چینی جدید کاری اور ثقافتوں کے احترام کا درس

چین کے صدر شی جن پھنگ نے گلوبل ڈیولپمنٹ انیشی ایٹو اور گلوبل سیکیورٹی انیشی ایٹو کے بعد مارچ 2023 میں گلوبل سولائزیشن انیشی ایٹو (جی سی آئی) پیش کیا تھا۔اس بڑے عالمی اقدام کے حوالے سے تین امور ایسے ہیں جن کو سمجھنا لازم ہے۔

تہذیبی تنوع کا احترام

شی جن پھنگ نے کمیونسٹ پارٹی آف چائنا اور دیگر عالمی سیاسی جماعتوں کے درمیان ہونے والے مکالمے میں گلوبل سولائزیشن انیشی ایٹو کی تجویز پیش کی تھی۔ یہ اقدام تہذیبوں کے تنوع، انسانیت کی مشترکہ اقدار، وراثت کی اہمیت اور تہذیبوں کی جدت طرازی کے ساتھ ساتھ مضبوط بین الاقوامی عوامی تبادلوں اور تعاون کی وکالت کرتا ہے۔"بعض تہذیبوں کی برتری اور تہذیبوں کے ٹکراؤ" کے دعووں کے برعکس ، چین نے تہذیبوں کے مابین مساوات ، باہمی سیکھنے ، مکالمے اور اشتراک کے اصولوں کو برقرار رکھنے پر زور دیا ہے۔ گلوبل سولائزیشن انیشی ایٹو کہتا ہے کہ ثقافتی تبادلے اختلافات سے بالاتر ہیں، باہمی سیکھنا تنازعات سے بالاتر ہے، اور بقائے باہمی کا تصور برتری کے احساسات سے بالاتر ہے۔ماہرین تسلیم کرتے ہیں کہ چینی ثقافت بذات خود بہت متنوع ہے، لہذا گلوبل سولائزیشن انیشی ایٹو ایک بہت ہی درست طور پر فروغ پانے والا خیال ہے کیونکہ یہ سبھی ثقافتوں کے احترام کا درس دیتا ہے، جو عالمی امن کے لئے آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہے۔

جی سی آئی نے گلوبل ڈیولپمنٹ انیشی ایٹو اور گلوبل سیکیورٹی انیشی ایٹو کے ساتھ مل کر بین الاقوامی حمایت حاصل کی ہے کیونکہ چین نے دنیا کو ایک اہم "پبلک پراڈکٹ"فراہم کی ہے۔چین کے یہ تینوں عالمی اقدامات پوری دنیا میں ترقی، خوشحالی، سلامتی اور استحکام کے حصول کے لئے دنیا کے بارے میں چین کے وژن اور خارجہ پالیسی کی عکاسی کرتے ہیں، اور اس راستے کی وضاحت کرتے ہیں جو چین نے دوسروں سے تعلق استوار کرنے کے لئے طے کیا ہے۔

افرادی تبادلوں کا فروغ

گلوبل سولائزیشن انیشی ایٹو کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ یہ ممالک کے درمیان افرادی تبادلوں کی حمایت کرتا ہے۔ابھی حال ہی میں امریکی ریاست واشنگٹن سے تعلق رکھنے والے ہائی اسکول کے ایک طلباء گروپ نے 17 سے 27 مارچ تک چین کا دورہ کیا ۔ اس سفر کے دوران انہوں نے عظیم دیوار چین اور ممنوعہ شہر جیسے تاریخی مقامات کا دورہ کیا اور اپنے چینی ساتھیوں کے ساتھ مارشل آرٹس اور فین پینٹنگ میں مشغول رہے۔یہ وفد 50 ہزار امریکی نوجوانوں کو تبادلے اور مطالعے کے مقاصد کے لیے چین مدعو کرنے کے اقدام کا حصہ تھا جس کا اعلان شی جن پھنگ نے گزشتہ سال نومبر میں اپنے دورہ امریکہ کے دوران کیا تھا۔

چین اور امریکہ کے تعلقات میں دونوں ممالک کے عوام کے درمیان دوستانہ تبادلے ایک اہم شعبہ ہیں۔چینی صدر شی جن پھنگ نے امریکی کاروباری، تزویراتی اور تعلیمی کمیونٹی کے نمائندوں کے ساتھ اپنی حالیہ ملاقات میں کہا کہ
دونوں بڑے ممالک کے تعلقات کے موجودہ ابواب عوام نے لکھے ہیں، اور مستقبل بھی یقینی طور پر عوام کی جانب سے ہی لکھا جائے گا۔

اسی طرح حال ہی میں چین میں قازقستان کے سیاحتی سال 2024 کے آغاز کے موقع پر شی جن پھنگ نے کہا کہ حالیہ برسوں میں دونوں ممالک کے عوام کے درمیان تبادلوں میں اضافہ ہوا ہے جس کا ثبوت باہمی ویزا استثنیٰ کے معاہدے کے نفاذ اور ایک دوسرے کے ممالک میں ثقافتی مراکز کے قیام سے متعلق معاہدے پر دستخط ہیں۔انہی امور میں لوبان ورکشاپ کا آپریشن ، اور نوجوانوں کے مسلسل تبادلے بھی شامل ہیں۔چین اور تھائی لینڈ کے درمیان باہمی ویزا استثنیٰ کی پالیسی مارچ میں نافذ العمل ہونے کے ساتھ ہی چین کے ساتھ اس طرح کی انٹری پالیسی رکھنے والے ممالک کی تعداد بڑھ کر 23 ہوگئی ہے جن میں سنگاپور، مالدیپ اور متحدہ عرب امارات شامل ہیں۔

اس کے علاوہ چین نے فرانس، اٹلی اور جرمنی سمیت دیگر ممالک کے لیے ویزا فری پالیسی اپنائی ہے۔ نئی پالیسی کے نفاذ نے متعلقہ ممالک کے شہریوں کے لئے سفری منصوبہ بندی کو بہت آسان بنا دیا ہے۔

جدید کاری کی راہیں تلاش کرنا

چینی صدر شی جن پھںگ کا کہنا ہے کہ انسانی معاشرے کی تخلیق کردہ تمام تہذیبیں شاندار ہیں۔شی جن پھنگ کے مطابق چینی جدیدیت ایک بڑی آبادی، سب کے لیے مشترکہ خوشحالی، مادی اور ثقافتی و اخلاقی ترقی، انسانیت اور فطرت کے درمیان ہم آہنگی اور پرامن ترقی میں سے ایک ہے۔جدیدیت کو آگے بڑھانے میں، چین نہ تو نوآبادیات اور لوٹ مار کے پرانے راستے پر چلے گا، اور نہ ہی کچھ ممالک کی طرف سے مضبوط ہونے کے بعد بالادستی حاصل کرنے کے لئے اپنائے جانے والے ٹیڑھے راستے پر چلے گا بلکہ چین پرامن ترقی کا صحیح راستہ اختیار کر رہا ہے۔

ماہرین کے خیال میں اگرچہ جدیدکاری ایک عالمی عمل اور ایک عالمگیر خواہش ہے، لیکن یہ بالکل مختلف شکلیں اختیار کر سکتی ہے۔چینی جدیدکاری "بنیادی طور پر کچھ نئی چیز کی نمائندگی کرتی ہے"، ایک ایسی چیز جسے جدیدکاری کے طور پر دیکھا جائے گا جو اصل میں جامع، منصفانہ اور پائیدار ہے۔یہی وجہ ہے کہ آج جدید کاری کا چینی راستہ ترقی پذیر ممالک کے لئے کافی پرکشش ہو چکا ہے اور دنیا بھی چین کے اقدامات کی ستائش کرتے ہوئے اسے قابل عمل اور قابل تقلید قرار دیتی ہے ۔

Shahid Afraz Khan
About the Author: Shahid Afraz Khan Read More Articles by Shahid Afraz Khan: 1328 Articles with 617923 views Working as a Broadcast Journalist with China Media Group , Beijing .. View More