پیارے خالق امید ہے آپ بخیر و عافیت ہوں گے کیوں کہ آپ نیند،
اونگھ، بھوک اور پیاس سے آزاد ہیں۔ لیکن آپ کی تخلیق کردہ بنی نوح انسان کو جنت سے
بے دخل ہونے پر زمین کیسے تنگ کر دی گے ہے ۔ آپ نے 4 کتب اور مختلف صحائف آسمان سے
زمین کی جانب بھیجے اب میرا دل کرتا ایک زمینی کتاب لکھ کر آپ کی طرف بھیجھوں جس
میں لکھوں کہ آپ زمینی انسانوں کے حالات سے کس قدر انجان ہیں ۔
اے خدا کائنات کی ان بے کراں وسعتوں میں جہاں اجرام فلکی کروڑوں نوری سال کے فاصلوں
پر موجود ہیں روٹی کا پیٹ سے فاصلہ ان سے کہیں زیادہ ہو چکا ہے۔ تو اور تیرے فرشتے
تو اس کرب سے کبھی نہیں گزرے کہ کیسے سارا دن کمر پر دکھ ، مصیبتوں ، بھوک کا بوجھ
اٹھاۓ رات کو بستر پر بھی آزاد نہیں ہوتا اور اسکو سکوں کی نیند میسر نہیں ۔
دور دراز سے پیدل سفر کر کے آٹے کی لائنوں میں لگے انسانوں کے چہروں پر عیاں بے بسی
اور تصویر بننے کی ندامتوں کو الفاظ میں کیسے تحریر کروں۔
چاے کی دوکان پر کام کرنے والے ننھے منے کے ہاتھ سے کپ گرتے ہی مالک کی آنکھوں کا
غضب تیری قیامت سے بھیانک منظر پیش کرتا ہے۔کسی خوبصورت چہرے کا عاشق نامراد کے
ہاتھوں تیزاب سے جلنا تیری ہاویہ سے زیادہ الم ناک عذاب ہے۔
ابھی ابھی ایک طلاق یافتہ عورت درخوست کر رہی ہے کہ میرے احوال لکھ کر خدا کو بھیج
کہ کیسے پہلے مجھ پر بد چلنی کا الزام لگا کے نا پاک ثابت کرتے پھر تیرے نام پر
حلالہ کر کے پاک کر دیتے ،درس گاہ کے باہر پین ، ٹوفی ، بسکٹ ، نمکو بیچتے کم سن
بچوں کی آنکھوں کی حسرتیں تیری جنت کی نعمتوں سے معیوب نہیں ہوتی اب۔
من و سلوا کے قصے سننے والے باپ کوئلے کی کان میں بچوں کا رزق تلاش کرتے اپنی
سانسیں گنوا بیٹھتے ہیں۔ ان چہروں کی وحشتوں کا اندازہ لگاؤ خدا جو سارا مہینہ برتن
مانج کر بچوں کو دو وقت کا کھانا کھلانے سے قاصر ہیں۔
ان معصوم بچوں کا کیا قصور جنکو اندھی گولیاں، بم، اپنے غضب کا نشانہ بنا رہے ہیں۔
تیرے نام پر اپنی دوکانیں سجا کے بیٹھے یہ تیرے نائب گندا پانی، کیمکل ملا دودھ ،
جعلی ادویات بیچ بیچ کر تیرا گھر دیکھنے کی خواہش رکھتے ہیں۔
ہر کسی نے اپنے مفاد کی خاطر تیرے گھر بنا لیے تیرے نام رکھ دیے اور تیرے نام پر نا
حق خوں بہانے والے بھی مومن ہیں اور قتل ہونے والے بھی اے خدا تجھے تقسیم در تسقیم
کیا جا رہا ہے اور تو چپ چاپ بیٹھا دیکھ رہا ہے تو نے اپنی کتابوں میں اپنی رحمتوں
اپنے فضل کا بار ہا ذکر کیا مگر یہ دین کے ٹھیکیدار تجھے ہمیشہ غضب ناک عذاب دینے
والے مالک کی شکل میں ہم سے غلاموں جیسا برتاؤ کرتے رہے ہیں۔ میری کتاب میں فقط دکھ
ہی دکھ ہیں جو بنی نوح انسان برداشت کر رہا۔
تجھ تک نا ایمیل جاتا ہے نا تیرا نمبر کسی کے پاس ہے میں چاہتا یہ خط تیرے حضور پیش
ہو اور تو جان لے کہ یہ دنیا اپنے خالق کی رحمتوں کی منتظر ہے میرے مالک ان کو
زمینی عذاب سے چھٹکارا ملے تو یہ جنت دوزخ کی زندگی کے بارے غور و فکر کریں
|