سر منڈاتے ہی اولے پڑے

سر ہم نے مکہ مکرمہ میں عمرے کی ادائیگی کے بعد منڈوایا، اولے کراچی میں پڑے

" سر منڈاتے ہی اولے پڑے" یہ محاورہ ہم بچپن سے سنتے آرہے ہیں اور اب تو پچپن سال کی عمر کی حدود سے بھی آگے نکل گئے ہیں۔ سوا مہینے کی عمر میں ہمارا سر مونڈا گیا ہو تو کہہ نہیں سکتے لیکن لڑکپن اور جوانی میں ہم نے ہمیشہ اپنی زلفوں کو دلیپ کمار مرحوم کے انداز میں سنوارنے کی کوشش کی، ہمیں نہیں معلوم کہ ہم اس میں کتنے کامیاب ہوئے کیوں کہ دوستی کے باوجود کسی بھی فلم ڈائریکٹر نے ہمیں گھاس نہیں ڈالی۔ باران رحمت تو کراچی میں کبھی کبھار ہوہی جاتی ہے لیکن ژالہ باری سے کبھی واسطہ نہیں پڑا۔ اس سال مارچ کے مہینے میں نہ صرف ہمیں سر منڈوانا پڑا بلکہ کراچی میں اولے پڑنے کی خبر بھی سنی لیکن اپنے سر سے دور ۔ ہم " سر منڈاتے ہی اولے پڑے" والے محاورے کو اپنے سر پر عملی صورت میں دیکھنے سے اس لئے محروم رہے کیونکہ اس وقت کراچی سے ہزاروں میل دور ہم عمرے کے فریضے کی ادائیگی کے لئے مکہ معظمہ میں تھے۔ اپنے بیٹے اور نواسے کے ساتھ خانہ کعبہ میں عمرے کی ادائیگی کے بعد کبوتر چوک کی ایک دکان سے اجتماعی طور پر "حلق" کرا کر ہم تینوں جیسے ہی دکان سے نکلے، ویسے ہی ہمیں فون پر کراچی میں اولے پڑنے کی اطلاع ملی۔ ہم نے اس بات پر اللہ کا شکر ادا کیا کہ ہم نے سر مذہبی فریضہ پورا کرنے کے لئے منڈوایا ورنہ اپنے شہر میں اگر "ٹنڈ" کراتے تو اتنی چپتیں پڑتیں کہ کھوپڑی پلپلی ہوجاتی کیوں کہ اپنے گنجے دوستوں کو دیکھ کر ہماری ہتھیلی میں بھی کھجلی ہونے لگتی تھی۔

یہ بات ہماری فہم سے بالاتر ہے کہ " سر منڈانے کے بعد اولے پڑنے کا محاورہ کیوں رائج العام ہوا، کیوں کہ ہم نے بے شمار لوگوں کو سر منڈوانے کے بعد سر پر چپت کھاتے دیکھا ہے، اولے پڑتے کہیں نظر نہیں آئے ۔ شکر کریں کہ ہماری سر منڈائی کی رسم بچپن میں اس عمر میں ہوئی جب ماں باپ کے علاؤہ لوگ ہمارے سر پر ہاتھ لگاتے ہوئے ڈرتے تھے۔ پچپن کی عمر میں اس مقدس مقام پر ہر جانب "حلق" کروائے ہوئے لوگ دکھائی دے رہے تھے۔ بیت اللہ شریف کے قریب پاکستانی، بنگالی اور بھارتی باشندوں نے اسی منفعت بخش پیشے کو اپنایا ہے۔ بہرحال ہمارا سر مبارک منڈنے کے بعد "اولے" اور "چپت" کی ضربات سے محفوظ رہا۔

"بال کی کھال نکالنا" اس محاورے کے مفہوم سے بھی ہم نابلد ہیں۔ شیونگ کرتے ہوئے بلیڈ کی دھار سے کھال میں سے تو بال نکلتے ہیں لیکن بال میں سے کھال نکلتے شاید ہی کسی نے دیکھے ہوں کیوں کہ بال اتنا باریک ہوتا ہے کہ اس میں سے جوں یا دھک تو نکل سکتی ہے لیکن کھال رکھنے کی گنجائش نہیں ہوتی۔ ہوسکتا ہے قدیم دور کے دانش وروں کا کھال سے مراد شاید جوں کی کھال ہو۔ اب تو ہم خود بال کی کھال نکالنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن بال میں سے زیادہ تر کھالیں جوں کی صورت میں صرف خواتین کے سروں سے ہی نکلتے دیکھی ہیں اس لئے بال کی کھال نکالنے کا محاورہ صرف خواتین پر ہی صادق آتا ہے اس لئے مردوں کو سر منڈوانے کے بعد اولوں پر ہی اکتفا کرنا پڑے گا۔

Rafi Abbasi
About the Author: Rafi Abbasi Read More Articles by Rafi Abbasi: 4 Articles with 166 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.