ذاتی مشاہدے کی روشنی میں یہ ایک حقیقت ہے کہ حالیہ برسوں کے دوران چین میں اناج کی پیداوار میں اضافہ اور خوراک کی قیمتیں مستحکم رہی ہیں۔یہ ملک کے پالیسی انتظامات اور دہائیوں پر محیط تیاریوں کا نتیجہ ہے جو دنیا بھر میں بڑھتی ہوئی بھوک اور غذائی قلت کے مایوس کن منظر نامے سے نمٹنے میں چین کی دانش مندانہ اور دوررس کوششوں کا مظہر بھی ہے۔فوڈ سکیورٹی سے وابستہ عالمی محققین تسلیم کرتے ہیں کہ چین میں ٹیکنالوجیز کو اپنانے اور پالیسی ٹولز کے لچکدار استعمال نے زرعی پیداوار کی حوصلہ افزائی کی ہے اور اناج کی فراہمی کے ایک ایسے نظام کی تعمیر میں مدد کی ہے جو خوراک کی فراہمی کے عالمی نظام میں پیدا ہونے والی افراتفری سے نمٹنے میں قدرے موئثر اور لچک دار ہے۔
یہ بات قابل زکر ہے کہ گزشتہ برس چین بھر کے بعض علاقوں میں شدید بارشوں، سیلابوں اور خشک سالی کے باوجود ملک کی مجموعی اناج کی پیداوار ریکارڈ 695 ملین میٹرک ٹن رہی جو سال بہ سال تقریباً ایک فیصد اضافہ ہے۔جامع فوڈ سیکیورٹی کو یقینی بنانے کے لئے، مرکزی حکام نے اپنی سالانہ نمبر 1 مرکزی دستاویز میں بھی دیہی علاقوں سے متعلق کاموں کے لئے خوراک کی فراہمی کو "دو ریڈ لائن ضروریات" میں سے ایک کے طور پر درج کیا ہے۔حکومت کی ترجیحات کا اشارہ دیتے ہوئے دستاویز میں کہا گیا ہے کہ رواں سال کی توجہ زرعی پیداوار کو بہتر بنانے اور بڑھتے ہوئے قابل کاشت علاقے کو مستحکم رکھنے پر ہوگی۔چین کے لیے یہ بات بھی قابل اطمینان ہے کہ ملک میں فی کس اناج کا ذخیرہ 490 کلوگرام سے زیادہ ہے، جو بین الاقوامی فوڈ سیکیورٹی بینچ مارک 400 کلوگرام سے کہیں زیادہ ہے۔ملک میں خوراک کی انوینٹری اور کھپت کا تناسب اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت کی جانب سے مقرر کردہ 17 سے 18 فیصد کی حفاظتی سطح سے کہیں زیادہ ہے۔تاہم کئی عالمی عوامل بشمول شدید موسمی واقعات، بڑھتی ہوئی تحفظ پسندی، علاقائی تنازعات اور بھارت کی جانب سے خشک سالی کی وجہ سے برآمدات پر پابندی نے چاول کی قیمتوں کو 15 سال کی بلند ترین سطح پر پہنچا دیا۔اس کے برعکس 2023 میں چین کی خوراک کی قیمتیں مستحکم رہیں اور ستمبر میں چاول کی مقامی خریداری کی قیمت جنوری کے مقابلے میں صرف 0.7 فیصد زیادہ رہی۔
انٹرنیشنل فوڈ پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے مطابق حالیہ چند دہائیوں میں دنیا نے 2015 تک خوراک کی فراہمی میں بہتری دیکھی۔مثال کے طور پر، اگر 1985 سے 2015 کے عرصے کو دیکھیں تو، بھوک اور غذائی قلت کے معاملے
میں دنیا میں نمایاں بہتری آئی ، اسی طرح غذائی تحفظ میں بہتری اور غربت میں بھی کمی دیکھی گئی۔تاہم 2015، کے آس پاس صورت حال کافی تبدیل ہوئی اور اب یہ دوسرے رخ پر ہے، جو واقعی پریشان کن ہے.اس کی کئی وجوہات ہیں جن میں نمایاں ترین سبب موسمیاتی تبدیلی ہے ، ساتھ ساتھ علاقائی تنازعات نے بھی بھوک کو ہوا دی ہے ۔یہ امر باعث تشویش ہے کہ 2015سے پہلے، تقریباً 20 سالوں تک، دنیا میں تقریباً 40 ملین افراد تھے جنہیں اپنا گھر بار چھوڑنا پڑا تھا. لیکن پچھلے سات،آٹھ سالوں میں یہ تعداد بڑھ کر 100 ملین تک پہنچ گئی ہے۔2008 کے آس پاس بین الاقوامی سطح پر خوراک کی قیمتوں میں اضافے نے ان ممالک کے لئے خطرے کی گھنٹی کے طور پر کام کیا ہے جو بیرون ملک پیدا ہونے والی خوراک پر انحصار کرتے تھے۔آج ، وبائی صورتحال اور علاقائی تنازعات نے ایک مرتبہ پھر قیمتوں میں اضافے کے باعث بہت سے ممالک کو شدید تشویش میں مبتلا کر دیا ہے اور خوراک میں خودکفالت کی اہمیت کہیں زیادہ محسوس کی گئی ہے۔
یہاں چین کو داد دینا پڑے گی کہ اُس نے چیلنجز کے باوجود 2023 میں اناج کی پیداوار میں ریکارڈاضافے کو یقینی بناتے ہوئے عوام کو فوڈ سیکیورٹی کی ضمانت دی ہے۔ چین طویل عرصے سے درآمد شدہ سویابین پر انحصار کرتا رہا ہے تاکہ گندم اور چاول کے لئے زیادہ سے زیادہ قابل کاشت علاقے پیدا کیے جاسکیں اور بنیادی خوراک کی فراہمی کی مطلق حفاظت کو یقینی بنایا جاسکے۔تاہم ،حال ہی میں حکام نے ، تجارتی تحفظ پسندی سے لے کر علاقائی تنازعات کی وجہ سے لاجسٹکس کی پریشانیوں تک بیرونی عوامل سے نمٹنے کے لئے گھریلو سویابین کی فراہمی کو بڑھانے کے لئے کام کیا ہے.گزشتہ سال سویابین کے لئے پودے لگانے کا رقبہ 10.4 ملین ہیکٹر تک پہنچ گیا ، جس میں 20.84 ملین ٹن کی ریکارڈ پیداوار ہوئی ہے۔یوں ، حالیہ برسوں میں خود کفالت کو فروغ دینے کے لیے ٹیکنالوجی پر مبنی نقطہ نظر اپنانے سے نہ صرف چین بلکہ پوری دنیا کو فائدہ ہو رہا ہے۔وسیع تناظر میں چین کو اس حقیقت کا بخوبی احساس ہے کہ وہ ایک بڑی آبادی کا حامل ملک ہے، لہذا عالمی سطح پر غذائی تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے اُسے اپنے ہاں فوڈ سکیورٹی کی ضمانت دینا ہو گی ،اسی سوچ اور ذمہ داری کے ساتھ چین تحفظ خوراک میں مستقل پیش رفت دکھا رہا ہے ۔
|