یہاں اس بات کی تنبیہ کرنی ضروری
ہے کہ کچھ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کی آڑ میں راہ اعتدال
سے ہٹ جاتے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ایسے اوصاف بیان
کرتے ہیں جن کا نہ اللہ تعالٰی نے ذکر کیا ہے اور نہ خود آنحضرت صلی اللہ
علیہ وسلم نے۔ بلکہ بعض لوگ تو اس بارے میں اس حد تک بے اعتدالی کا شکار
ہوتے ہیں کہ آںحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لیۓ ایسی صفات کا ذکر کرتے ہیں
جو صرف اللہ تعالٰی ہی کے لیۓ خاص ہیں۔
اگر ان حضرات کو ایسی بے اعتدالی سے منع کیا جاۓ تو وہ آنحضرت صلی اللہ
علیہ وسلم سے بے پناہ محبت کے دعوے کو اپنی بے اعتدالی کے لیۓ وجہ جواز
قرار دیتے ہیں۔ اور منع کرنے والوں کو الزام دیتے ہیں کہ ان کے دل آنحضرت
صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت سے خالی ہیں۔
اور وہ اس حقیقت سے چشم پوشی کرتے ہیں کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے
اپنی تعریف میں مبالغہ آرائ اور دروغ گوئ سے روکا ہے۔ امام بخاری حضرت عمر
بن الخطاب رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کرتے ہیں کا انہوں نے کہا کہ " میں
نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ :" میری تعریف میں
اس طرح مبالغہ آرائ نہ کرنا جس طرح نصرانیوں نے ابن مریم علیہما السلام کی
تعریف میں مبالغہ آرائ کی۔ در حقیقت میں تو اللہ کا بندہ ہوں۔ تم (میرے
بارے میں) کہو :" اللہ کا بندہ اور رسول" صحیح البخاری 6/478۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح و ثنا میں راہ اعتدال سے تجاوز کرنے والے
اس بات کو بھی نظر انداز کر دیتے ہیں کہ آپ نے اس بات سے شدت سے روکا کہ آپ
کے لیۓ ایسی صفات ذکر کی جائیں جو صرف اللہ تعالٰی ہی کے لیۓ مختص ہیں۔ جب
ایک شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ وہی ہوگا جو اللہ تعالٰی چاہے
گا اور آپ چاہیں گے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو ایسی بات کہنے پر
سختی سے ڈانٹا۔ امام احمد حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے
روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے بیان کیا کہ ایک شخص نے رسول اللہ سے کہا "
ماشاء الله و شئت " ( وہ ہوگا جو اللہ تعالی چاہے گا اور آپ چاہیں گے)
آپ نے فرمایا :" کیا تو نے مجھے اللہ تعالٰی کا شریک بنا دیا ہے؟ ( اس کے
بجاۓ) یہ کہو ": ماشاء الله وحده" (وہی ہوگا جو تنہا اللہ تعالٰی پسند
کرے گا) ( المسند 3/253۔ شیخ احمد محمد شاکر نے اس حدیث کی سند کو صحیح
قرار دیا ہے)
اسی طرح جب دو بچیوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں یہ
کہا کہ :" ہم میں وہ نبی ہے جو آنے والے کل کو جانتا ہے" تو آنحضرت نے ان
کو ایسی بات کہنے سے روک دیا۔
امام ابن ماجہ حضرت ربیع بنت معوذ رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت کرتے ہیں
کہ انہوں نے کہا: " میری شادی کی صبح رسول اللہ ہمارے ہاں تشریف لاۓ۔ دو
ننھی بچیاں جنگ بدر میں قربان ہونے والے میرے رشتہ داروں کے بارے میں اشعار
پڑھ رہی تھیں۔ اسی دوران انہوں نے کہا : " و فينا نبي يعلم ما في غد" (ہم
میں ایک ایسا نبی ہے جو کہ کل ہونے والی بات سے آگاہ ہے) رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " تم کیا کہہ رہی ہو۔ ایسے نہ کہو۔ جو کچھ کل ہو
گا اس کو اللہ تعالٰی کے سوا کوئ دوسرا نہیں جانتا۔(سنن ابن ماجہ 1/350)
اور صحیح بخاری کی روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا" ایسی بات نہ کہو اس سے
پہلے جو بات کہہ رہی تھی وہ ہی کہتی جاؤ ( صحیح البخاری 9/202)
رسول اللہ کی محبت کے بعض دعوے دار آپ کی قسم کھاتے ہوۓ کہتے ہیں نبی کی
قسم رسول اللہ کی قسم" وہ اس بات کو فراموش کر دیتے ہیں کا آنحضرت نے خود
اللہ تعالٰی کے سوا کسی اور کی قسم کھانے سے منع فرمایا ہے۔ امام بخاری نے
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روایت کی ہے کہ انہوں نے
بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" اللہ تعالٰی نے
باپوں کی قسم کھانے سے منع فرمایا ہے۔ جس کسی نے قسم کھانی ہو تو وہ اللہ
تعالٰی کی قسم کھاۓ یا خاموش رہے"
نبی کریم سے محبت کے دعوے کا یہ مطلب نہیں کہ آپ کے لیۓ ایسی صفات کا ذکر
کیا جاۓ جن سے آپ نے خود روکا ہے۔ آنحضرت سے سچی محبت کا تقاضا تو یہ ہے کہ
آپ نے جن باتوں کا حکم دیا ہے ان پر عمل کیا جاۓ اورجن باتوں سے روکا ہے ان
سے علیحدگی اختیار کی جاۓ۔ اللہ تعالی نے فرمایا ہے :
وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ
فَانتَهُو
ترجمہ " اور جن تمہیں رسول اللہ دیں اس کو تھام لو اور جس سے منع کریں اس
سے رک جاؤ۔
اے ہمارے رب رحیم و کریم! ہم سب کو اپنے رسول کریم کی ایسی محبت نصیب فرما
جو آپ کو پسند ہے۔ آمین یا حی یا قیوم۔
کتاب : نبی کریم سے محبت اور اس کی علامتیں از پروفیسر ڈاکٹر فضل الہی۔
صفحہ نمبر 91،92،93 |