پچھلے دو برس میں پاکستانی کرکٹ ٹیم ہر روز نئی پستی
دیکھنے کی عادت ہو چکی ہے مگر پاکستان کی یہ بیٹنگ کاوش اس کے اپنے طے کردہ
پستی کے معیار سے بھی کافی گری ہوئی تھی۔
امریکہ کے کھلاڑیوں کی بیٹنگ اپروچ کسی بھی عزم سے عاری تھی نہ صرف محمد
رضوان کو اینکر کا کردار دینا غلط ثابت ہوا بلکہ کھیل سے آگہی کی کمی بھی
بھاری پڑی
کیپشنجبکہ انڈین کپتان رویت شرما کی جارحانہ فیلڈ سیٹنگ نے پاکستان کے لیے
سنگلز کا حصول بھی دشوار کر دیا تھا. جب فیلڈنگ ایسے جارحانہ پلان پہ مبنی
ہو تو بلے بازوں کے لیے بھی کاؤنٹر اٹیک کا موقع ہوتا ہے کہ وہ قدموں کے
استعمال سے بولر کی لینتھ خراب کر ڈالیں اور اونچے شاٹ کھیل کر فیلڈرز کے
حصار کو عبور کریں۔ مگر یہاں تو لگ رہا تھا کہ پاکستان بورڈ نے کوئی گلی
محلے کے کلب کرکٹ کھلاڑیوں کو بھیج دیا ہے. پاکستان کی بیٹنگ لائن اپ میں،
فخر زمان کے سوا کوئی اس چیز میں مہارت نہیں رکھتا۔
پاکستان کے زبردستی کے ٹی - 20 کے بیٹر محمد رضوان نے 70 کے سٹرائیک ریٹ کے
ساتھ 44 گیندوں پہ 31 رنز کی اننگ کھیلی جو کہ ڈیتھ اوورز میں مطلوبہ رن
ریٹ کو دس رنز فی اوور تک لے گئی، جسے اس وکٹ پہ حاصل کرنا غیر حقیقت
پسندانہ تھا۔
اس ناقابلِ یقین شکست نے پاکستانی مڈل آرڈر کی تکنیکی خامیاں بھی سب کے
سامنے کھل کر آگئی ہیں. جب افغانستان کے خلاف آخری اوور میں دو چھکے لگا کر
میچ جیتنا قومی فخر کا باعث بننے لگے تو پھر بمراہ، سراج اور پانڈیا جیسے
بولرز کے خلاف یہ بیٹنگ لائن اتنی ہی گہرائی دکھا سکے گی جو یہاں نظر آئی۔
سپر ایٹ تک پاکستان کی رسائی کے اب نہ ہونے کے برابر ہے. بطور بلے باز بابر
اعظم کے کرئیر پہ بھی بہت بڑا سوالیہ نشان اٹھا دیا ہے کہ کسی اچھے بولنگ
اٹیک کے خلاف، ایسے اہم میچز میں، کب وہ اپنے اس ٹیلنٹ کا اظہار کریں گے جو
عموماً بنگلہ دیش، سری لنکا، ویسٹ انڈیز اور زمبابوے کے خلاف دیکھنے کو
ملتا ہے۔ اور یہ حقیقت ہے.
پچھلے دو برس میں پاکستانی کرکٹ ٹیم ہر روز اس کی پرواز نیچے ہی سفر کررہی
ہے. اور پاکستانی عوام کو بھی اب دیکھنے کی عادت ہو چکی ہے مگر پاکستان کی
یہ بیٹنگ کاوش اس کے اپنے طے کردہ پستی کے معیار سے بھی کافی گری ہوئی تھی۔
جبکہ امریکہ کے میچ کہ آخری اوور میں رؤف کی بولنگ کا معیار وہ معیار نہیں
تھا جو اس نے اپنے دورہ آسٹریلیا کے دوران ون ڈے ٹورنامنٹ میں تباہی مچائی
ہوئی تھی. جبکہ عامر نے اپنے پہلے اوور ( پاور پلے ) میں جس طرح کی بولنگ
کی ایسا لگ رہا تھا امریکن بیسٹمین تو نہیں گھبرارہے محمد عامر نے ہتھیار
نے ڈالدیے یہ کسی بھی پاکستانی بولرز کی پاور پلے میں سب سے خراب ترین
بولنگ تھی اتنے سینیر بولرز کا ردھم سے گیند نہیں پھیکنا یہی بتاتا تھا کہ
پاکستانی ڈومیسٹک نہ کھیلنے سے جہاں انکا نقصان تو ہوا ہی مگر پاکستان کرکٹ
ٹیم کی ٹورنامنٹ سے باہر ہوجانے پر پاکستانی کرکٹ کو بہت بڑا نقصان ہوا.
پچھلے دو برس میں پاکستانی کرکٹ ٹیم ہر روز نئی پستی دیکھنے کی عادت ہو چکی
ہے مگر پاکستان کی یہ بیٹنگ کاوش اس کے اپنے طے کردہ پستی کے معیار سے بھی
کافی گری ہوئی تھی۔
مگر امریکہ کے دورے کے بعد کئ کھلاڑی کو دوبارہ میدان میں آنے کے لیے ان پر
اب نئے ٹیلنٹ کو فوقیت دینی چاہیے. یہ سفارشی ٹولہ جو ابھی سے سوشل میڈیا ،
فیس بک ، اور نیوز ٹاک چینل وغیرہ میں ابھی سے ان کے حمایتی اہنے سر نکال
کر ان کی حمایت میں آگے آگئے ہیں. اگر دیکھا جائے اس کے باوجود پاکستان کی
بولنگ ان شروع کے دو میچوں میں عمدہ نہیں رہی جس کی توقع کی جارہی تھی.
پی بی سی نے اس ٹورنامنٹ میں اگر رزلٹ کچھ بھی آئے اس ٹیم کی سرجری
کھلاڑیوں کے علاوہ مینیجمنٹ ، بورڈز اور سلیکشن کمیٹی پر بھی اپنا ہاتھ
دیکھانا ہوئیگا اگر اب یہ نہیں ہوا تو پھر کبھی نہیں والی بات ہوجائیگی جس
کا خمیازہ ٹیم اور عوام کو آنے والے کرکٹ ٹورنامنٹ میں نظر آرہا ہے. اب پی
بی سی کو اصلی شیر آگے لانے پڑینگے. یہ ہمارے وہ کاغذی شیر تھے جنھیں عوام
نے ہر وقت اپنے سروں پر بیٹھا کہ رکھا. اب وقت آگیا ہے ایک نئی ٹیم میدان
میں اُتاری جائے. اب چاہے کیسا بھی ٹیم کا رزلٹ آئے ملکی ٹیلنٹ کو سامنے
لانا ہم سب کی مجبوری بن گیا ہے.
پی سی بی کو اب ٹیم کے ساتھ ساتھ مینیجمنٹ اور سلیکشن کمیٹی کے عہدیداران
میں سے بھی ان کالی بھیڑوں کو نکال باہر کرنا پڑئیگا جو اپنے اپنے مفادات
کے لیے ٹیم میں کھلاڑیوں کے گروپس بنواتے اور توڑتے رہے صرف اور صرف اپنے
اپنے مفادات کے لیے اور ہر دفعہ ٹیم کے ساتھ پی سی بی کے عہدیداران اپنی
فیملیوں اور بچوں کو بھی پکنک پر لیجانے کا ایک نیا فیشن معین خان کے زمانے
سے جو چلا آرہا ہے اور اب تو امریکہ میں جس طرح ٹیم کے آفیشل ممبرز نے جو
اپنی فیملیوں اور بچوں کے ساتھ امریکہ میں جو تماشہ لگایا اس پر سوشل میڈیا
میں جس طرح پی سی بی کی نیک نامی کو چار چاند لگائے ان افراد پر آئندہ پی
سی بی میں کوئی عہدہ دینے سے اجتناب کیا جائے اور واپسی میں ان سب کو نکال
باہر کیا جائے.
اگر اب بھی پی سی بی نے لیت و تعال سے کام لیا تو پھر اس کرکٹ اور اس کے
کھلاڑیوں کا حال بھی زمبابوے کی کرکٹ کی طرح نہ ہوجائے.
|