اسلام میں ہمسایہ کے حقوق

اللہ تعالیٰ نے انسان میں باہمی ربط رکھنے کے لئے اس کو رشتوں اور تعلقوں میں پرویا ہے ۔ایک انسان کسی کا بھائی ہے اور کسی کا بیٹا ۔کسی کا دوست ہے اور کسی کا ہمسایہ ایک دوسرے کی قربت میں رہنے والے کو ہمسایہ کہا جاتا ہے ۔اسلام میں ہمسایہ کا بہت درجہ ہے ۔انسانی زندگی قدم قدم پر آپس میں ایک دوسرے کے تعاون کی خواہاں ہے ۔بلکہ معاشرتی زندگی بنائی اس لئے گئی ہے کہ ہر انسان دوسرے انسان کا مددگار بن کر رہے ۔اگر کسی کو کوئی دکھ تکلیف ہو تو اسے دور کرنے کےلئے دوسرے انسان کی مددکرتے اگر کوئی بھوکا ہو تو دوسرے پر حق ہے کہ اپنے کھانے میں سے کچھ اسے کھلا دے ایسے ہی تندرست کے لئے ضروری ہے کہ وہ قریبی بیمار کی تیمار داری کرے اگر کسی کو قرضہ کی ضرورت ہو تو اسے قرض حسنہ دیا جائے تاکہ وہ بھی آسانی سے اپنی زندگی کا کاروبار چلا سکے ۔کیونکہ اسلام نے اپنے پیروکاروں کو ایسے معاشرے کا درس دیا کہ جس میں اخوت پیار اور ہمدردی ہو ۔انسان ایک دوسرے کا چارہ ساز ہو ۔یہی وجہ ہے کہ اسلام میں ہمسایہ کے حقوق ادا کرنے کی بڑی تاکید کی گئی ہے تاکہ قریب رہنے والوں میں جتنا پیار الفت اور ہمدردی ہو گی اتنی ہی زیادہ زندگی خوشگوار گزرے گی۔اس لئے ہمسایہ کے حقوق کی ادائیگی پر بڑا زور دیا گیا ہے ۔

ہمسایہ کے حقوق کو مقدم جاننے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ انسان کو عموماً اُس شخص سے تکلیف یادکھ پہنچنے کا خدشہ زیادہ ہوتا ہے جو اس کے قریب ہوتا ہے اس لئے اسلام نے زندگی کے ہر شعبے میں ایک دوسرے انسان کے حقوق مقرر کر دئےے ہیں تاکہ ایک انسان سے دوسرے کی حق تلفی نہ ہو اور دوسرا انسان انتقامی صورت میں دکھ اور تکلیف نہ پہنچائے بلکہ باہمی تعلقات کو خوشگوار بنانے کےلئے آپس میں ایک دوسرے کی خواہشات کا احترام سکھایا جاتا ہے تاکہ برائیاں جنم نہ لیں اور ہمسایوں کی زندگی آپس میں پر امن گزرے ایک سفر کے دو مسافر ایک ہی مدرسہ کے طالب علم، ایک کارخانہ کے ملازم، ایک ہی استاد کے شاگرد، ایک ہی دفتر میں کام کرنے والے اہل کاراور ایک ہی کاروبار میں شریک کار در حقیقت ہمسایوں کی طرح ہیں اور انہیں چاہےے کہ ایک دوسرے کی مدد کرتے رہیں۔

ہمسایوں کے ساتھ اچھا سلوک کرو:ہمسایہ کے ساتھ نیکی کرنے کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ :”اور اللہ تعالیٰ ہی کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بناﺅ اور ماں باپ اور قرابت والوں اور یتیموں اور محتاجوں اور رشتہ دار ہمسایوں اور اجنبی ہمسایوں اور رفقائے پہلو (یعنی پاس بیٹھنے والوں)اور مسافروں اور جو لوگ تمہارے قبضے میں ہوں سب کے ساتھ احسان کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ دوست رکھتا ہے اور تکبر کرنے والے بڑائی مارنے والے کو دوست نہیں رکھتا۔“(النساء36)

اس حکم الہٰی کی وضاحت نبی اکرم ﷺ نے مختلف انداز میں یوں فرمائی ہے ۔

ہمسایہ سے حسن سلوک:ہمسایہ سے حسن سلوک سے پیش آنا اسلامی اخلاق کا لازمی حصہ ہے کیونکہ دوسروں سے اچھا سلوک ہی انسانی عظمت کا مظہر ہے ۔

”حضرت ابو شریح خزاعی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:جو شخص اللہ اور قیامت پر یقین رکھتا ہے اسے چاہےے کہ اپنے پڑوسی کے ساتھ اچھا سلوک کرے۔“(بخاری)

حدیث پاک سے معلوم ہوا کہ پڑوسیوں کا یہ بنیادی حق ہے کہ ان کے ساتھ اچھا اور نیک سلوک کیا جائے ۔اس حسن سلوک کی بہت سی صورتیں ہیں ۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:” جانتے بھی ہو کہ ہمسایہ کے حقوق کیا ہوتے ہیں اور پھر ان حقوق کا شمار کرتے ہوئے فرمایا کہ ہمسایہ کا حق تب ہوتا ہے کہ ۔ ٭اگر اسے مدد کی ضرورت ہو تواس کی مدد کرو۔٭اگر وہ کچھ قرض یا ادھار مانگے تو اسے دو۔٭اگر وہ غریب ہو تو اس کی حاجت روائی کرو اور بیمار ہو تو اس کی تیمار داری کرواور اگر مرجائے تو اس کے جنازے کے ساتھ جاﺅ۔٭اگر اسے کوئی خوشی نصیب ہو تو اس کی مسرت و شادمانی میں شریک ہو کر اسے مبارک باد دو۔ اور اگر اس پر کوئی مصیبت پڑجائے تو اس کے رنج و غم میں بھی شریک رہو۔٭اپنے گھر کی دیوار اتنی اونچی نہ لے جاﺅ کہ اس کے گھر میں ہوا کی آمد و رفت بند ہو جائے ۔٭اگر کوئی میوہ ترکاری اپنے ہاں لاﺅ تو اس کے پاس بھی بھجواﺅ اور ایسا نہ کر سکو تو یہ بات ان سے پوشیدہ رکھو۔٭اپنے بچوں کو اس چیز کی اجازت نہ دیں کہ وہ باہر ہمسائے کے دروازے کے سامنے جا کر اُن کے بچوں کو تنگ کریں کہ اس سے خواہ مخواہ بڑوں کے درمیان رنجش پیدا ہونے کا امکان ہے ۔٭آپ کے باورچی خانے کا دھواں ہمسائے کی پریشانی کا باعث نہیں ہونا چاہیے۔

ہمسایہ کے حقوق میں یہ بھی ہے کہ اسے دیکھتے ہی سلام کریں ۔اس سے طویل گفتگو نہ کریں ۔اس سے اکثر مانگتے نہ رہیں ۔مصیبت میں اسے تسلی دیں ۔ اس کی غلطیوں سے درگزر کریں ۔چھت سے اس کے گھر نہ جھانکیں ۔اس کے گھر کے صحن میں مٹی نہ پھینکیں اس کے گھر کے راستہ کو تنگ نہ کریں ۔وہ گھر کی طرف جو کچھ لے کر جارہا ہو اسے نہ گھوریں ۔اس کے عیوب کی پردہ پوشی کریں ۔جب اسے کوئی مصیبت لاحق ہو تو اس کی مدد کریں اس کی عدم موجودگی میں اس کے گھر کی دیکھ بھال سے غافل نہ ہوں اس کی غیبت نہ سنیں ۔اس کی عزت کا خیال رکھیں ۔اس کی اولاد سے نرمی سے گفتگو کریں ۔جن دینی اور دنیاوی امور سے وہ ناواقف ہوں ان میں اس کی رہنمائی کریں ۔گویا ہر طرح سے ہمسایہ گیری کے لحاظ کو مد نظر رکھیں۔

ہمسایہ گیری کی حدود:ہمسایہ یا پڑوسی وہ ہے جو قریب میں رہتا ہو ۔حدیث پاک میں ہمسایہ کی تعریف یوں کی گئی ہے ۔”چالیس گھروں تک ہمسایہ ہے ۔“(طبرانی)

سنن ابو داﺅد میں ہے کہ ہمسائیگی کا حق چالیس گھروں تک ہے ۔پھر نبی پاک ﷺ نے سامنے دائیں بائیں پیچھے کی طرف اشارہ کیا ۔یعنی ہمسائیگی کا حق ہر طرف ہے ۔

زہری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ چالیس گھروں سے مراد چالیس آگے کے ،چالیس پچھواڑے کے اور چالیس بائیں طرف اور چالیس دائیں طرف کے گھر ہوتے ہیں ۔اور فرمایا کہ ہمسایہ کا حق فقط اسی چیز تک محدود نہیں کہ اسے ایذانہ پہنچائیں اور ستایانہ کریں بلکہ ہے کہ یہ اس کے ساتھ ہر طرح سے نیکی کریں ۔

رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ ایک ہمسایہ وہ ہے جس کا ایک حق ہوتا ہے اور وہ ہے کافرہمسایہ ۔اور دوسرا یک ہمسایہ وہ ہے جس کا دوہرا حق ہے اور وہ ہے مسلمان ہمسایہ ۔اور ایک ہمسایہ وہ ہوتا ہے جس کے حقوق تین گنا ہوتے ہیں اور وہ ہمسایہ ہے جو قرابت دار بھی ہوتا ہے ۔(کتب احادیث)

فرمان نبوی ﷺ ہے کہ عورت ،گھر اور گھوڑے میں برکت اور نحوست ہے ۔،عورت کی برکت تھوڑا مہر، آسان نکاح اور اس کا حسن خلق والا ہوتا ہے ۔ اس کی نحوست بھاری مہر مشکل نکاح اور بد خلقی ہے ۔گھر کی برکت اس کا کھلا ہونا اور اس کے ہمسائیوں کا اچھا ہونا ہے اس کی نحوست اس کا تنگ ہونا اور اس کے ہمسائیوں کا برا ہونا ہے ۔

گھوڑا کی برکت اس کی فرمانبرداری اور اچھی اچھی عادتیں ہیں اور اس کی نحوست اس کی بری عادتیں اور سوار نہ ہونے دینا ہے ۔(کتب احادیث)

ہمسایہ کا حق صرف یہ نہیں کہ آپ اس سے اس کی تکلیف دور کریں بلکہ ایسا چیز بھی اس سے دور کرنی چاہئیں کہ جن سے اسے دکھ پہنچنے کا احتمال ہو ۔ ہمسایہ سے دکھ دور کرنا ،اس سے دکھ دینے والی چیزوں سے دور رکھنے کے علاوہ کچھ اور بھی حقوق ہیں ۔اس سے نرمی اور حسن سلوک سے پیش آئے ۔اس سے نیکی اور بھلائی کرتا رہے ۔

ابن المقفع رحمة اللہ علیہ سے کسی نے کہا کہ تمہارا ہمسایہ سواری کے قرض کی وجہ سے اپنا گھر بیچ رہا ہے ۔ابن المقفع اس شخص کی دیوار کے سایہ میں بیٹھتے تھے اس نے یہ سن کر کہا کہ اس نے تنگ دستی کی وجہ سے اپنا گھر بیچ دیا تو گویا میں نے اس کی دیوار کے سایہ کی عزت نہیں کی چنانچہ اس کے پاس رقم بھیجی اور کہلا بھیجا کہ گھر نہ بیچو۔

ہمسایہ کے حقوق کی اہمیت:ہمسایہ کے حقوق کی ادائیگی بڑی اہم ہے کیونکہ ہمسایوں کا تعلق رشتہ داروں کے قریب قریب پہنچ جاتا ہے ۔ حضور اکرم ﷺ نے اس بات کا اظہار یوں فرمایا ہے ؛” حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا مجھے جبرائیل پڑوسی کے حقوق کے بارے میں تاکید کرتے رہے یہاں تک کہ میں نے گمان کیا وہ اسے وراثت میں شریک کر دیں گے ۔(مسلم ،بخاری)

اللہ کی دوستی کی علامت:اپنے ہمسایوں سے نیک سلوک کرنا اللہ کی دوستی کی علامت ہے کیونکہ اللہ کے نیک بندے رضائے الہٰی کے پیش نظر ہمیشہ ہر ایک سے اچھا سلوک کرتے ہیں ۔لہٰذا اللہ کے بندوں کی پہچان کا ایک نمایاں وصف یہ ہے کہ اللہ کے دوست وہی ہیں جو دوسروں کو اپنے دوست بناتے ہیں ۔ایسے ہی بہترین پڑوسی وہ ہے جس کو تمام ہمسائے اچھا سمجھیں۔

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:کہ بہترین دوست خدا کے نزدیک وہ ہیں جو اپنے دوستوں کے لئے بہترین ہیں اور بہترین پڑوسی خدا کے نزدیک وہ ہیں جو اپنے پڑوسیوں کے حق میں بہترین ہیں ۔(ترمذی)

ہمسایہ کی رائے کی اہمیت:اسلام نے اچھائی اور برائی کو پرکھنے کےلئے ہمسایہ کی رائے کو بڑی اہمیت دی ہے کہ جس قدر قریبی ہمسایہ اپنے ہمسائے کے بارے میں علم رکھتا ہے دوسرا آدمی نہیں رکھ سکتا ۔نبی اکرم ﷺ نے اس کو یوں بیان فرمایا ہے ۔

” حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی اکرم ﷺ سے پوچھا یا رسول اللہ ﷺ مجھے کیوں کر معلوم ہو کہ میں نے اب اچھا کام کیا ہے اور اب برا ۔آپ ﷺ نے فرمایا جب تم پڑوسیوں کو کہتے سنو تم نے اچھا کام کیا ہے تو تم سمجھ لو کہ تم نے اچھا کام کیا ہے اور جب تم انہیں کہتے سنو کہ تم نے برا کام کیا ہے تو سمجھ لو کہ تم نے برا کام کیا ہے ۔(ابن ماجہ)

اس حدیث میں ایک عام اصول بیان کیا گیا ہے کہ جب ہم نے کسی کے بارے میں جاننا ہو کہ وہ آدمی کیسا ہے تو اس کے ہمسایوں سے دریافت کرنا چاہیے ۔اگر ہمسایوں کی رائے اس کے حق میں اچھی ہو تو سمجھے کہ وہ آدمی اخلاق اور کردار کے لحاظ سے اچھا ہے ۔اگر ان کی رائے بر عکس ہو تو سمجھ لینا چاہیے کہ آدمی اچھا نہیں اس کو پرکھنے کا معیار ہمسایوں کی رائے پر موقوف کر دیا گیا ہے ۔

ہمسایہ کی ضرورت مقدم جاننا:ہمسایہ کی ضروریات کو اپنے سے مقدم جاننا چاہیے اور ہر ممکن مدد کی کوشش کرنی چاہیے اگر اپنا معمولی نقصان بھی ہوتا ہو تو پھر بھی جذبہ ایثار کو مد نظر رکھتے ہوئے ہمسایہ کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے ۔

ہمسایہ کی ضرورت کے بارے میں نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ اگر تمہارا ہمسایہ تمہارے تنور میں روٹی پکانا چاہے یا تمہارے پاس اپنا سامان ایک دن یا نصف دن کے لئے رکھنا چاہے تو اسے منع نہ کرو۔(کتب احادیث)

ہمسایہ کو ستانے کی ممانعت:اپنے ہمسایوں کو ستانا درست نہیں اس لئے اپنے پڑوسیوں کو بلا وجہ گالیاں دینا یا تنگ کرنا یا آوازیں کسنا یا بلا وجہ نفرت کرنا ناجائز اور خلاف اسلام ہے ۔رسول اکرم ﷺ نے فرمایا کہ مندرجہ ذیل الفاظ میں ہمسایہ کو ستانے سے منع فرمایا ہے ۔

”حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ۔”جو شخص اللہ اور قیامت پر یقین رکھتا ہے وہ اپنے پڑوسی کو نہ ستائے ۔“(بخاری و مسلم)

اللہ کے نیک بندوں کا ہمیشہ یہی طرز عمل ہوتا ہے کہ وہ کسی کو ستاتے نہیں ۔بلکہ اگر کوئی انہیں ستائے تو صبر کرتے ہیں اور اپنے آرام کو قربان کر کے دوسروں کو راحت پہنچاتے ہیں۔ ایک مرتبہ ایک بزرگ چوہوں کی وجہ سے بہت پریشان رہتے تھے ۔کسی نے کہا کہ آپ بلی کیوں نہیں رکھ لیتے (کہ یہ کم بخت آپ کے گھر سے بھاگ جائیں) بزرگ نے جواب دیا کہ بلی اس لیے نہیںرکھتا کہ اس سے ڈر کر چوہے ہمسایہ کے گھر میں جا گھسیں گے اور اس کا مطلب تو ہوا کہ جس چیز کو میں اپنے لیے پسند نہیں کرتا اسے ہمسایہ کےلئے پسند کرتا ہوں۔

ہمسایوں کی ایذارسانی کی ممانعت:ہمسایوں کو مارنا یا کسی اور طریقے سے دکھ تکلیف پہنچانا گناہ ہے۔ کیونکہ نبی اکرم ﷺ نے ہمسایوں کو ایذارسانی سے منع فرمایا ہے :” حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی قسم وہ مومن نہیں ۔اللہ تعالیٰ کی قسم وہ مومن نہیں ۔اللہ تعالیٰ کی قسم وہ مومن نہیں ۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کون یارسول اللہ ﷺ ۔آپ ﷺ نے فرمایا جس کی ایذ ارسانی سے اس کا پڑوسی محفوظ نہ ہو۔(بخاری شریف)

اس حدیث میں یہ بتایا گیا ہے کہ ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ کسی ہمسایہ کو ایذا نہ دی جائے بلکہ حقیقت میں اہل ایمان وہی ہیں جن کے پڑوسی ان سے راضی ہیں ۔اللہ تعالیٰ ہمیں ہمسایوں کی عزت کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ایک اور حدیث میں ہے کہ قیامت کے دن درویش ہمسایہ اپنے امیر ہمسایہ سے اُلجھے گا اور اللہ تعالیٰ سے فریاد کرے گا کہ اے پروردگار !اس سے مواخذہ کیا جائے کہ یہ میرے ساتھ نیکی کرنے سے کیوں گریز کرتا رہا اور اس کے گھر کا دروازہ مجھ پر ہمیشہ کیوں بند رہا۔(کتب احادیث)

ایک اور روایت میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ کے پاس آکر عرض کیا ۔کہ فلاں عورت زیادہ نماز پڑھتی ہے ۔اور صدقہ خیرات کرتی ہے اور زیادہ روزے رکھتی ہے ۔لیکن وہ اپنے ہمسائے کو زبان سے تکلیف پہنچاتی ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا عورت جہنمی ہے ۔ (ترغیب)

ایک شخص نے حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں اپنے ہمسایہ کا شکوہ کیا ۔حضور اکرم ﷺ نے اس سے فرمایا صبر کر، تیسری یا چوتھی بار آپ نے فرمایا اپنا سامان راستہ میں پھینک دے ۔راوی کہتے ہیں کہ لوگوں نے جب اس کے سامان کو باہر راستہ پر پڑا دیکھا تو پوچھا کیا بات ہے ۔اس نے کہا مجھے ہمسایہ ستاتا ہے ۔لوگ وہاں سے گزرتے رہے پوچھتے رہے اور کہتے رہے اللہ تعالیٰ اس ہمسایہ پر لعنت کرے ۔جب اس نے یہ بات سنی تو آیا اسے کہا اپنا سامان واپس لے آ اللہ کی قسم میں پھر تمہیں کبھی تکلیف نہیں دوں گا۔ (کتب احادیث)

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اپنے پڑوسی کو ہمسایہ کو تکلیف پہنچانا حرام ہے اور جو پڑوسی کو تکلیف پہنچاتا ہے تو وہ گویا خدا اور رسول ﷺ کو تکلیف پہنچاتا ہے ۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”جس نے اپنے پڑوسی کو ایذ پہنچائی اس نے مجھے تکلیف دی اور جس نے مجھے تکلیف دی اس نے خدا کو تکلیف دی اور جس نے اپنے پڑوسی سے لڑائی کی اس نے مجھ سے لڑائی کی اور جس نے مجھ سے لڑائی کی ،اس نے اللہ تعالیٰ سے لڑائی کی ۔“(ترغیب)

اس سے معلوم ہوا کہ پڑوسی کو ستانا حرام ہے ،پڑوسی کو ستانے والا جنت میں نہیں جائے گا۔ حضور ﷺ نے فرمایا:”وہ بندہ جنت میں داخل نہیں ہو گا۔ جس کا پڑوسی اس کی ایذاﺅں سے امن میں نہ ہو۔(احمد)
ہمسایہ کی بیوی کی ناموس کی حفاظت:اپنے ہمسایوں کی عزت اور ناموس کی حفاظت کرنا فرض ہے اس لئے ہمسایہ کی بیوی کی ناموس کو مقدم سمجھنا چاہےے۔ دوسرے کی بیوی کی عزت پر ہاتھ ڈالنا بہت بڑا جرم ہے کیونکہ برائی جس جگہ بھی کی جائے برائی ہو گی لیکن اگر اس جگہ پر گناہ کیا جائے۔جہاں لازمی طور پر نیکی کرنی چاہیے تھی تو ظاہر ہے کہ اس گناہ اور برائی کا درجہ عام گناہوں اور برائیوں سے زیادہ ہو گا۔ بد قسمت انسان اگر کسی پڑوسی کی چوری کرے تو بہت برا کرے گا۔ ایسی حرکات بڑی شرم ناک ہوتی ہیں نبی کریم ﷺ نے اس کی بہت مذمت فرمائی ہے۔ لہٰذا ہمسایہ کی بیوی پر نہ خوددست دس درازی کرے اور نہ کسی اور کو کرنے دے ۔

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ سب سے بڑا گناہ کیا ہے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرنا جب کہ اس نے تجھے پیدا کیا ہے ۔اس نے عرض کیا پھر کونسا گناہ ہے فرمایا کہ تو اپنی اولاد کو اس خوف سے قتل کرے کہ وہ تیرے کھانے میں شریک ہو گی ۔اس نے کہا پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ اپنے پڑوسی کی بیوی سے بد کاری کرنا بہت بڑا گناہ ہے ۔(کتب احادیث)

ایسے ہی ایک مرتبہ آپ ﷺ نے سوال کے جواب میں فرمایا کہ :زنا حرام ہے ،خدا اور رسول نے اُس کو حرام کیا ہے لیکن دس بدکاریوں سے بڑھ کر بدکاری یہ ہے کہ کوئی اپنے پڑوسی کی بیوی سے بدکاری کرے ۔چوری حرام ہے ،خدا اور رسول نے اس کو حرام کیا ہے لیکن دس گھروں میں چوری کرنے سے بڑھ کر یہ ہے کہ کوئی اپنے پڑوسی کے گھر سے کچھ چرالے۔(کتب احادیث)

پڑوسیوں کو کھانا دینا:کھانے پینے کی چیزوں میںہمسایوں کا خیال رکھنا چاہےے تاکہ کوئی ہمسایہ بھوکانہ رہے اس بات کو نبی اکرم ﷺ نے بڑے احسن طریقے سے سمجھایا ہے کہ سالن پکاتے وقت تھوڑا پانی زیادہ ڈال لو تاکہ ہمسایہ کی ضرورت بھی پوری ہو جائے ۔

حضرت ابو ذررضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:اے ابو ذر ! جب شور باپکاﺅ تو پانی زیادہ ڈالا کرو اور اپنے پڑوسیوں کا خیال رکھو ۔ (مسلم شریف)

طبرانی کی ایک روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا کہ وہ کامل مومن نہیں جو خود آسو دہ حال ہو اور اس کا پڑوسی بھوکا ہو۔

ہمسایوں کو تحائف دینا:ہمسایوں میں محبت اور تعلقات کی بہتری کے لئے ایک دوسرے ہمسائے کو تحائف دینے کی ترغیب دی گئی ہے اس طرح دلوں میں ایک دوسرے کا احترام اور الفت پیدا ہوتی ہے ۔اس لئے نبی اکرم ﷺ نے مسلمان عورتوں کو اس طرح اس کی تاکید کی ہے کہ :حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ” اے مسلمان عورتو! کوئی عورت اپنی پڑوسن (کےلئے کسی چیز کو حقیر نہ جانے )اگر چہ بکری کا کھر ہی (تحفہ میں) ہو۔“(بخاری شریف)

معزز قارئین! آج تعلقات و رشتوںمیں اس قدر بے رغبتی اور بے حسی پیدا ہو گئی ہے کہ مسلمان نہ قرابت کا خیال کر رہا ہے اور نہ ہمسائیگی کا ۔بلکہ ہمسایہ سے تو اس طرح نفرت کی جاتی ہے کہ جیسے ازلی دشمن ہو ۔نبی آخر الزماں ﷺ کا متی ہمسایہ سے ویسے ہی سلوک کرے گاجس طرح ہمارے آقا ﷺ نے حکم فرمایا ہے ۔اگر آج ہمسائیگی کا اسلامی طریقے کے مطابق خیال رکھا جائے تو معاشرہ سے 50%برائیوں کا خاتمہ ہو سکتا ہے اور ایک بار پھر ہمارا معاشرہ دنیا کا اعلیٰ ترین معاشرہ بن سکتا ہے ۔
Pir Muhammad Tabassum Bashir Owaisi
About the Author: Pir Muhammad Tabassum Bashir Owaisi Read More Articles by Pir Muhammad Tabassum Bashir Owaisi: 198 Articles with 658909 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.