حالیہ دنوں ایک محدود حلقے کی جانب سے یہ بیان سامنے آیا کہ گرین
ٹیکنالوجی میں چین کی حد سے زیادہ صلاحیت دوسرے ممالک کی معیشتوں کو نقصان
پہنچا رہی ہے۔ دوسری جانب دنیا بھر کے لوگ چین کی گرین ٹیکنالوجی میں گہری
دلچسپی رکھتے ہیں ، یہ تضاد ایک بڑی سچائی کی بات کرتا ہے۔حد سے زیادہ گنجائش
یا پیداوار کا مطلب ہے کہ رسد مارکیٹ میں طلب سے زیادہ ہے۔
ایک ایسے وقت میں جب موسمیاتی تبدیلی کے اثرات شدت اختیار کر رہے ہیں اور ممالک
سبز کم کاربن ترقی کے راستے تلاش کر رہے ہیں ،زیادہ پیداواری صلاحیت کا بیانیہ
مضحکہ خیز لگتا ہے۔ویسے بھی 130 سے زائد ممالک نے 21 ویں صدی کے وسط تک زیرو
کاربن اخراج حاصل کرنے کے ہدف کا اعلان کیا ہے۔اس صورتحال میں "گرین ٹریڈ "مستقبل
میں عالمی تجارت کی ترقی کے لئے ایک نیا انجن بن جائے گا.انٹرنیشنل انرجی
ایجنسی کے مطابق، 2030 میں نئی توانائی کی گاڑیوں کی عالمی طلب 2022 کے مقابلے
میں چار گنا بڑھ جائے گی اور نئی فوٹووولٹک تنصیبات کی طلب 820 گیگا واٹ تک
پہنچ جائے گی، جو 2022 کے مقابلے میں تقریبا چار گنا زیادہ ہے۔دوسرے لفظوں میں،
گرین ٹیکنالوجی میں گنجائش کی شدید کمی ہے، سرپلس نہیں۔
ماہرین کے نزدیک یہ خیال کہ چین کی پیداواری صلاحیت حد سے زیادہ ہے قطعاً بے
بنیاد اور غیر منطقی ہے۔ ایسا بیانیہ جسے ایک مکمل غلط فہمی قرار دیا جا سکتا
ہے، عالمی مارکیٹ کے لئے نقصان دہ ہے ۔ایسے حلقے جو اپنے تحفظ پسندانہ اقدامات
کا جواز پیش کرنے کے لیے اس بیانیے کو جاری رکھے ہوئے ہیں، انہیں اس سے کچھ بھی
حاصل نہیں گا۔ ایسے عوامل صرف صنعتی اور رسدی چینز کو غیر مستحکم اور متاثر
کریں گے، سبز توانائی کی جانب عالمی منتقلی میں رکاوٹ ڈالیں گے، اور ابھرتے
ہوئے شعبوں کی ترقی کو روکیں گے.ماہرین یہ مانتے ہیں کہ چین کی صاف ٹیکنالوجی
کو روکنے کی کوششیں ایک تحفظ پسند گروہ کی نمائندگی کرتی ہیں ، جو خالص زیرو
کاربن اخراج کے حصول کی جانب پیش رفت میں رکاوٹ بننے کے لئے تیار ہے۔
حالیہ دنوں منعقدہ 26 ویں ورلڈ انرجی کانگریس کے دوران بھی شرکاء نے کہا کہ چین
کی نئی توانائی کی صنعت کی ترقی نے مغربی ممالک کو بھی زیرو کاربن اخراج کے ہدف
کو پورا کرنے میں مدد دی ہے اور عالمی توانائی کی تبدیلی میں اہم کردار ادا کیا
ہے۔تکنیکی جدت طرازی اور ایک مکمل صنعتی چین کے نظام کی بدولت چین نے توانائی
کی نئی مصنوعات کو مقبول عام بنایا ہے.آج چین کو یورپ کے مقابلے میں گاڑیوں کے
نئے ماڈل تیار کرنے میں صرف آدھا وقت لگتا ہے۔ یوں چین کی سبز پیداواری صلاحیت
دنیا بھر کے صارفین کو کم قیمت والی مصنوعات فراہم کرتی ہے.
بلومبرگ نے حال ہی میں ایک مضمون میں کہاہے کہ توانائی کی عالمی تبدیلی کی امید
بڑی حد تک چین کی "کم قیمت، صاف مصنوعات کی فراہمی" کی وجہ سے ہے۔ اس وقت دنیا
کی 50 فیصد پون بجلی اور 80 فیصد فوٹو وولٹک آلات چین فراہم کرتا ہے۔ اعداد و
شمار کے مطابق ، 2011 سے 2020 تک ، چین میں ماحولیاتی ٹیکنالوجی کے لیے ایجادات
کی پیٹنٹ درخواستوں کی مجموعی تعداد دنیا کے 60فیصد کے قریب تھی ، جس سے چین
ماحولیاتی ٹیکنالوجی میں جدت طرازی کے حوالے سے سب سے فعال اقدامات والا ملک بن
گیا ہے۔
مزید اہم بات یہ ہے کہ چین کی سبز پیداواری صلاحیت نے عالمی موسمیاتی تبدیلی کے
چیلنج سے نمٹنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ 2022 میں چین کی پون بجلی اور فوٹو
وولٹک مصنوعات کی برآمدات نے دیگر ممالک کے لیے کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراج کو
تقریباً 573 ملین ٹن تک کم کیا ، جس میں مجموعی اخراج میں 2.83 بلین ٹن کی کمی
واقع ہوئی ، جو اسی عرصے میں قابل تجدید توانائی سے دنیا کے کاربن اخراج میں
کمی کا تقریباً 41 فیصد ہے۔صرف متحدہ عرب امارات کی ہی ایک مثال لی جائے تو
2023 میں ابوظہبی کے جنوبی صحرا میں شمسی توانائی کے چینی ساختہ پاور پلانٹ
باضابطہ طور پر آپریشنل ہوا ، جس سے ابوظہبی کو کاربن اخراج سالانہ 2.4 ملین ٹن
کم کرنے اور متحدہ عرب امارات کو توانائی کے ڈھانچے میں صاف توانائی کے تناسب
میں 13 فیصد سے زیادہ اضافہ کرنے میں مدد ملے گی۔ان حقائق کے تناظر میں کہا جا
سکتا ہے کہ دنیا کو درپیش اصل مسئلہ سبز صلاحیت کی "حد سے زیادہ پیداوار" نہیں
ہے ، بلکہ اس کی شدید قلت ہے اور چین وہ مصنوعات تیار کر رہا ہے جس کی دنیا کو
اشد ضرورت ہے۔
|