بریانی کے ہم سدا کے شوقین ہیں اور اکثر و بیشتر چکن، جھینگا، مچھلی، مٹن، آلو اور بیف بریانی سے کام و دہن کو تسکین دیتے رہتے ہیں۔ دہلی والوں کی اس "ایجاد مطبخ " کو "غذائی اسٹیٹس سمبل'" میں شمار کیا جاتا ہے،۔ یہی وجہ ہے کہ جب ہم کسی ایسی تقریب میں جاتے ہیں جہاں صرف ہمیں اکیلے ہی مدعو کیا جاتا ہے تو اپنے بیگ میں کئی بڑے بڑے شاپرز رکھ کر لے جاتے ہیں۔ بریانی سے لطف اندوز ہونے کے دوران ڈائننگ ٹیبل کے نیچے کرکے اپنے پاس موجود شاپنگ بیگ بریانی سے بھر لیتے ہیں تاکہ ہمارے اہل خانہ بھی اس نعمت خداوندی سے فیض یاب ہوسکیں۔ چند ماہ قبل ہم بریانی کی ایک نئی جہت سے روشناس ہوئے۔ ہوا یوں کہ ہم ایک کام سے بذریعہ بس تھر پارکر جارہے تھے۔ راستے میں کھانے کا وقت ہوا، ڈرائیور نے ایک جنگل میں واقع چھپرا ہوٹل پر گاڑی روکی۔ دیگر مسافروں کے ساتھ ہم بھی بس سے اتر کر ہوٹل کی بنچ پر بیٹھ گئے۔ تھوڑی دیر بعد بیرا آیا ۔ اس سے جب ہم نے ہوٹل کا مینو معلوم کیا تو کئی سالنوں کا بتانے کے بعد ایک نئی ڈش "الو بریانی" بتائی۔ ہم سمیت دیگر مسافروں نے اس سے دوبارہ اور سہ بارہ اس نام کی تصدیق چاہی اور ہر بار اس نے "الو بریانی" نام کے پکوان کا ہی نام لیا۔ ہمارے لئے یہ بریانی کی انوکھی قسم تھی کیوں کہ اپنے شہر میں تو ہم نے چند سال قبل تک صدر کراچی کی ایمپریس مارکیٹ میں دیگر جانوروں، چرند پرند کے ساتھ الو بھی فروخت ہوتے دیکھے تھے۔ اس دورافتادہ جنگلاتی علاقے میں جہاں ہر طرف "محاورتاً" الو بول رہے تھے لیکن شاید ان الوؤں نے بھی سلیمانی ٹوپی پہن رکھی تھی جو ہم سمیت کسی کو بھی نظر نہیں آرہے تھے۔ کیوں کہ الو جیسے معصوم پرندے کو برصغیر میں نحوست کی علامت سمجھا جاتا ہے اس لئے ایمپریس مارکیٹ کی اینیمل مارکیٹ میں بھی الو کے خریدار، صرف ماہرین سفلی عملیات و کالے جادوگر ہوتے تھے جو الو کے مختلف پارٹس کو اپنے سائلین کی روحانی حاجت روائی کے لئے کئے جانے والے عملیات میں استعمال کرتے تھے۔ ہم نے ہوٹل کے قریب لگے درختوں کی شاخوں پر الو کی تلاش میں نظریں دوڑائیں کیوں کہ ہم اکثر یہ شعر سنتے اور کتابوں میں پڑھتے رہتے ہیں "ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے، انجام گلستان کیا ہوگا
". بہرحال اپنے گلستان کے اچھے برے انجام کو اللہ تعالیٰ کے رحم و کرم پر چھوڑ کر ہم نے آزمائشی طور پر حرام و حلال کی بحث میں الجھے بغیر صرف اپنے تجسس کے ہاتھوں مجبور ہوکر اس محیر العقول ڈش کا آرڈر دیا۔ حالانکہ ہمیں یہ بھی ڈر تھا کہ کہیں اس کے دام ہماری قوت خرید سے باہر نہ ہوں کیوں کہ ایک کلو حجم کا زندہ الو ایمپریس مارکیٹ میں کئی ہزار روپے میں فروخت ہوتا تھا لیکن بیرے نے ہمیں یہ کہہ کر تسلی دی کہ صاحب اس کی قیمت صرف سو روپے پلیٹ ہے۔ دس منٹ بعد بیرے نے الو بریانی کی پلیٹ ہمارے سامنے لاکر رکھ دی۔ ہم نے پلیٹ میں چمچہ چلا کر الو کی بوٹیاں تلاش کرنے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن کہیں بھی کوئی بوٹی نظر نہیں ائی جب کہ آلو کے کئی قتلے پلیٹ میں موجود ملے۔ تھک ہار کر چمچے نے بھی ہماری مزید "چمچہ گیری" سے انکار کردیا جس کے بعد ہم نے اسے واپس پلیٹ میں رکھ کر غصے سے بیرے کو آواز دی۔ بھوک کے باوجود ہمارے حلق سے نحیف و نزار کی بجائے گرج دار آواز برآمد ہوئی جس نے ہوٹل کی کچی دیوار اور سرکنڈوں کی چھت تک کو ہلادیا۔ ہماری پکار پر نہ صرف بیرا بلکہ ہوٹل کا مالک اور ہماری بس کا ڈرائیور بھی اپنی کرسی سے اٹھ کر ہمارے پاس آگئے۔ ہم نے بیرے سے غصے سے پوچھا، یہ کیسی بریانی ہے، اس میں تو صرف آلو ہیں، الو کا گوشت کہاں ہے؟ ہماری بات پر بیرا تو خاموش اور سہما ہوا کھڑا رہا لیکن اس کی ترجمانی کا فریضہ ہمارے ڈرائیور نے ادا کیا جو خاصا پڑھا لکھا نظر آرہا تھا اور ترجمان کے منصب پر پورا اترتا تھا۔ اس نے کہا، "صاحب، دیہی باشندے دہقانی لب و لہجے میں اردو بولتے ہیں۔ الو بریانی سے اس کی مراد آلو بریانی ہوتی ہے لیکن ہم الو دیکھنے کے اشتیاق میں الو بن جاتے ہیں "۔ اس کی بات سن کر ہم نے بیرے اور ہوٹل کے مالک سے معذرت کی اور الو بریانی سے شکم سیری کرنے کے بعد کھانے کا بل ادا کرکے بس میں دوبارہ بیٹھ کر تھرپارکر پہنچے۔ وہاں اپنا کام نمٹا کر دوسرے روز بس سے واپس گھر کے لئے روانہ ہوئے، راستے میں دوپہر کے کھانے کے لئے ڈرائیور نے اسی ہوٹل پر بس روکی جہاں ہم نے دوبارہ الو بریانی سے پیٹ بھرا اور رات کو گھر واپس پہنچ کر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا۔ الو بریانی والا واقعہ ذہن پر اس طرح سوار تھا کہ ہم واقعی خود کو الو سمجھ رہے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ جب ہم اپنے اہل خانہ کو تھرپارکر کے سفر کی روداد سنا رہے تھے تو آخر میں بے ساختگی سے ہماری زبان سے نکل ہی گیا " لوٹ کے الو گھر کو آئے " اور گھر والے یہ سن کر ہمیں یوں دیکھنے لگے جیسے وہ اپنے سامنے واقعی کسی الو کو بیٹھا دیکھ رہے ہوں۔
|