آج کل ہم سب کا زیر غور مسئلہ حکمران ہیں۔ ، کوئی وڈیروں کے جیا لے ، کوئی حکومت چور ہیں ، خادم اعلی نوٹنکی ھیں، مولوی نا اہل ھیں ، تبدیلی والے جذباتی ھیں ، کوئی ٹیلی فونک انکل ھے . جہاں دیکھو یہی بحث چل رہی ہے . جس کو دیکھو اپنالیڈر شاندار باقی سب بیکار۔فیس بک یو ٹیوب ، ای میل ایس ایم ایس ان سب کو تو ہم نے انصاف کی زنجیر سمجھ لیا ہے .کسی كے نمبر میٹرک میں کم آجائیں تو بورڈ آفس کرپٹ ہے ، انٹر میں کمپیوٹر سائنس رکھی ہو ، پری انجینیئرنگ رکھی ہو یا پری میڈیکل یا پِھر کامرس . اگر کسی میں بھی کوئی سپلی آجائے تو کورس بے تکا نظام کرپٹ . رہی ہماری بات مطلب صنف نازک تو نمبر کم آنے پر ہی لو بلڈ پریشر جیسی بیماریوں کا شکار ہو جاتی ہیں ، کبھی کوئی کہتا ہے پڑھایا سہی نہیں گیا ، کبھی کوئی لوڈ شیڈنگ کو الزام دیتا ہے .حالات اتنے نازک ھو گئے ھیں کہ نوجوان نسل اس ملک میں رہنا ہی نھیں چاہتی اور جولوگ یہاں موجود ھیں وہ اپنی جائز ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے بھٹک رہے ھیں۔
مانا كہ یہ سب مسئلے کافی زیادہ ہیں پر ہر چھوٹا بڑا الزام حکمرانوں پر لگانا کتنا آسان لگتا ہے یہ کہنا کے سارا قصور تو حکومت کا ہے . ہم آپ اور ہمارا متوسط طبقہ تو بہت شریف ایماندار ہے معصوم ہیں ، پر کیا سچ میں ایسا ہے ؟ چلیں آئئیں تصویر کا دوسرا رُخ دیکھتے ھیں۔
یہ جو بغیر کسی لسٹ كے ہمارے ہاں کھانے پینے کی چیزیں مہنگی ہوجاتی ہیں ، بسوں كے کرائے بڑھ جاتے ہیں . پیٹرول کی قیمت بڑھنے پر بولتے ہیں پر جب پیٹرول کی قیمت کم ہو تب کرائے اتنے ہی رہتے ہیں کم نہیں ہوتے ، پچاس روپے کا سموسہ رمضان میں سو روپے کا ہو جاتا ہے . فروٹ سفید كے ہاتھ سے نکل جاتے ہیں ، خود کی شاد یوں میں فائرنگ اپنے دکھاوے کے لیے کرتے ہیں اور پِھر کوئی حادثہ ہو جائے تو حکومت پر الزام لگاتے ھیں۔سوچیں یہ کون کرتا ہے ؟عوام ، حکمران یا کوئی گلو بٹ ؟باقی معاشرتی بُرائیوں اور بے راہ روی کی داستان سُننے سنانے کے لیے وقت اور حوصلہ دونوں وافر مقدار میں چاہئیے ۔ اصل میں کبھی ہم میں سے کسی نے یہ سوچنے کی کو شش ہی نہیں کی کہ ایٹم بم گرائے جانے کے بعد اپنا پورا فوجی نظام تباہ ہوجانے کے بعد بھی جاپان آج دنیا کا مضبوط ترین معاشی ملک کیسے بن گیا ؟ایسامضبوط ترین ملک کہ جسے 2007تک فوجی نظام اور وزارت دفاع کی ضرورت ہی پیش نہ آ ئی اور ہر گھر میں جاپانی مصنوعات نے جگہ بنالی ۔ ھمیں اس طرف بھی سوچنا چاہئیے کہ اصل ترقی ایٹم بنانے سے نہیں ہو تی ،ترقی دنیا کی بہترین فوج کے ہونے سے بھی نہیں ہو تی،ترقی دنیا کا بہترین نہری نظام رکھنے سے نہیں ہو تی ،ترقی قدرت کے دھات کے ذخائر رکھنے سے بھی نہیں ہو تی ،ترقی تو بہترین قیادت سے ہوتی ہے ،ترقی تو ہمیشہ ایک قوم اور ہمہ جہت عزم سے ہو تی ہے ترقی ہمیشہ ذاتی مفادات پر ملکی مفا دات کو ترجیح دینے سے ہو تی ہے ،ترقی ذاتی اختلافات کو پس پشت ڈال کر ملکی مفادات کے لئے ایک ہو نے سے ہوتی ہے ،ترقی وہی معاشرہ ،وہی خطہ کرتا ہے جس میں اختلاف ہمیشہ ذات سے نہیں نظریے سے کیا جا تا ہے لیکن یہاں ہمیشہ ذاتی اختلافات کی بنیاد پر ملکی مفادات کو نظرانداز کیا گیا ۔ یقین کیجئے قا رئین کرام! ہم خود کو بدلیں گے تو یہی سیاست دان جو اس وقت ملکی دولت سے ہاتھ صاف کر رہے ہیں یہی ملک کے لئے کام کریں گے ہمیں کرنا صرف اتنا ہے کہ خود کو بدلنا ہے احتساب کے دائرہ کار کو ملکی سطح تک لے کر جا نا ہے لیکن اس کے لئے ھمت کرنی ھو گی پھر حکمرانوں کا احتساب بھی خدا کے ہاتھ میں ہو گا۔
|