قیام پاکستان کے بعد سے ہی لوٹے
کی اصطلاح پاکستانی سیاست میں زیر استعمال آنے لگی ۔ یاد رہے پاکستانی
سیاست میں سب سے پہلے مولانا ظفر علی خان نے لوٹے کا لفظ ڈاکٹر عالم نامی
ایک ایسے شخص کے لئے استعمال کیا تھا جو آئے دن اپنی سیاسی وفاداریاں تبدیل
کرتا رہتا تھا۔ قیام پاکستان کے بعد اس نے موقع کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے
دوبارہ مسلم لیگ میں شامل ہونے کی کوشش کی لیکن مولانا ظفر علی خان کا اسے
دیا ہوا خطاب اس کی شناخت بن گیا اور اسے ڈاکٹر عالم لوٹا کہہ کر چھیڑا
جانے لگا۔ حتی ٰ کہ اس نے ملکی سیاست کو خیر باد کہا اور واپس بھارت کو
سدھار گیا۔اس کے بعد لوٹا ، لوٹا کریسی، ہارس ٹریڈنگ اور اسطرح کی تمام
اصطلاحات نے ”طوطا چشم ہونا“،” تھالی کا بینگن ہونا“جیسی تمام ضرب الامثال
کو پیچھے چھوڑ دیا اور لوٹا ہر اس شخص کے لیے استعمال کیا جانے لگا جو وقتاً
فوقتاً اپنے ذاتی مفادات کی تکمیل کے لیے سیاسی وفاداریاں تبدیل کرتا رہا۔
ہماری معلومات کے مطابق لوٹے کی اصطلاح ہماری سیاست میں اس لیے استعمال میں
لائی گئی کہ لوٹا دراصل مٹی کے بنے ہوئے بے پیندے کے ایسے برتن کو کہتے ہیں
جو دیہات میں کھیتوں کی آبیاشی کے لئے استعمال کیے جاتے تھے ۔ ان بے پیندے
کے لوٹوں کی بناوٹ اورشکل ایسی ہوتی کہ انھیں جہاں بھی رکھا جاتاوہ خود
بخود ہموار سطح کی طرف لڑھک جاتے لوٹوں کی اسی خصوصیت کے باعث ایسے تمام
لوگ جو موقع پرست اور مفاد پرست ہوں انہیں لوٹا کہا جاتا ہے۔
اسے ہماری بدقسمتی گردانئے یا خوش قسمتی سمجھئے یہ لوٹے صرف پاکستانی سیاست
میں ہی وافر مقدار میں دستیاب ہیں۔ کسی اور ملک کو یہ اعزاز حاصل نہیں کہ
ان کی سیاست میں بھی لوٹے پائے جاتے ہوں یہی وجہ ہے کہ تمام عالم کی
حکومتیں مستحکم اور اصولی ہوا کرتی ہیں جبکہ پاکستانی سیاست میں یہی” لوٹے
“ وہ سیاست دان تھے جو تمام جرنیلوں کو اپنی وفاداریاں پیش کر کے مسند
اقتدار پر بٹھاتے رہے اور جمہوریت کا گلا گھونٹتے رہے کئی جمہوری ادوار میں
آمرانہ فیصلوں کے پیچھے بھی انھی لوٹوں کی ”حرکات و سکنات “ تھیں۔ مگر
گزشتہ کچھ عرصے سے سیاست دانوں کے لیے لفظ لوٹا ایک گالی بنا دیا گیا ہے۔
جس میں سب سے زیادہ اہم کردار بہر طور میڈیا نے ہی ادا کیا ہے۔ یہی وجہ ہے
کہ ہمارے سیاست دان لوٹے کو اپنا انتخابی نشان بنانا اپنی تذلیل اور تضحیک
گردانتے ہیں اور ” شیر، تیر، ہاتھی، گھوڑا، چمچہ، چھری، گلاس، رکشہ اور
گاجر، مولی جیسے انتخابی نشانات کو بڑی خوبصورتی سے اپنے اپنے مخالفین کے
خلاف استعمال کرتے ہیں۔
اس وقت ہمارے پیش نظر یہ سیاسی لوٹے یا ان کی ”سیاسی قلابازیاں “ ہر گز
نہیں ہیں آج ہم ان صحافیوں کی بات کریں گے جو وقتاً فوقتاً ملک و قوم کے
عظیم تر مفاد میں کبھی ایک چینل پر بیٹھے ہوئے نظر آتے ہیں تو کبھی کسی
دوسری سکرین پر جلوہ نما ہوتے ہیں۔ان گرامی قدر صحافیوں کو روپے پیسے اور
دیگر مراعات کے لیے کبھی کسی ایک سیٹھ کے ساتھ کام کرنا تو کبھی کسی دوسرے
سیٹھ کے ساتھ جا بیٹھنا کسی طور زیب نہیں دیتا۔ ان تمام صحافیوں کو عوام
الناس کی ایک بہت بڑی تعداد اس انارکی میں اپنا نا خدا سمجھتی ہے کیوں کہ
انھیں چیختے چنگھاڑتے ابتدائیے، تجزیے، تبصرے ، شرکاءپر حقارت بھرے جملے
کسنا، مہمان شرکاءکو آپسی بحث میں الجھا کر لطف اندوز ہونا اور پروگرام کے
آخر میں اس ساری بے بنیاد گفت و شنید کو اپنی مرضی کے مطابق رنگ دینے کا
ڈھنگ آتا ہے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہم کسی کی ترقی کے خلاف ہیں یا
کسی کو ملنے والی مراعات سے ہمیں کسی طور بغض یا عناد ہے بلکہ ہم تو صرف یہ
کہتے ہیں کہ ایسے تمام صحافی جوکبھی ایک ٹی وی چینل سے وفاداری کا دم بھرتے
ہیں تو کچھ عرصے بعد وہ کسی اور چینل کے مالکان سے ساز باز کر کے اس چینل
والوں کی چاندی کروا تے ہیں صحافتی لوٹے ہیں اور ان کا بھی اسی طرح سے
معاشرتی بائیکاٹ کیا جانا چاہیے جس طرح سیاسی لوٹوں کولعن طعن کی جاتی ہے۔
ایک طرف تو یہ صحافی ہیں جو بیش بہا و بیش قیمت مراعات اور سہولیات حاصل
کیے ہوئے ہیں اور چینل مالکان کی یہ مجبوری ہے کہ اگر انھیں اپنے چینل کی
ریٹنگ برقراررکھنی ہے اور سرمایہ اکٹھا کرنا ہے تو ان صحافیوں کے ناز نخرے
اٹھانے پڑیں گے ورنہ یہ بے موسمی پنچھی کسی اور سایہ دار پیڑ پر بسیرا
کرلیں گے اگر چہ ان صحافیوں کو عوام الناس اور خواص انتہائی پسندیدگی سے
دیکھتے ہیں مگر ان کے تجزیوں اور تبصروں پر کوئی بھی شخص عمل پیرا نہیں
ہوتا اور دوسری طرف صحافیوں کی وہ برادری بھی ہے جو عوام کو معلومات بہم
پہنچانے میں رات دن ایک کیے ہوئے ہے مگر چونکہ ان لوگوں کو صرف اپنے کام
اور پیشے سے غرض و غایت ہے وہ اپنے کام میں اتنے منہمک اور مشغول ہوتے ہیں
کہ ان کے پاس سستی شہرت حاصل کرنے کے اوچھے اور بھونڈے طریقوں پر عمل کرنے
کا وقت ہی نہیں ہوتا اور نہ ہی وہ اس بارے سوچتے ہیں۔ان عملی صحافیوں کی
اقتصادی حالت بھی ہمیشہ پتلی ہی رہی ہے۔ یہ بات بہت کم لوگوں کو معلوم ہوگی
کہ رات دن کام کرنے والے صحافیوں میں سے اکثر صحافیوں کو ان کے اداروں کی
جانب سے پانچ سے سات ماہ تک کی تنخواہیں نہیں ملی ہیں۔ صحافت کو بلاشبہ
ریاست کا چوتھا ستون کہا جاتا ہے۔ اگر ریاست کا ایک اہم ستون بھی لوٹوں سے
بھرا پرا ہوگا اور ان صحافتی لوٹوں کو مراعات بھی مہیا کی جائیں گی تو ایسے
میں ریاست سے کسی طور بہتری کی امید نہیں کی جا سکتی۔ |