بہت افسوس کی بات ہوتی ہے کہ جب لوگ علیحدہ رہائش کی استطاعت رکھنے کے باوجود محض اپنے والدین کی خوشنودی کی خاطر اپنے بیوی بچوں کو جوائنٹ کے جہنم میں جھونکے رکھتے ہیں جبکہ دن رات جوتیوں میں دال بٹ رہی ہوتی ہے ۔ اور اس سے بھی زیادہ اندوہناک بات یہ ہوتی ہے کہ جب کوئی شخص اپنی ملازمت کے سلسلے میں بیرون شہر یا بیرون ملک مقیم ہوتا ہے اور فیملی کو ساتھ رکھنے کی دفتری و قانونی اہلیت رکھتا ہے مگر ماں باپ اُسے اجازت نہیں دیتے ۔ یا پھر طرح طرح کے حیلوں ہتھکنڈوں سے رکاوٹیں ڈالتے ہیں اُس کی جیب میں اتنا چھوڑتے ہی نہیں کہ وہ خود اپنے لیے بھی کچھ کر سکے ۔ اچھے خاصے پڑھے لکھے کماؤ اور پورے گھرانے کی کفالت کرنے والے مرد اپنے والدین کی ضد کے آگے بےبس ہوتے ہیں کہ ہم بچوں کے بغیر نہیں رہ سکتے یا یہ کہ ہماری زندگی میں تم الگ ہونے کے بارے میں سوچنا بھی نہیں ۔ اور کہیں تو ماں صاف کہتی ہے کہ تم بیوی کو لے جاؤ گے تو گھر کا کام کون کرے گا مجھے آرام کب ملے گا ۔ بیٹا بھلے نوکری کے ساتھ ساتھ روٹی ہانڈی بھی کرے اس کی کوئی پروا نہیں ۔ دیس کے دیہاتوں اور شہری علاقوں میں بھی اس طرح کی صورتحال نظر آتی ہے جس میں زیادہ ہاتھ ایک ماں کا ہی ہوتا ہے جو ایموشنلی بلیک میل کرتی ہے کہیں دودھ نہ بخشنے کی دھمکی دیتی ہے ۔ خدا نے اسے جو اعزاز بخشا ہے اس سے کہاں یہ مطلب نکلتا ہے کہ اب وہ اپنے بیٹے کی بیوی کے ساتھ کوئی بھی بدسلوکی ایذا رسانی زیادتی کرنے کے لئے آزاد ہے؟ دیسی سماج میں یہ بدترین روایت اتنی پنپ چکی ہے ساس بہو کا رشتہ اتنا زہریلا ہو چکا ہے کہ آج لڑکے کا کہیں رشتہ کراتے ہوئے اُس کی ماں کا مرحومہ ہونا ایک کوالٹی شمار ہوتا ہے ۔ سب سے پہلے تو اس سوچ سے باہر آنے کی ضرورت ہے کہ ماں جیسی بھی ہو جنت اسی کی جوتیوں تلے ہے ۔ اس سوچ کے ساتھ کوئی بھی شخص کبھی بھی انصاف قائم نہیں کر سکتا اور اپنی منکوحہ کو اپنی ماں کے شر کا شکار بننے سے محفوظ نہیں رکھ سکتا ۔ بہو کو جلا کر یا زہر دے کر مار دینے والی، بہو بیٹے کے درمیان پُھوٹ ڈالنے کے لئے جادو ٹونے کرانے والی، اس سے جانوروں کی طرح مشقت لے کر اس کا بچہ پیٹ میں ہی مروا دینے والی ماں کیسے اپنے بیٹے کی جنت کی ضامن بن سکتی ہے ۔ پہلے وہ خود تو جنت میں جا کر دکھائے جو بیٹے کو بیاہتے ہی اس کا اور اس کی بیوی کا جینا حرام کر دے ان کی زندگیوں کو جہنم بنا دے ۔ اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں اور محرومیوں کی سزا کسی دوسرے کی بیٹی کو دے کر اپنی فتح کا جشن منائے ۔ ایسی ایسی مائیں جنہوں نے اپنے حسد بغض اور اپنی فسادی بیٹیوں کے کہنے میں آ کر اپنے بیٹوں کے گھر اجاڑ دیئے یا بیٹے اور بہو کے درمیان جدائیاں ڈالیں انہیں سالہا سال ایکدوسرے سے دور اور تنہا رکھا اپنے مفادات کے تحفظ اور اپنی بادشاہی سلامت رکھنے کے لیے بہو کی زندگی اور خود اپنے بیٹے کی جوانی خاک میں ملائی تو کیا وہ اس لائق ہیں کہ ان کی خوشنودی حاصل کر کے اپنی منکوحہ کے مجرم آخرت میں سرخرو ہو جائیں گے؟ ان کا کوئی مؤاخذہ نہ ہو گا؟ شادی کے بعد لڑکی کا سب سے بڑا امتحان یہ ہوتا ہے کہ وہ شوہر کے ساتھ ساتھ اُس کی ماں کا بھی دل جیتنے کی کوشش کرے ۔ مرد کی جنت کا راستہ بیوی کے کاندھوں پر سوار ہو کے طے ہوتا ہے ۔ سوال صرف اتنا ہے کہ لوگ اپنی جنت کے حصول کی کوشش خود اپنی ذمہ داری پر کیوں نہیں کرتے؟ اپنا بوجھ خود کیوں نہیں اٹھاتے اس میں کسی کو شریک کیوں کرتے ہیں منکوحہ کے حقوق مشروط کیوں ہو جاتے ہیں؟ وہ اپنی بیویوں سے یہ قربانی کیوں طلب کرتے ہیں کیوں مجبور کرتے ہیں انہیں کہ وہ ان کی ماں کے ظلم زیادتی سازشوں ریشہ دوانیوں کو صبر و شکر اور خاموشی سے برداشت کریں تاکہ ان کی جنت پکی ہو سکے ۔ کیا اسلامی تاریخ اور شریعہ و فقہ میں ایسا کوئی ذکر ملتا ہے یا کہیں حکم آیا ہے کہ لوگ اپنی ماں کے اُن پر احسانات کا بدلہ اپنی بیویوں کو اُن کے حقوق سے محروم کر کے اور انہیں ظلم و زیادتی کے جہنم میں جھونک کر چُکائیں؟
|