اگر یہ بھکاری اپنا بینک کھولیں تو ہوسکتا ہے کہ
ہماری حکومتیں ان ہی سے قرضہ لیکر ان کے بھی مقروض ہوجایں ان
کی آمدنی آئے دن جس تیزی سے بھڑتی جارہی ہے. ہمارے وزیر خزانہ
کو ان کی آمدنی پر فی الفور ٹیکس لگانا چاہیے. کہیں ایسا نہ ہو
کہ ان کی آمدنی جس تیزی سے بڑھ رہی ہے کہیں یہ الیکشن میں کھڑے
نہ ہوجایں اور پیسے کی بدولت اسمبلیوں میں نہ پہنچ جایں .
کیونکہ اس وقت اسمبلیوں میں پہنچنے والے بھی کوالیفائیڈ
؟؟؟؟؟؟؟ ہیں اور دیکھا جائے ان کا انداز بھی وہی ہے.
مگر ان جیسا نہیں مگر طریقہ واردات زرا مختلف ہے ان کی بھی
عوام کی جیبوں پر ہی نظر ہوتی ہے. اس وقت پاکستان میں یہی دو
طبقات عیش و عشرت میں ہیں نہ یوٹیلیٹی بلز کا لینا دینا نہ
پیٹرول، نہ فون وغیرہ کا خرچہ بھکاریوں کا بھی یہی عیش ہے مگر
ان سے زرا مختلف دیکھا جائے تو ہاکستان میں یہ دو طبقات زندگی
کے مزے لوٹ رہا ہے. جبکہ متوسط طبقہ تو کئی دہایوں سے صرف تالی
بجا رہا ہے اور کب تک بجا پائیگا. اگر اس ہی طرح کے حالت رہے
تو جس طرح اس ملک سے کئی پرندے جہاں فانی سے کوچ کرگئے ہوسکتا
ہے کچھ کوچ کر جایں کچھ جے ڈی سی وغیرہ نے لائینوں میں تو
لگادیے شاید کچھ سالوں اللہ نہ کرئے کہیں فٹ ہاتھوں سگنلوں
وغیرہ میں صدا لگارہے ہوں.
پاکستان میں بھکاریوں سے متعلق حیران کن حقائق
24 کروڑ سے زائد آبادی والے ملک میں 3 کروڑ 80 لاکھ بھکاری ہیں
جس میں 12 فیصد مرد، 55 فیصد خواتین، 27 فیصد بچے اور بقایا 6
فیصد سفید پوش مجبور افراد شامل ہیں.
ان بھکاریوں کا 50 فیصد کراچی، 16 فیصد لاہور، 7 فیصد اسلام
آباد اور بقایا دیگر شہروں میں پھیلا ہوا ہے.
کراچی میں روزانہ اوسط بھیک 2ہزار روپے، لاہور میں 1400 اور
اسلام آباد میں 950 روپے ہے.
پورے ملک میں فی بھکاری اوسط 850 روپے ہے.
روزانہ بھیک کی مد میں یہ بھکاری 32 ارب روپے لوگوں کی جیبوں
سے نکال لیتے ہیں.
سالانہ یہ رقم117 کھرب روپے بنتی ہے
ڈالر کی اوسط میں یہ رقم 42 ارب ڈالر بنتی ہے.
بغیر کسی منافع بخش کام کے بھکاریوں پر ترس کھا کر انکی مدد
کرنے سے ہماری جیب سے سالانہ 42 ارب ڈالر نکل جاتے ہیں.
اس خیرات کا نتیجہ ہمیں سالانہ 21 فیصد مہنگائی کی صورت میں
بھگتنا پڑتا ہے اور ملکی ترقی کے لئے 3 کروڑ 80 لاکھ افراد کی
عظیم الشان افرادی قوت کسی کام نہیں آتی.
جبکہ ان سے کام لینے اور معمولی کام ہی لینے کی صورت میں آمدنی
38 ارب ڈالر متوقع ہے جو چند برسوں میں ہی ہمارے ملک کو مکمل
اپنے پاؤں پر نہ صرف کھڑا کرسکتی ہے بلکہ موجودہ بھکاریوں کے
لئے باعزت روزگار بھی مہیا کرسکتی ہے.
اب اگر عوام اسی مہنگائی میں جینا چاہتے ہیں اور اپنے بچوں کی
روٹی ان بھکاریوں کو دیکر مطمئن ہیں تو بیشک اگلے سو سال اور
ذلت میں گزارئیے.
لیکن
اگر آپ چند سالوں میں ہی مضبوط معاشی استحکام اور اپنے بچوں کے
لئے پرسکون زندگی دینا چاہتے ہیں تو آج ہی سے تمام بھکاریوں کو
خداحافظ کہہ دیجیے. پانچ سال کے بعد آپ اپنے فیصلے پر انشاللہ
نادم نہیں ہونگے اور اپنے بچوں کو پھلتا پھولتا دیکھ کر خوشی
محسوس کرینگے.
بنگلہ دیش نے جس دن بھکاری سسٹم کو خدا حافظ کہا تھا، اسکے صرف
چار سال بعد اسکے پاس 52 ارب ڈالر کے ذخائر تھے.
کیا ہم اچھی بات اور مستند کام کی تقلید نہیں کرسکتے.
اب اپنے بچوں کے لئے فیصلہ آپکے ہاتھ میں ہے.
|