اسلام امن و سلامتی کا دین ہے جو
فساد اور دہشت گردی کو ختم کرنے آیا ہے اور دنیا میں برپا فساد کا واحد
علاج اسلام ہے۔ بدقسمتی سے فسادیوں اور دہشت گردوں نے اسلام کو اور نبی صلی
اللہ علیہ وسلم کی ذات مطہرہ کو نشانہ بنایا ہے اور اس کے خلاف پروپیگنڈہ
شروع کر رکھا ہے۔ اسلام عربی زبان کا لفظ ہے جس کا مادہ ”سلم“ ہے جس کے
معنی اطاعت اور سپردگی کے ہیں، اس کے معنی امن و سلامتی کے بھی ہیں۔ لہذا
مسلمان جہاں اطاعت الٰہی کا نمونہ ہوتا وہاں امن و سلامتی کا پیکر بھی ہوتا
ہے۔
یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ
علیہ وسلم دنیا میں امن و امان کا قیام چاہتے ہیں جبکہ منکرین اور کفار
فساد کے داعی ہوتے ہیں۔ کفر اللہ اور اس کے رسول کے خلاف بھی جنگ ہے اور
روئے زمین کے امن کے خلاف بھی۔ قرآن پاک میں کئی جگہ فساد کی مذمت کی گئی
ہے اور اس میں مبتلا ہونے سے روکا ہے کیونکہ یہ انسان کے امن و سکون کے لئے
مہلک ہوتا ہے۔ جس طرح قرآن پاک امن و فساد کے بارے میں واضح ہدایات دیتا ہے
اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا طرز عمل اور ارشادات بھی امن اور فساد
کے بارے میں بہترین راہنمائی مہیا کرتے ہیں۔
سرکار دو جہاں کی ذات گرامی جملہ اوصاف حمیدہ کا پیکر تھی۔ آپ صلی اللہ
علیہ وسلم محض ایک نبی نہ تھے بلکہ بیک وقت امیر مملکت، سپہ سالار، قاضی،
ہادی اور مصلح کے فرائض سرانجام دے رہے تھے۔ علاوہ ازیں آپ صلی اللہ علیہ
وسلم صاحب اولاد بھی تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات بھی تھیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خدام بھی تھے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تجارت
بھی کی۔ غرض کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا کوئی پہلو بھی لیں، آپ
صلی اللہ علیہ وسلم اس میں اپنی مثال آپ تھے۔
حسن یوسف دم عیسیٰ ید بیضا داری
آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری
مکہ مکرمہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم تیرہ برس تک اپنے حسن بیان اور حسن
عمل سے مشرکین مکہ کو اسلام کی دعوت دیتے رہے۔ اس دوران مشرکین کی طرف سے
تشدد آمیز کاروائیاں ہوئیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحا بہ نے تمام تر
مخالفتوں اور ایذاء رسانیوں کا صبر و تحمل سے مقابلہ کیا۔ مکہ مکرمہ میں
دین حق کے لئے کاوشیں اور مشرکین کے تشدد رویوں پر استقامت کو قرآن نے جہاد
سے تعبیر کیا ہے اور یہ ایک پرامن جدوجہد تھی۔ اس سلسلے میں ارشاد باری
تعالیٰ ہے
والذین جاھدوا فینا لنھدینھم سبلنا وان اللہ لمع المحسینین (العنکبو ت 69)
تر جمہ: جن لوگوں نے ہماری راہ میں جدوجہد کی ہم ان کو ضرور اپنے راستے
دکھائیں گے اور اللہ تعالی ٰ تو نیکو کاروں کے ساتھ ہے۔
اکثر مفسرین کے نزدیک یہ سورة ''مکی'' ہے اور یہا ں ''جاھدوا'' کے معانی
انتہائی درجے کی محنت و کوشش اور استقامت کے ہیں ۔ یہاں جہاد کا لفظ میدان
جنگ میں لڑائی کے لیے استعمال نہیں ہوا۔
مکی دور پرامن جدوجہد کا دور ہے۔ تکالیف، اذیتیں، تحقیر و تذلیل حتیٰ کہ
بعض ساتھیوں کی شہادت بھی اس پرامن جدوجہد کو تصادم کی راہ پر نہ لا سکی۔
یہاں تک کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے مد ینہ ہجرت فرما گئے۔ ہجرت کے
بعد بھی کفار مکہ نے تشدد آمیز رویوں کو ترک نہ کیا اور مسلمانوں پر مسلسل
دباﺅ جاری رکھا۔ اس تشدد کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو مناسب
جواب دینے اور میدان جنگ میں مقابلے کی اجازت فرما دی لیکن اس میں بھی
اعتدال و توازن بر قرار رکھنے پر زور دیا گیا۔ اس مسلح تصادم کی صورت میں
بھی امن و آشتی اور صلح کی کوششوں کو پیش نظر رکھا۔ اللہ تعالیٰ نے
مسلمانوں کو حکم دیا کہ اگر دشمن صلح کی راہ اختیا ر کرے تو تمہیں بھی اس
سے گریز نہیں کرنی چاہیے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی جنگی سرگرمیوں کا جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ
یہ جنگیں کفار کے جارحانہ رویوں کا جواب تھا۔ مشرکین مکہ کی جارحیت تو واضح
ہے۔ یہودیوں اور عیسائیوں کے خلاف بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اقدامات
ان کی جارحانہ کاروائیوں اور سازشوں کی وجہ سے تھے۔ مسلمانوں نے کبھی جنگ
میں پہل نہیں کی۔
بنی غطفان سے جنگ مومن عورت کی بے حرمتی کی وجہ سے، بنی قریظہ سے عہد شکنی
کے باعث اور غزوہ بنی نصیر کا باعث نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کی سازش
تھی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حارث بن عمیرؓ کو دعوت اسلام کا خط دے کر
والی شام شرجیل بن عمرو کے پاس بھیجا۔ شرجیل نے اخلاقی قدروں کو بالائے طاق
رکھتے ہوئے حارثؓ کو شہید کر دیا۔ ان کی مظلومانہ شہادت نے نبی صلی اللہ
علیہ وسلم کو جنگ پر مجبور کر دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فوج موتہ
کی طرف بھیجی۔ اس واقعہ کو ابھی ایک سال بھی نہ گزرا تھا کہ شام میں دشمن
کی فوجیں جمع ہو کر مدینے پر حملے کی تیاریا ں کرنے لگیں تو نبی صلی اللہ
علیہ وسلم دفا ع کے لیے نکلے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ قیام امن کی ضامن ہے۔ آپ صلی اللہ
علیہ وسلم نے فتنہ و فساد کو ختم کر کے امن کا جو نظام متعارف کرایا تھا اس
کے بارے میں فرمایا:
ان اللہ نا صر و کم و معیطکم حتٰی تسیر اً لظعینة فیما بین یثرب و الحیرة
او اکثر
ما یغاف علی مطیتھا السرق (ترمذی: ابواب التفیر، مسند احمد)
ترجمہ: "اللہ تعالیٰ تمھا ری ایسی مدد کرنے والا اور عطاء کرنے والا ہے کہ
ایک ہودج نشین عورت مدینہ اور حیرہ کے درمیان یا اس سے بھی دور سے تنہا
طویل سفر کرے گی اور اسے چوروں اور ڈا کووں کا کوئی خطرہ نہ ہو گا"۔
مسلمان اور مومن کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا کہ مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور
ہاتھ سے مسلمان محفوظ رہیں اور مومن وہ ہے جس سے لوگ اپنی جانوں اور مالوں
کو مامون جانیں۔ جب دشمن مسلمانوں کے علاقوں پر حملہ آور ہو تو مسلمانوں پر
جہاد فرض ہو جاتا ہے اس کی وا ضح مثال غزوہ خندق ہے۔ مشرکین مکہ نے مدینہ
کی شہری ریاست پر حملہ کر دیا تھا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دفاعی
حکمت عملی کے تحت خندق کھدوائی اور ہر شخص نے اس میں حصہ لیا۔
قتال کے سلسلے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی جو ہدایات ہیں وہ انسانی
تاریخ میں منفرد اہمیت کی حامل ہیں۔ جہاد کے خلاف مغرب کی چلائی گئی مہم
سراسر بدیانتی اور تعصب پر مبنی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسیروں کو
قتل کرنے سے منع فرمایا۔ کوئی بھی قوم جب فاتح بنتی ہے تو وہ مفتوح کی عزت،
جان اور مال کو لوٹتی ہے اور ان کی زندگی اجیرن بنا دیتی ہے۔ فتح مکہ کے
موقع پر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں داخل ہونے لگے تو فرمایا: "کسی
مجروح پر حملہ نہ کیا جائے۔ کسی بھاگنے والے کا پیچھا نہ کیا جائے۔ کسی
قیدی کو قتل نہ کیا جائے اور جو اپنے گھر کا دروازہ بند کر لے وہ امان میں
ہے"۔
بدعہدی ایک ایسی برائی ہے جو مخالف گروہوں میں اکثر پائی جاتی ہے۔ اسلام نے
اسے بدترین گناہ قرار دیا ہے۔ جنگ کی حالت میں بھی بدعہدی سے منع فرمایا
ہے۔
دور حاضر کی فوجوں کا نظم و ضبط نہایت شاندار ہے خصوصاً مغرب نے نظم و ضبط
میں کافی پیش رفت کی ہے لیکن جنگ کے دنوں میں دشمن کے عام لوگوں کو تنگ
کرنے کے سلسلے میں کوئی اصول و ضوابط نہیں رکھتے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم
نے چودہ سو برس پہلے نظم و ضبط اور عام انسانوں بشمول عورتوں، بچوں،
بوڑھوں، بیماروں، گوشہ نشین زاہدوں، مندروں کے مجاوروں اور پجاری وغیرہ کے
قتل سے منع فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آگ میں جلا نے، باندھ کر
مارنے سے، تباہ کاری سے، لاش کو بگاڑنے سے، سفیر کو قتل سے، بدعہدی اور
وحشیانہ اعمال کے ارتکاب سے منع فرمایا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے
مجاہدین کو خبردار کرتے ہوئے فرمایا: "جو کوئی منزل کو تنگ کرے گا یا راہ
گیروں کو لوٹے گا اس کا جہاد نہیں ہو گا "۔
جب کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو شر و فساد کی خبر ملی تو آپ صلی اللہ
علیہ وسلم نے اس کی اصلاح فرمائی۔ عبد اللہ بن ابی رئیس المنافقین ایک بار
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نہایت گستاخانہ انداز میں پیش آیا
یہاں تک کہ صحابہؓ سے ضبط نہ ہو سکا تو وہ لڑنے کے لئے تیار ہو گئے۔ ادھر
اِبن اُبی کے ساتھی بھی اس کی حمایت میں کھڑے ہو گئے۔ فریقین باہم دست و
گریباں ہو گئے۔ ایسے عالم میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو سمجھا
بجھا کر الگ کیا اور فرمایا "صلح فساد سے بہتر ہے"۔
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ انبیاء کی جدوجہد کے سلسلے میں قرآن پاک نے جو
تاریخ دعوت بیان کی ہے اس سے واضح ہوتا ہے کہ کفر کی قیادتیں ہمیشہ متشدد
رہی ہیں۔ کافرانہ و مشرکانہ معاشرے کا عام آدمی اسلام کے پیغام کو سمجھنا
چاہتا ہے لیکن متشدد قوتیں اپنے سیاسی و قانونی دباو سے انہیں آزادی سے سو
چنے اور سمجھنے کا موقع نہیں دیتی۔
اس وقت مسلمان پوری دنیا میں مظلو م ہیں۔ مختلف اقوام مسلمانوں پر ٹوٹ پڑی
ہیں، ان کی ریاستوں کو تباہ کیا جا رہا ہے، ان کے وسائل کو لوٹا جا رہا ہے،
ان کے بچوں، بوڑھوں اور عورتوں کو مارا جا رہا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ
عالمی سطح پر ان کے خلاف دہشت گردی اور تشدد کا الزام لگایا جا رہا ہے کہ
وہ دفا ع نہ کر سکیں اور کافروں کے مظالم کا شکار ہیں۔ اس وقت اہل کتاب کا
اٹھایا ہوا شر ہے جس کی زد میں امت مسلمہ ہے۔ اہل کتاب کے ارباب سیاست نے
چونکہ اپنے مذہب کو چھوڑ کر بے دینی اختیار کر لی ہے اس لیے وہ اس لیے وہ
اسلام کو بھی بے وقت کرنا چا ہتے ہیں مسلمان اپنے مزاج کے اعتبار سے اس
قابل ہی نہیں کہ وہ سازشیں، بدعہدیاں وغیرہ جیسی سرگرمیاں کر سکیں۔ اسلام
اور کفر کے درمیان بنیادی فرق اعتدال اور انتہا پسندی کا ہے۔
اسلام نے اختلاف کے بھی اصول اور رویے طے کر دئیے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے کفار
کے بتوں کو بھی گالیاں دینے سے منع فرمایا ہے۔ مشر کین وقت نبی صلی اللہ
علیہ وسلم کی تعلیمات کے اثر کو زائل کرنے کے لئے مختلف قسم کے ہتھکنڈوں
میں لگے ہوئے ہیں۔ ان میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو متنازعہ ثابت
کرنے کی کو شش بھی شامل ہے تاکہ مسلمانوں کے دلوں سے عظمت رسول صلی اللہ
علیہ وسلم کم کی جا سکے۔ اس کے لیے وہ وقتا ً فوقتاً نبی صلی اللہ علیہ
وسلم کی شان میں ہذیان بکتے ہیں۔ اسلام دشمن عناصر اس امر سے بخوبی واقف
ہیں کہ وہ مید ان کارزار میں مسلمانوں کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہیں اس لیے
وہ مسلمانوں کو جہاد سے برگشتہ کرنے کے لیے مختلف کوششیں کرتے رہتے ہیں۔
مغرب میں اہانت انبیاء کے حوالے سے جو بے حسی پائی جاتی ہے اس سے پورا
زمانہ واقف ہے۔ اہل یورپ مسلمانوں میں یہی بے حسی پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ ان
کا اصل مقصد یہ ہے
وہ فاقہ کش کہ موت سے ڈرتے نہیں ذرا
روح محمد صلی اللہ علیہ وسلم ان کے بدن سے نکال دو
دور حاضر کے مسلمان ان کے اصل مقاصد سے انجان ان کے ہاتھ میں مہرے بنے ہوئے
ہیں۔ مسلمان حکمرانوں اور قوم کی اسلام سے دوری کے نیچے میں قوم روبہ زوال
ہو گئی۔ پوری قوم مغر ب کی پیروی میں فحاشی و عریانی کی دلدادہ ہو گئی۔
شرافت کی پگڑیوں کو اچھالا جا نے لگا۔
اہل اسلام کی بے حسی کو دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے کہ آج امت مسلمہ پر
ایک نہیں بلکہ کئی زخم لگ چکے ہیں۔ حرمت مسلم اتنی ارزاں ہے کہ پاﺅں تلے
مسلی جا رہی ہے۔ تاوسف ان مسلم حکمرانوں پر جو کفار و مشرکین کی چیرہ
دستیوں سے بچنے کے بجائے ان کے آلہ کار بنے ہوتے ہیں اور ان کی غلامی و
چاپلوسی کر رہے ہیں اس سب کی واحد وجہ
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور ہم خوار ہوئے تارک قرآں ہو کر
دہشت گردی کا موضوع اس وقت عالمی امن و سکون اور فساد کے لئے خاص اہمیت
اختیار کر چکا ہے۔ دہشت گردی کو روکنے والے اور فروغ دینے والے دونوں عوامل
کو دنیا کے امن وسکون سے کوئی دلچسپی نہیں ۔ہرکوئی اپنی اپنی چالیں چل رہا
ہے۔ اس بات سے قطع نظر کہ دہشت گردی کے حوالے سے لگائے گئے الزام میں کتنی
حقانیت ہے اور کتنا افسانہ۔ ہمیں اس طرف توجہ دینی چاہیے کہ ہم سے دانستگی
یا نا دانستگی میں ظہور پذیر ہونے والے ایسے کونسے افعال ہیں جو ہم
مسلمانوں پر ایسے گھٹیا الزامات کی وجہ بنتے ہیں۔ جو شخص یا گروہ کسی بھی
حوالے سے دہشت گردی میں ملوث ہوتا ہے وہ حقیقی اسلامی تعلیمات سے اس کی
لاعلمی کا نتیجہ ہے۔
اسلامی تعلیمات، معاشرتی اور اخلاقی قدریں اور انسانی جذبات ہمیشہ ایسی
مذموم کاروائیوں کی حوصلہ شکنی کرتے ہیں۔ ہم سب کو مل کر ایسے افراد اور
تنظیموں کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے جو اسلامی تعلیمات سے روگردانی کر کے
اسلام کے نام پر دہشت گردی کو فروغ دیتے ہیں اور امت مسلمہ کے اجتماعی
انحطاط کا سبب بنتے ہیں۔ ہم اپنے مسائل کے حل کے لیے تعلیمات اسلام اور
اسوہ محمدی کو چھوڑ کر مغرب کی تعلیم کو قرار دیتے ہیں اور ہر کام مغرب کو
نمونہ بنا کر کرتے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ نے چودہ سو برس پہلے ہی ہمارے
لیے یہ اصول مقرر کر دیا ۔
لقد کان لکم فی رسول اللہ اسو ة حسنة
تر جمہ :بے شک تمھارے لیے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی بہترین نمونہ
ہے۔
اگر ہم سیرت طیبہ کو اپنا راہبر مان کر اس کی روشنی میں اپنی زندگی گزارنے
کی کوشش کریں تو ہم دین و دنیا میں اس طرح کامیاب ہوں گے جس طرح صحابہ
کرامؓ نے اپنی دنیا و عاقبت سنواری۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے
فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو
اتر سکتے ہیں گردوں سے قطار اندر قطار اب بھی |