ساحل کے کسی اونچی سطح پر بیٹھ کر دور سمندر کی خوفناک لہریں اس قدر پر سکون نظر آتی ہے جیسے برسوں سے یہ سندر کسی درد و غم کا شکار ہی نہیں ہوا لیکن وقتاً فوقتاً سمندر کے پانی میں آگے بڑھو تو لہروں کے اس شور و تسلسل سے اس سمندر کے صدیوں کا درد و غم کا عالم سامنے آجاتا ہے، یہ درد و غم کچھ اور نہیں بلکہ اس سمندر کے ساتھ سب سے چھوٹے پوائنٹ پر انتہائی تیزی سے کسی دوسرے سمندر کا ملنا، سمندر کی تہہ میں موجود زمینی دراڑیں اور کچھ ہواؤں کی بدلتی ہوئی سمت اس سمندر کو دردناک اور غمگین بناتی ہیں۔
بلکل اسی طرح انسان کی زندگی بھی ایک سمندر ہے دور سے دیکھو تو ہموار سطح کے مانند نظر آتی ہے لیکن گہرائی میں جا کر دیکھنے سے بہت سی کہانیوں سے پردہ اٹھ جاتا ہیں۔
کسی بھی انسان کی زندگی ہموار نہیں ہو سکتی کوئی نہ کوئی اندرونی جنگ انسان میں چلتی رہتی ہے جس کی وجہ سے ہمیں معاشرے میں مختلف صورتوں کے انسان نظر آتے ہیں کوئی برا کوئی اچھا۔ یاد رکھیں انسان کوئی بھی برا نہیں ہوتا بلکہ لفظ "برا انسان" کی کوئی معنی ہی نہیں اور کیوں ہوگی جب انسان ربِ کائنات کی وہ واحد تخلیق ہے جس کو درد و غم، احساس و شعور کی آگاہی حاصل ہے، تو انسان برا کیسے ہو سکتا ہے لیکن ہمارے معاشرے نے جو انسانوں کی مختلف صورتیں بیان کی ہے اس میں بے شعور انسان بھی ایک انسانی صورت ہے اور یہ اس کو کہا جاتا ہے جس میں شعور نہیں تو پھر وہ انسان بھی نہیں، اس شخص کو انسان کہنا اور سمجھنا پوری انسانیت کی توہین سے کم نہیں کیونکہ شعور کی نعمت سے اللہ تبارک نے صرف ہم انسانوں کو ہی نوازا ہے، اور شعور ہی وہ واحد پہلو ہے جس کی وجہ سے انسان کو اشرف قرار دیا گیا، ایک چور بھی میری نظروں میں بہت اعلیٰ مقام رکھتا ہے کیونکہ کوئی ماں کے پیٹ سے چور بن کر نہیں نکلتا ، یا تو بچپن کی عادت ہوتی ہے جس میں 80 فیصد غلطی معاشرے کی ہوتی اور جس جوانی میں مجبوریاں اس کے دماغ کی بینائی چن لیتی ہیں جس میں بھی معاشرہ برابر کا قصوروار ہے۔ اب اچھا انسان تو سب ہی جانتے ہیں لیکن جو دکھتا ہے وہ ہوتا نہیں، جس انسان کو معاشرے میں اچھا سمجھا جاتا ہے اس انسان کی صفات کبھی دیکھیں تو وہ ہمیشہ لوگوں سے خوش ہو کر ملے گا ہر وقت جب تک وہ عام لوگوں کی صحبت میں ہو خوش ہی نظر آئے گا یعنی ہموار لیکن اسی انسان کو سب سے زیادہ تکلیف دی جاتی ہے اور یہ بات تو سب کو معلوم ہے کہ جو بہت ہی خاموش ہوتا ہے کسی کو پلٹ کر جواب نہیں دیتا اس کو دراصل انسان سمجھا ہی نہیں جاتا لیکن یاد رکھیں معاشرے کی زبان کے مطابق اچھا اور برا انسان ہزار تکالیف سے گزر رہا ہوتا ہے اس کی زندگی کے کسی نہ کسی حصے میں دراڑیں پڑ چکی ہوتی ہیں لیکن وہ ہموار نظر آتا ہے وہ کہتے ہیں نا جو ٹوٹ جاتا ہے وہ بولنا بھول جاتا ہے۔
تو انسان کی زندگی عین اسی سمندر سی ہے جو جتنا پر سکون اور ہموار دکھتا ہے اس کی گہرائی اتنی ہے پہنچ سے دور ہوتی ہے۔
ان سب باتوں کا ایک مقصد ہے انسان کو باہر سے نا دیکھیں اس کے اندرونی معاملات تک پہنچنے کی کوشش کریں تو آپ کو ہر انسان کی سمجھ آنے لگے گی۔ کیونکہ یہ دنیا جتنی بڑی نظر آتی ہے اس سے کئی گنا چھوٹی ہے اور کبھی نہ کبھی ہم سب کو حساب دینا پڑتا ہے دنیا میں بھی اور آخر میں بھی۔ کیونکہ ایک انسان جیسا بھی ہو ہم اس کے خالق نہیں کہ ہمیں اس کی نیت معلوم ہو۔
لہذا اپنے اندر ایک ہر وقت ایک موم بتی جلائے رکھیں کبھی بجھنے نہ دیں تاکہ اس کے نور سے ہمیشہ آپ کے ارد گرد کے لوگوں پر روشنی پڑتی رہے۔
|