن پاک
میں فرمایا گیا کہ " ہم نے بنی آدم کو عزت عطا فرمائی " (سورہ الاسراء ،آیت نمبر
70).یہ آیت واضح کرنے کو کافی ہے کہ انسان ایک معزز مخلوق ہے ۔اعمال کو تولنے والا
ترازو صرف رب العالمین کے پاس ہے ،کسی انسان کے پاس نہیں ہے لہذا کبھی کسی کی ذات
،اعمال ،شخصیت کا موازنہ نہیں کرنا چاہئیے ،کسی کے بارے میں راۓ دینے میں احتیاط
کرنی چاہئیے۔ نجانے کس کی نیکی بارگاہِ الٰہی میں قبول ہو جاۓ اور کسی کی نیکیوں کا
ڈھیر بھی وہاں رد کردیا جاۓ !۔
( یہ انفرادی معاملات کی بات ہے ،اجتماعی ذمہ داریوں کی نہیں ہے )۔
|