راجہ کی ریل ‘‘ ، بچوں کی کسی کہانی کا عنوان نہیںہے۔ یہ راجستھان کی ریاست کے ہندومہا راجہ کی اپنی رعایا سے ہمدردی، محبت اورانسان دوستی کی وجہ سے تھر کے ریت کے سمندر اور مٹی کے تودوں کے درمیان دوڑنے والی ریل کی تاریخی داستان ہے۔ 1900 ء میں راجستھان میں قحط پڑا ۔ویسے تو یہ خطہ باران رحمت نہ ہونے کی وجہ سے ہر سال قحط کی لپیٹ میں رہتا تھا لیکن اس دفعہ صورت حال خاصی مخدوش ہوگئی۔راجہ امید سنگھ نے ریاست کے قحط زدہ عوام کو موت کے منہ میں جانے سے بچانے کے لیے سندھ کےمختلف علاقوں سے غلہ اور پینے کا پانی منگوایا۔ صحرائی راستے،ریت کا سمندر، ٹیلے، جھاڑ جھنکاڑ کی وجہ سے اونٹوںپر لاد کرغلہ اور پانی منگوانے میں کافی وقت صرف ہوا۔اس قسم کے حالات سے نمٹنے کے لیے راجہ نےہندوستان سمیت برطانیہ کے ٹرین کے نظام کاجائزہ لیا۔اس نے بھارت کے کئی شہروں کا دورہ کیا اور ریلوے حکام اور انجینئروںسے اس بارے میں آگہی حاصل کی۔ اسے معلوم ہوا کہ 1801ء میں پہلی ریل گاڑی لندن میں چلائی گئی جسے ہارس پاور سےچلایا جاتا تھا یعنی گھوڑے کھینچتے تھے۔ واٹ ٹری وی تھک اور دیگر سائنسدانوں کی کوششوں سے بھاپ کاانجن تیار ہونے پر 1804ء میں پہلی مشینی ٹرین چلائی گئی۔ 1805ء میں جارج اسٹیفن نے ایسا انجن بنایا، جس کی رفتار پندرہ میل فی گھنٹہ تھی، انگلینڈ میں 1825ء میں پہلی ریلوے لائن بچھائی گئی تو جارج اسٹیفن کا بنایا ہوا یہ انجن لگایا گیا، اس انجن کا نام راکٹ تھا جارج اسٹیفن کو’’ فادر آف ریلوے‘‘ کہا جاتا ہے۔
برصغیر پاک و ہند بھی برطانوی حکومت کےزیر تسلط تھا،اس لیے 1832 میں مدراس میںمنعقدہ ایک سرکاری اجلاس میں ہندوستان کے شہروں کوریل کے ذریعے آپس میں ملانے کے لیے تجویز پیش کی گئی۔ اس تجویز پر عمل کرتے ہوئے 16 اپریل 1853ء کو بھارت میں پہلی بار ٹرین سروس کا آغاز ہوا۔ اس گاڑی نے ممبئی اور تھانے کے درمیان 34 کلو میٹر کا سفر طے کیا۔ ایک سال کے بعد کلکتہ میں ریل کے سفر کا آغاز ہوا۔ 15 اگست 1854ء کو ہوڑا سے ہگلی تک پہلی بار ٹرین چلائی گئی۔مدراس میں ریل کی پٹری بچھائی گئی اور 1850 میںاس کا افتتاح ہوا۔ 1870ء میں ممبئی اور کلکتہ کی بندرگاہوں کے درمیان ٹرین چلائی گئی۔ 1880ء میں بھارت میںریل کی پٹری کی کل لمبائی تقریباً 14،500 کلو میٹر ہو گئی۔ 1895ء میں بھارت میں ریلوے انجن بنانے کا آغاز ہواجس کے چند سالوں بعد وہاںبھاپ ،ڈیزل اور الیکٹرک انجن بننے لگے۔ 13؍مئی 1861ء کراچی اور کوٹری کے درمیان ریل کی پٹری بچھا ئی گئی جس کے بعداس ٹریک پر ٹرین چلنا شروع ہوئی۔ کراچی اور کوٹری کے بعد کوٹری اور حیدرآباد کے درمیان دریائے سندھ پر پل کی تعمیر کی گئی اور ریل کی پٹری بچھائی گئی۔
1898ء میںممبئی سے جودھ پورتک ٹرین کے سفر کا آغاز ہوا۔ 1900ء میںجودھ پور ریاست کے راجہ اور برطانوی حکومت کے درمیان معاہدے کے نتیجے میں باڑ میر سے شادی پلی تک ریلوے لائن بچھائی گئی۔سندھ میں گندم اور چاول کی فصلیں اچھی ہوتی تھیں جب کہ تھر اور راجستھان کا علاقہ خشک سالی کا شکار رہتا تھا۔ شادی پلی سے باڑ میر تک کے علاقوں کو ریلوے لائن بچھا کرباہمی مربوط کردیا گیا۔یہ وہ زمانہ تھا جب راجستھان اور صحرائے تھر شدید قحط کا شکار تھا، اس قدرتی آفت کو ’’چھپنا‘‘ قحط کا نام دیاگیا۔ریلوے کی اس سروس کا’’جودھپور، بیکانیر ریلوے ‘‘ کے نام سے ریلوے سیکشن بنایا گیا۔ شادی پلی سے باڑمیر تک پٹری بچھانے میں راجہ امید سنگھ کو بے پناہ مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ ریت کے سمندر میں پٹریاں بچھانا آسان کام نہیں تھا جب کہ اس زمانے میں بھاری مشینری اور باربرداری کی گاڑیاں بھی دستیاب نہیں تھیں۔ لیکن راجہ صاحب نے ہمت نہیں ہاری اور ان کی ان تھک محنت کے باعث کچھ ہی سالوں میں جودھ پور سے شادی پلی تک ریل گاڑی چلنا شروع ہوئی۔
10 نومبر 1924ء کو جودھپور ،بیکانیر سیکشن الگ کردیے گئے تو جودھ پور والے سیکشن کا نام جودھ پور ریلوے سروس رکھاگیا جس کے مالک جودھ پور کے مہاراجہ امید سنگھ تھے۔حیدرآباد سے شادی پلی تک انگریزوں نے ریلوے لائن بچھائی تھی۔ 1900ء میں تھر اور راجستھان کے باسیوں کو قحط سے بچانے کے لیے راجہ مادھو سنگھ نے انگریز حکام کے سامنے جودھ پور سے شادی پلی تک ریل کی پٹریاں بچھاکر ریلوے سروس شروع کرنے کا منصوبہ پیش کیا۔صحرائے تھر میں تاحد نگاہ ریت کی وجہ سے یہ منصوبہ بظاہر ناممکن نظر آ رہا تھا لیکن مادھو سنگھ نے اس کام کے لیے تمام اخراجات ریاست کے خزانے اور اپنی جیب سے کرانے کی یقین دہانی کرائی جس کے بعد انگریزوںنے اجازت دے دی۔ برطانوی حکومت نے حیدرآباد سے شادی پلی تک 106 کلومیٹر لمبی پٹری بچھائی تھی۔ ریاست جودھ پور نے بارمیر تا شادی پلی تک مزید 216 کلومیٹر طویل پٹری بچھائی ۔ اس ریلوے سروس کا سرکاری نام ’’سندھ میل ‘‘ رکھا گیا۔جب اس پٹری پر پہلی بار ٹرین چلائی گئی تو عجیب منظر تھا۔ لوگوں نے لق و ق صحرائی علاقے کے ٹرین میںبیٹھ کرنظارے کیے۔ راستے میں ہر طرف ریت کا سمندر، ریتیلے تودے، خشک جھاڑیاں نظر آرہی تھیں۔لیکن تھری اور راجستھانی عوام کے چہروں پر مسرت و شادمانی تھی۔قحط کےدنوں میں اس ٹرین کے ذریعے طویل عرصے تک سندھ سے جودھ پور تک زرعی اجناس جن میں گندم، جاول، باجرہ ، چاو ل شامل تھے اور پینے کا شفاف پانی خرید کر جودھ پور لے جایا جاتا تھا۔یہ تمام اشیائے خورونوش مہاراجہ مادھو سنگھ اپنی رعایا میں مفت تقسیم کراتےتھے۔ اکثر و بیشتروہ بھی اس ٹرین میں بیٹھ کر صحرائے تھر کی سیر کرتے ۔عوام کو بھی راجہ جی کی ریل کی صورت میںسستا ، تیز رفتار اور آرام دہ ذریعہ سفر میسر آگیا تھا۔
تقسیمِ ہند کے بعد مہاراجہ مادھوسنگھ نے ’’راجہ کی ریل ‘‘، پاکستان کو فروخت کردی اور یہ پاکستان نارتھ ویسٹرن ریلوے کا حصہ بن گئی۔ تقسیم ہند کے بعد ہندوستان اور پاکستان کے باشندے اس ٹرین کے ذریعے سفر کرکے اپنے اعزاء سے ملنےبھارت اورپاکستان آ تے جاتے تھے۔ 1965ء کی پاک بھارت جنگ تک یہ ٹرین چلتی رہی۔راجہ کی ریل میرپورخاص سے صبح آٹھ بجے روانہ ہوتی تھی اور شادی پلی، پتھورو اور چھور ریلوے اسٹیشن سے گزر کر دوپہر کو ایک بجے موناباؤ پہنچتی تھی۔ یہ ریل 56کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر طے کرتی تھی۔ 18 فروری 2006 میں 41 سال کی بندش کے بعد یہ ٹرین دوبارہ چلنا شروع ہوئی جو موناباؤ اور کھوپراپار سےگزرتی ہوئی جودھ پورتک جاتی ہے۔ وہاں سے مسافرحضرات ٹرین تبدیل کرکے اجمیر، آگرہ، ممبئی، دہلی سمیت دیگر شہروں کا رخ کرتے ہیں۔
اس ٹرین کے نام تبدیل ہوتے رہے،سندھ میل کے بعد تھر ایکسپریس رکھا گیا۔ سندھ میں عمر ، ماروی کی داستان کی ہیروئین ’’ماروی ‘‘ کے نام پر اسے ماروی ایکسپریس کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ لیکن راجہ مادھو سنگھ کی انسان دوستی اوررعایا سے محبت کی وجہ سے یہ ٹرین آج بھی ’’راجہ جی کی ریل ‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔
|