جاوید ملک /شب روز
گزشتہ دنوں وزارت مواصلات کے ذیلی ادارے نیشنل ہائی وے اتھارٹی سے ایک ایسا
قابل انجینئر ریٹائر ڈہو گیا کہ جس کی قابلیت، ایمانداری پیشہ ورانہ مہارت
اور دیانت کے قصے برسوں ہر زبان زد عام رہیں گے،ہر سال مدت ملازمت پوری
کرنے پر مختلف اداروں سے سینکڑوں بلکہ ہزاروں لوگ الوداع ہوتے ہیں لیکن
مختار درانی جیسے لوگ انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں جن کیلئے کام صرف ذریعہ
معاش نہیں بلکہ عبادت کا درجہ رکھتا تھا اور وطن عزیز کیلئے سی پیک جیسے
عظیم منصوبوں کے یہ کلیدی کردار قابل ستائش ہی نہیں بلکہ ہمارے وہ گمنام
ہیرو جنہیں ہم ان کا جائز مقام نہیں دے پائے اور یہ اس قوم پر ایک قرض ہے۔
گوادر کے نیلگوں سمندر سے چین تک پھیلی ہوئی شاہراہ ایک سڑک کا نام بلکہ اس
ملک کی خوشحالی اور استحکام کا ایک روشن باب ہے یہ کچے آنگنوں میں بیٹھے
کروڑوں لوگوں کے خوابوں کی تعبیر اور ان کی تنکا تنکا چنتی حسرتوں کی منزل
ہے جو آج بھی عالمی سازشوں کا شکار ہے اس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے
کہ جب سی پیک کا عملاً آغاز ہو رہا تھا اس وقت صورت حال کیا ہوگی اس منصوبے
کو رکوانے ،تعطل میں ڈالنے اور متنازعہ بنانے کیلئے کیا کیا حربے استعمال
نہیں کئے گئے ہونگے لیکن اس وقت کے وزیر اعظم میاں نواز شریف نیشنل ہائی وے
اتھارٹی کے چیئرمین شاہد اشرف تارڑ ممبر مختار درانی اور ان کی پوری ٹیم نے
جس جانفشانی سے کام کیا اور اس ناممکن کو ممکن کر دکھایا اسے مورخ ہمیشہ
سنہرے حروف سے لکھے گا ایک تحقیقاتی رپورٹر کے طور پر میں اس کھٹن وقت کے
کئی واقعات کا شاید ہوں اور اسی لیے میں مختار درانی جیسے گمنام ہیروز کا
پرجوش مداح ہوں ۔
ہماری بدقسمتی ہے کہ اس ملک میں ایوارڈز ریوڑیوں کی طرح بانٹے جاتے ہیں
اعلی اعزازات بھی اقربا پروری اور ذاتی پسند ناپسند کی کسوٹی پر بانٹے جاتے
ہیں جبکہ اس ملک کے اصل ہیرو گمنام اور محروم ہی رہتے ہیں بلکہ تلخ حقیقت
تو یہ ہے کہ دھرتی سے وفا ان کا جرم بن جاتا ہے اور ملکی مفاد کو مقدم
رکھنے کی پاداش میں غیر ملکی طاقتوں کے وظیفہ خوار میر جعفر ان کی زندگی
اجیرن بنا دیتے ہیں میں جب یہ تحریر لکھ رہا ہوں تو کئی چہرے میری نظروں
میں گھوم رہے ہیں ایک طویل فہرست ہے جن کا علیحدہ علیحدہ ذکر مشکل ہے لیکن
ان سب لوگوں سے میں دل کی گہرائیوں سے محبت کرتا ہوں اور یہ ہمارے اصل محسن
ہیں ۔
مجھے دکھ ہے کہ دنیا کے معتبر بزنس مین جاوید صادق کو ہم نے الزامات کے
نشتروں سے لہو لہان کر دیا اس کا جرم صرف یہ تھا کہ وہ اس مٹی سے محبت کرتا
تھا اس نے اپنی ساری توانائیاں ذاتی وسائل اور مہارت اس ملک کیلئے وقف کر
دی تھی لیکن ہم نے اس کے خلوص کا جلوس نکال دیا اور اسے اس قدر مجبور کر
دیا کہ وہ محبت،خلوص اور اس دیس کیلئے کچھ کر گزرنے کے جذبے کی گھٹڑی باندھ
کر پھر بیرون ملک سدھار گیا
مجھے افسوس ہے کہ شاہد اشرف تارڑ اور مختار درانی جیسے نیک نیت،محنتی اور
ایماندار افسران کہ جنہوں نے دن رات ایک کرکے نہ صرف ملک کے سب سے بڑے
منصوبے کو عملی جامہ پہنایا بلکہ غیر ملکی کمپنیوں سے لڑ جھگڑ کر ان کی منت
زاری کرکے واسطے دے کر ملک کو کئی سو ارب کا فائدہ پہنچایا وہ برسوں نیب کی
انکوائریاں بھگتتے اور معمولی افسران کی جھڑکیاں سنتے رہے۔
مختار درانی میں ایک قلم کار ہوں میں آپ کی خدمات کا معترف ہوں آپ کو اس
ملک کے سب بڑے سول اعزاز کا حقدار سمجھتا ہوں مجھے یقین ہے آپ لوگوں نے
اندرونی بیرونی دباؤ کو جوتے کی نوک پر رکھ کر جس عظیم منصوبے کی پہلی اینٹ
رکھی وہ جلد یا بدیر مکمل ضرور ہوگا اور اس ملک کی تقدیر بدل دے گا آپ نے
ساری عمر جس جانفشانی سے اپنے فرائض ادا کئے اور ایمانداری کی جو روشن مثال
چھوڑ کر جا رہے ہیں اسے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا آپ اس دھرتی کا فخر اور
سرمایہ ہیں یہ نظام آپ جیسے مخلص لوگوں کی وجہ سے ہی چل رہا ہے۔ |