کبھی کبھی انسان کو کسی کے الفاظ مرحم کی طرح لگتے ھیں اور زندگی کی کتاب کے سب ورقے خود ھی پلٹنے لگتے ھیں۔ یہ تحریر میری اب تک گزری ھوئی زندگی کا حاصل ھے، ھو سکے تو کوشش کر کے زرا توجہ سے پڑہئیے گا! زندگی ویسی نہیں ہے جیسی میں نے اور آپ نے چاہا تھا۔ بہت کچھ ملا نہیں، کتنا کچھ ہاتھ آ کے کھو دیا۔ کبھی جب ہر چیز ہاتھ سے ایک ایک کر کے چھوٹتی جائے تو لگتا ہے کہ جذباتی، ذہنی، روحانی اور نتیجتاً جسمانی طور پر بھی rock bottom سے جا ٹکرائے ہیں۔ rock bottomسمجھتے ہیں؟ اسکا مطلب ہے پست ترین سطح۔ جہاں سے اب مزید گہرائی میں نہ جایا جا سکے۔ کبھی کبھی زندگی میں ہم راک باٹم سے جا ٹکراتے ہیں۔ اب ایک تو یہ طریقہ ہے کہ وہاں اپنے بخت کو نصیب کو روتے رہیں۔ ہم نے کیا کیا سوچ رکھا تھا خود سے، زندگی سے اور نصیب ہمیں پاتال کی گہرائیوں میں لے آیا جہاں اندھیرا ہے، سانس رکتا ہے۔۔۔ یا یہ سوچیں کہ زندگی نے مجھے وہاں لا پھینکا ہے جس سے زیادہ نیچے جانا ممکن نہیں۔ اب بس اوپر ہی جایا جا سکتا ہے۔
اس پوائنٹ پر یا تو ہاتھ پیر چھوڑ بیٹھیں یا جیسے ایک سائکاٹرسٹ کہتی ہیں، تجربات کے تمام موتی اکٹھے کریں اور اوپر کی طرف تیرنا شروع کریں۔ تیرنے سے جسم میں مضبوطی ھو گی، ورنہ راک باٹم سے ٹکرانا انتہائی اذیت ناک عمل ہے۔ ایک بار تو انسان پھٹ جاتا ہے۔ پاش پاش ہو جاتا ہے۔دکھ اور تکلیف کی شدتوں میں آنسو تھمتے نھیں ھیں۔یہ وہ وقت ہوتا ہے جو ہمیں جھنجھوڑ کر رکھ دیتا ہے۔ آنسوؤں کی دھند چھٹتی ہے تو منظر واضح ہو کے سامنے آتا ہے۔ اب انسان بقائمئ ہوش و حواس سوچتا ہے کہ ہو کیا رہا ہے اور میرے ساتھ ہی کیوں ہو رہا ہے۔۔؟ہمیں اوّل دن سےاپنی اور دوسروں کی غلطیاں دکھائی دینے لگتی ہیں۔ جھوٹ سچ واضح ہونے لگتا ہے۔ لیکن مزے کی بات یہ کہ سب سے بڑھ کر خود شناسی اس مقام پر حاصل ہوتی ہے۔ میں نے کیا کیا، کیوں کیا، میرا یقین، میرے خوف، میری کامیابیاں، ناکامیاں، لوگوں کے رویے، ہمارے رد عمل۔۔ سب واضح ہو جاتا ہے۔ اب ان حقائق کو سامنے رکھ کر ہم اپنی ذات کے کچھ نئے اصول وضع کرتے ہیں۔ یہ وہ مقام ہوتا ہے جہاں ہم گھٹنے ٹیک دیتے ہیں۔ ہم جنہیں خود پر ، کسی دوسرےرشتے پر،کہیں نہ کہیں، کسی نہ کسی اعتبار سے بہت ناز تھا، خود کو بے بسی کی انتہا پر پاتے ہیں۔ ہماری ذہانت، عقلمندی، اخلاق، مزاج جن پر ہمارا فخر تھا وہ ایک ایک کر کے ساتھ چھوڑ جائیں تو سمجھ آتی ہے کہ اللہ کا ساتھ نہ ہو تو ہم کوئی خوشی مٹھی میں بند نہیں کر سکتے۔ اب ہر چیز سے فوکس ہٹتا ہے تو رب کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ گھٹنے تو ٹیک ہی دیے تھے، سر بھی ٹیک دیتے ہیں۔ راک باٹم میں خدا سے تعلق کسی اور ہی نوعیت کا ہوا کرتا ہے۔
جب دنیاوی سہارے چھوٹ جائیں تو دل میں عاجزی پیدا ہوتی ہے۔ اور ایمپتھی بھی پیدا ھوتی ھے کہ جب ہم خود تکلیف کی شدتوں سے گزرتے ہیں تو پھر کسی کا دکھ بھی سیدھا دل پر لگتا ہے۔ یہ انکسار اورمزاج کی نرمی کہاں سے پاتے ہم اگر زندگی راک باٹم سے ٹکرانے کا موقع نہ دیتی۔ ؟سوچیں یہ تو نعمت بن گئی۔
اب ہیرے موتی چن لیے، واپسی کا سفر ہے۔ سفر کرنا ہو تو وزن ہلکا کرنا ہوتا ہے۔ ہمیں بھی واپس اوپر جانا ہے تو کیسے کینہ، غصہ، نفرتیں ساتھ لیکر چلیں؟یہاں اللّٰھ نے اب سمجھا دیا ہے کہ let go کرنا ہے۔ مشکل ہے، میں جانتی ہوں۔ لیکن اتار پھینکیں یہ فالتو کا بوجھ۔ ٹھیک ہے آپ سے غلطیاں ہوئیں۔ انکی ذمہ داری سو فیصد قبول کریں۔ معاف کریں خود کو، دوسروں کو اور ہلکے پھلکے ہو کے واپسی کا سفر شروع کریں۔ جب ایک لمبا اور مشکل سفر طے کر کے آپ اوپر سطح تک آئیں گے تو خود اعتمادی اور تشکر آپ کے پور پور سے جھلکے گا۔
یہ دنیا عارضی ہے۔ یہاں کی خوشیاں عارضی ہیں تو یہاں کے غم بھی مستقل نہیں۔ ہونٹوں پر ہنسی باقی نہیں رہی تو آنکھوں میں آنسو بھی ہمیشہ نہیں رہیں گے۔ تہجد میں مانگیں اپنے رب سے۔ وہ آپکو نامراد نہیں لوٹائے گا۔ کوشش اور دعا جاری رکھیں اور پھر اللہ پر چھوڑ دیں۔ وہ تھام لینے پر قادر ہے۔۔ ہاں، ٹائم فریم اسکا اپنا ہے۔ اس پر بھروسہ رکھیں۔ وہ ایسا نوازے گا کہ آپکو خوش کر دے گا۔
اللہ نہ کرے ہم یوں گہرائیوں اور اندھیروں میں جائیں لیکن بعض اوقات جتنا آسان لگ رہا ہوتا ہے کرنا اتنا ہی مشکل ہوتا ہے ۔اسی لئے ڈیپریشن جیسی بیماری معاشرے کی رگوں میں سرایت کر چکی ہے۔
جب صرف دعا سے کام نہ چلے تو اس کے ساتھ دوا بھی ملانی پڑتی ہے۔ راک باٹم میں طویل مدت رکے رہنا آپ کی صحت کے لئے ٹھیک نہیں۔ خود نہیں اٹھ پارہے تو کسی کی مدد لیجیے، لیکن یہاں اندھیروں میں مت رہیے۔توبس جان رکھیے، "زندگی ویسی نہیں جیسی میں نے اور آپ نے چاہا تھا۔" اب یونس علیہ السلام کی دعا پورے شعور سے، مندرجہ بالا تمام نکات ذہن میں رکھ کر پڑھیے۔ اللہ نکالے گا اندھیروں سے۔ لا الہ الا انت سبحنک انی کنت من الظلمین۔ بیشک اللہ کسی نفس کو اس کی وسعت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا۔ مجھے دعاوں میں یاد رکھیے گا☺️۔
|