مان لیجیۓ مرد بھی مظلوم ہوسکتا ہے!

افسوس کہ ہم جس سرزمین کے باسی ہیں، جس معاشرے میں ہم نے آنکھ کھولی اورجس آب و ہوا میں ہم سانس لے رہے ہیں، اس نے ہمیں ہمیشہ سکے کا ایک ہی رخ دیکھنے پر مجبور کۓ رکھا ہے۔ اور وہ رخ ہے عورت کو ایک مظلوم ہستی کے طور پر پیش کیا جانا۔

زندگی کے اسٹیج پرعورت کو ایک ہی کردار ادا کرتے دیکھایا جاتا ہے۔ جہاں اسے بحیثیت بیٹی، بیوی، ماں، بہو غرض ہر رشتے کو نبھانے کے لۓ اس کے آنسوؤں کو مضبوط ڈھال بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔

مرد جس چکی میں پس رہا ہوتا ہے، وہ گھر والوں اور باہر والوں کی مرہونِ منت ہوتی ہے۔ جب وہ گھر سے باہر نکلتا ہے تو بہت سی مشکلات و پریشانیاں جیسے اسی کی تاک میں بیٹھی ہوتی ہیں۔ اب وہ موٹر سائیکل کے ٹائر پنکچر کی صورت ہو یا باس کی ڈانٹ ڈپٹ۔ گرمی میں سورج کی چِل چِلاتی دھوپ کا مقابلہ کرنا پڑے یا سردیوں کی ٹھٹھراتی، خون جماتی ٹھنڈ کا سامنا ہو۔ کاروبار میں نفع نقصان کا بیڑا اٹھانا ہو یا مزدوی ملنے کی امید کا درد سہنا پڑے۔ وہ ہر تکلیف برداشت کرنے کے لۓ ہمہ وقت تیار رہتا ہے۔ صرف اور صرف اپنے خاندان کی ضرویات اور کسی قدر خواہشات پوری کرنے کے لۓ۔ یہ تو ہو گئ بیچارے مرد کی کہانی گھر سے باہر۔

اب تیار رہیں اسی مرد کی دوسری کہانی کے لۓ جو گھر کی چاردیواری میں قدم رکھنے پر ہی شروع ہوئ چاہتی ہے۔ ماں کو سلام کرنے کمرے میں جاتا ہے تو والدہ صاحبہ کا موڈ ہی بتلا دیتا ہے کہ یقیناً ان میں اور بیوی میں ان بن کا معاملہ پیش آ چکا ہے۔ تھکن سے چور ماں کی زبانی دن بھر کی روداد سن کر، انہیں تسلی بھرے جملے کہہ کررخصت چاہتا ہے۔ نا پانی پوچھا گیا، کھانے کا سوال کہاں۔ اب جو رخ بیوی کی طرف کرتا ہے بیوی شکایات کی پٹاری کھول دیتی ہے۔ بیچارا، مظلوم مرد اسے دلاسہ دے کر رام کرنے کی اپنی سی کوشش میں کبھی کامیاب تو کبھی ناکام ٹھہرتا ہے۔ مظلومیت کی انتہا ملاحظہ فرمائیں کہ وہ تو عورتوں کی طرح اپنا دُکھڑا کسی کو سنا کر مَن بھی ہلکا نہیں کر سکتا۔

اگر میرے عزیز قارئین کو میری حالیہ تحریر یاد ہو جس کا عنوان تھا 'ماؤں کی یکطرفہ کہانیوں کا ناقابلِ تلافی نقصان'، انہی یکطرفہ کہانیوں کا سب سے ذیادہ نقصان جس شخصیت کو پہنچتا ہے وہ یقیناً باپ ہی ہوتا ہے۔ جی ہاں! وہی باپ جو زندگی کی تپتی دھوپ میں اپنی اولاد کے لۓ کسی سائبان سے کم نہیں ہوتا۔ وہی باپ جو اپنی جوانی کی تمام ترطاقت و توانائ اپنے خاندان کی ضرویات پوری کرنے میں صَرف کردیتا ہے۔ وہی باپ جس کی ہڈیوں کا گودا اولاد کے سکھ چین کی مد میں سوکھ جاتا ہے۔ وہی باپ اپنی ساری اہمیت و حیثیت سے اسوقت ہاتھ دھو بیٹھتا ہے جب اس کی بیوی، اپنے اور اسکے درمیان کے اختلافات کو اولاد کے سامنے منفی انداذ میں بیان کرتی ہے۔ اسی بناء پر اولاد کا دل باپ سے کسی حد تک متنفر ہونے لگتا ہے کیونکہ ان کے جذبات کے پودے کو پانی ماں کے آنسوؤں سے جو دیا جا رہا ہوتا ہے۔

فیصلہ میں اپنے معزز قارئین پر چھوڑتی ہوں کہ آپ بھی میری بات سے اتفاق کرتے آپ میں بھی ہوۓ مردوں کے لۓ ہمدردی کے جذبات نے جنم لیا یا نہیں۔ مرد ہو یا عورت وہ کسی بھی رشتے میں بندھے ہوں انہیں زندگی جینے کا حق ہے وہ بھی سکون و آذادی کے ساتھ ۔ زندگی بہت قیمتی ہے کیوں نہ آج سے ہی ہم اس کی قدر کریں، اپنی اور دوسروں کی زندگیوں کو آسان اور پرسکون بنانے کی پُرزورکوشش کریں۔

 

Asma Ahmed
About the Author: Asma Ahmed Read More Articles by Asma Ahmed: 47 Articles with 44992 views Writing is my passion whether it is about writing articles on various topics or stories that teach moral in one way or the other. My work is 100% orig.. View More