محرم اور نا محرم قرآن کی روح سے

عورت کا محرم قرآن کی روح سے
وہ عورتیں اور مرد جن کا اسلام کی روح سے آپس میں نکا ح حرام ہے ایک دوسرے کے محرم
کہلاتے ہیں قرآن میں اللہ تعا لٰی ارشا د فر ما تا ہے ۔
" اور ان عورتوں سےنکا ح نہ کرو جن سے تما رے باپوں نے نکاح کیا ہے۔ مگر جو گزر چکا ہے۔ یہ
بے حیا‍‌‎ئی کا کام ہے اور بغض کا سبب ہے اور بڑی بری بات ہے۔ حرام کی گئیں تم پر تمہا ری مائیں اور تمہاری بیٹیا ں اور تماری بہنیں اور تمہا ری پھو پھیاں اور تمہا ری خا لائیں اور بھائی کی لڑکیا ں اور بہن کی لڑکیاں اور تمہا ری وہ ما ئیں جنہو ں نے تمہيں دودھ پلا یا ہواور تمہا ری دودھ شریک بہنیں اور تمہاری ساس اور تمہاری وہ پرورش کردہ لڑکیا ں جو تمہاری ان عورتوں سے جن سے تم دخول کرچکے ہو ہاں اگر تم نے ان سے جما ع نہ کیا ہو تم پر کوئی گناہ نہیں اور تمہا رے صلبی سگے بیٹوں کی بیویاں اوردو بہنوں کا جمع کرنا ہاں جو گزر چکا۔ یقیناً اللہ تعالی بخشنے والا مہربان ہے" سورہ نساء 22-23

اوپر کی آیات میں جن عورتوں سے نکاح کرنا حرام ہے انکی تفصیل بیان کی جا رہی ہے۔ زما نہ جا ہلیت میں سوتیلے بیٹے اپنے پاب کی بیوی (سوتیلی ماں) سے نکاح کر لیتے تھے اس سے روکا جا رہا ہے یہ بہت ہی بے حیا ئی کا کام ہے۔

جن عورتوں سے نکاح کر نا حرام ہے ان میں سات محرمات نسب سے ، سات رضاعی اور چار سسرالی ہیں۔ سات نسبی محرمات میں مائیں، بیٹیاں، بہنیں، پھوپھیاں، خالائیں، بھتیجیاں اور بھا نجیاں شامل ہیں۔

سات رضا‏عی محرمات میں رضاعی ما ئیں ، رضاعی بیٹیاں (رضاعی باپ کی رضا عی بیٹیاں) رضاعی بہنیں، رضاعی پھوپھیاں، رضاعی خالا‏ئیں، رضاعی بھتیجیاں اور رضا عی بھا نجیاں۔

سسرالی محرمات میں ساس ، ربا‏ئب (مدخولا بیوی کے پہلے خاوند سے لڑکیاں)،بہو اور دو سگی بہنوں کا ایک وقت نکاح میں جمع کرنا ہے ہاں موت یا طلاق کی صورت میں دوسری بہن سے نکاح جائز ہے(عدت کے بعد طلاق کی صورت میں)۔

حدیث سے ثابت ہے کہ بھتیجی اور پھوپھی ، خالہ اور بھانجی کو ایک نکاح میں جمع کر نا حرام ہے۔

اور جب تک بیوی نکاح میں ہے اسکی پھوپھی اور خالہ اور اسکی بھانجی اور بھتیجی سے نکاح حرام ہے۔

محرامات نسبی کی تفصیل میں "أُمَّهَاتٌ" (مائیں) میں ما‎ؤں کی مائیں (نانیاں،پرنانیا اور ان سے آگے)
اور باپ کی مائیں (دادیاں،پردادیاں اور ان سے آگے) "بَنَاتٌ" (بیٹیاں) میں پوتیاں،نواسیاں اور پوتیوں ، نواسیوں کی بیٹیاں (نیچے تک) شامل ہیں۔

رضاعی محرمات میں رضاعی ماں جسکا دودھ تم نے مدت رضاعت یعنی (امام ابو حنیفہ کے نزدیک شیرخورای کی مدت تیس ماہ ہے جبکہ صاحبین کے نزدیک دو سال ہے) کے اندر پیا ہوشیر خواری کی مدت کے بعد جو دودھ پیا جائے اس سے حرمت ثابت نہی ہوتی اللہ تعالٰی نے رضاعت (شیرخوار) کو نسب کے قائم مقام کیا ہے۔ رضاعی بہن وہ ہو گی جسکو تماری حقیقی یا رضا عی ماں نے دودھ پلایا ہو ، تمہارے ساتھ پلایاہو تم سے پہلے پلایا ہو یا بعد میں تمہارے اور بہن بھائیوں کے ساتھ پلایا ہو۔اور جس لڑکی کی حقیقی یا رضاعی ماں نے تمہیں دودھ پلایا ہو چائیے مختلف اوقات ہی میں پلایا ہو۔

رضاعت سے بھی وہ تمام رشتے حرام ہو جا ئیں گےجو نسب سے حرام ہو تے ہیں۔اس کی تفصیل یہ ہے۔

رضاعی ماں بننےوالی عورت کی نسبی اور رضاعی اولاد دودھ پینے والے بچے کی بہن بھا‏‏ئی ہو نگے اس عورت کا شوہر اس بچے کا باپ اور اس مرد (دودھ پلانے والی عورت کا شوہر) کی بہنں اس بچے کی پھوپھیاں اور اس عورت (دودھ پلانے والی) کی بہنں اس بچے کی خالائیں اور اس عورت کے دیور اس بچے کے چچا بن جا‏ئیں گے۔ دودھ پلانے والی کے خاوند کا ہر بچہ جو دودھ پلانے والی کے سوا اور کسی عورت سے بھی ہو خواہ وہ قبل شیر خواری کے پیدا ہو یا اس کے بعد وہ سب اس بچے کے سوتیلے بہن بھا ‏‏ئی ہو نگے۔ اس طرح دودھ پلانے والی اس شوہر کے علاوہ دوسرے شوہر سے جو بچے ہوں وہ بھی اس بچے کے سو تیلے بہن بھائی ہوں گے۔ جبکہ رضاعی بیٹے کی بیوی حرام ہے ۔

اور اس دودھ پینے والے بچے کے نسبی بہن بھا‏ئی وغیرہ اس گھرانے پر رضاعت کی بنا پر حرام نہ ہونگے۔

لے پالک بیٹوں کی بیویوں سے نکاح حرام نہی ‏ہیں جبکہ سگے بیٹوں کی بیویوں سے نکاح حرام ہوگا۔

دو بہنیں (رضاعی ہوں یا نسبی)ان سے بیک وقت نکاح حرام ہے البتہ ایک کی وفات کے بعد یا طلاق کی صورت میں عدت گزر نے کے بعد دوسری بہن سے نکاح جائز ہے۔ اسی طرح چار بیویوں میں سے ایک کو طلاق دینے سے پانچویں نکاح کی اجازت ہیں جب کہ طلاق یافتہ عورت عدت سے فارغ نہ ہو جائے۔

اسکے علاوہ جو عورتیں دوسروں کے نکاح میں ہوں تو اللہ تعالیٰ نے انکو بھی حرام قرار دیا ہے۔
قرآن مجید میں اللہ تعلی ارشاد فرماتا ہے ۔
"اور حرام ہیں شوہر دار عورتیں۔" سورہ النساء 24
‏منصور علی شاہ
About the Author: ‏منصور علی شاہ Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.