اسے شرم کہیں، وحشت کہیں یا ندامت کہیں

ہم ایسے کیا کہیں ایسے شرم کہیں ، وحشت کہیں کہ ندامت کہیں جو پاکستان کرکٹ کی موجودہ کیفیت کا خلاصہ کر سکے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں لفظ عاجز ہو رہے ہیں، حواس گم ہو چکے ہیں اور عقل سر کے بل گر پڑی ہے جو کہ گرنے کہ بعد اُٹھ بھی نہ پارہی ہے.

صرف گذشتہ دو دہائیوں میں صرف پاکستان کی واحد ٹیم ہے کہ اگر پاکستانی کرکٹ کے ورلڈ کپ میں 'کارناموں' کو شمار کیا جائے تو کئی ایسے لمحات مل جایں گے کہ جو کروڑوں دلوں کے ٹوٹنے کا سبب بنے۔ مگر انڈیا سے شکست کا یہ لمحہ شاید ان سب پہ بھی بھاری ہے۔

اپنے کرب کی پیمائش میں یہ لمحہ شاید اس سانحے پہ بھی گراں ہے جو ورلڈ کپ میں کبھی بنگلادیش تو کبھی آئرلینڈ سے تو کبھی امریکہ سے شکست کی صورت رونما ہوا تھے۔ یہ یقیناً اس خلش پہ بھی بھاری ہے جو سات ماہ پہلے افغانستان سے شکست بن کر آئی تھی۔

اس وقت پاکستانی ٹیم میں دنیا کا کامیاب ترین بلے باز قیادت کو نصیب ہے، جسے ایک باصلاحیت مڈل آرڈر دستیاب ہے اور جس کی پیس بولنگ کا دنیا بھر میں چرچا رہتا ہے، جو ٹیسٹ کرکٹ میں ستر سال سے زائد کی تاریخ رکھتی ہے، وہ کیسے اس ٹیم سے ہار گئی جسے انٹرنیشنل کرکٹ میں آئے ابھی جمعہ جمعہ آٹھ دن بھی نہیں ہوئے؟

مگر کھیل کے ان پہلوؤں سے بھی بڑھ کر پاکستان کے لیے پریشان کن بات یہ رہی کہ ٹیم کے کھلاڑیوں کے چہروں پر وہ مُسکراہٹ ، خوفزدہ چہرے اس ٹیم میں سبھی کندھے جھکے ہوئے اور سبھی چہرے اترے ہوئے نظر آئے جہاں ٹیم کیمسٹری بالکل ناپید ہے آخر کیا دباؤ ہے اور کہاں سے ہے.

گزشتہ سال ہوئے آئی سی سی یک روزہ عالمی کپ میں بھی پاکستانی ٹیم کی کارکردگی انتہائی خراب رہی تھی۔ ٹیم لیگ راؤنڈ سے ہی باہر ہو گئی تھی۔ اس کے بعد پی سی بی اور پاکستانی ٹیم کی کپتانی میں بڑے پیمانے پر تبدیلی ہوئی تھی۔ بابر کو تینوں فارمیٹ کی کپتانی سے استعفیٰ دینا پڑا تھا۔ شاہین ٹی-20 میں کپتان بنے تھے اور شان مسعود کو ٹیسٹ کرکٹ میں ٹیم کا کپتان بنایا گیا تھا۔ پھر جب ذکا اشرف کی جگہ محسن نقوی پی سی بی چیف بنے تو پھر سے کپتان بدلے گئے۔ بابر کو پھر سے ٹی-20 کی کپتانی سونپی گئی، اور اب ٹی-20 عالمی کپ میں پاکستانی ٹیم کا جیسا حال ہو رہا ہے، کوئی حیرانی نہیں ہوگی اگر ایک بار پھر بابر سے کپتانی چھین لی جائے۔

’پاکستانی کھلاڑی لگتا ہے کہ یہ پی ایس ایل کے جوگے ہو، جہاں ان کی انا اور بادشاہت چلتی ہے!
اصل دنیا میں ان کی کوئی اوقات نہیں اگلے سال پاکستان کو کوالیفیکیشن کے لیے کھیلنا پڑے گا۔
یہاں سیلیکشن کمیٹی سے لے کر ٹیم تک، تم سب سے تو بہتر گلی محلوں کی ٹیم ہے۔

ایسا لگتا تھا کہ دماغ سے پیدل کرکٹ! کوئی پلان نہیں تھا، خدا حافظ۔
کبھی ان کے کھیل کو دیکھ کر لگتا ہے جیتنے لگے ہیں، ہار جاتے ہیں۔ جب لگتا ہے ہارنے لگے ہیں، تب بھی ہار جاتے ہیں۔ جب پاکستانی کرکٹ ٹیم امریکا جیسی چھوٹی ٹیم سے میچ ہار گئی اور اس شکست سے سبق سیکھنے کی بجائے ہمارے کاغذی شیر بھوکوں کی طرح نیویارک کی سڑکوں پر شاپنگ کرنے نکل گئے۔ جبکہ ان کو اپنی غلطیوں کو درست کرنا چاہیے تھا، اور انڈیا سے مقابلے کے لیے لائحہ عمل تیار کرنا چاہیے تھا، ان کو اپنی فٹنس پر دھیان دینا چاہیے تھا، لیکن ہمارے کھلاڑی نیو یارک کی گلیوں میں نادیدوں کی طرح سیر سپاٹے کرنے نکل گئے، انہیں شرم آنی چاہیے ( جو انکو ہمارے حُکمرانوں کی طرح پاس سے بھی نہ گزری ہوگی.)

گویا انٹرنیشنل کرکٹ کی الیون نہ ہوئی، چند جھنجلائے ہوئے کرکٹرز کا ایک گروہ ہو گیا جسے زندگی اور اس کی مقصدیت سے کوئی خاص دلچسپی نہیں ہے۔

اگر دیکھا جائے تو اس اپ سیٹ کی شکل میں پاکستانی کرکٹ کو ایک ایسا جھٹکا لگ چکا ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ عہدیداروں کو جو ان عہدوں پر براجمان ہیں ان کو آئینے میں اپنا چہرہ دیکھنے کی ضرورت ہے. اور انہیں خود سے یہ سوال پوچھنا چاہیے کہ یہ نوبت کیسے آن پہنچی کہ پچھلے ورلڈ کپ کا فائنل کھیلنے والی ٹیم اس حال کو پہنچ گئی۔


اس وقت فیصلہ سازی میں جو کنفیوژن پاکستانی ڈریسنگ روم میں دکھائی دے رہی ہے، اس کے دوران یہ محال ہے کہ پاکستان ٹورنامنٹ کے اس اہم ترین دونوں میچوں میں باحواس اور باشعور کرکٹ کھیل پائے اور جو اتحاد کبھی اس ٹیم کا خاصہ ہوا کرتا تھا، اب وہ بھی ہوا ہو چکا ہے کہ قیادت کے متواتر بدلاؤ نے ڈریسنگ روم کی اخلاقیات ختم کر چھوڑی ہے۔

ابرار احمد پچھلے برس کے ون ڈے ورلڈ کپ ہی کی طرح یہاں بھی بینچ گرما رہے ہیں اور بابر اعظم کی ایک نظرِ التفات کے منتظر ہیں مگر بابر اعظم کی آنکھوں میں شاداب کے سوا کوئی جچ پائے تو بات بنے.

ورلڈ کپ فائنل سے اب تک کے عرصے میں جو نمونے چئیرمین اس بورڈ کو نصیب ہوئے اور انتظامی و عملی سطح پہ جو ہواؤں میں فیصلے کئے گئے۔ اس وقت ٹیم کے دو تین گروپ کی بات سابق چیرمین بورڈ کہہ رہے ہیں. اس پر کرکٹ کے کرتا دہرتاؤں کو فورا نوٹس لینا چاہیے کہ انھوں نے اس کرکٹ ڈھانچے کو بے یقینی کی اس نہج پہ لا پہنچادیا ہے کہ جہاں تسلسل اور استحکام کا تصور بھی کسی مذاق سے کم نہیں نظر آتا. پاکستانی کرکٹ کو اگر دوبارہ اپنی اصلی پوزیشن پر لانا ہے تو پاکستان کرکٹ بورڈ کو فورا سیاست سے آزاد کر کے پروفیشنل کرکٹر کو لانا ہوئیگا وہ پروفیشنل جواری ٹولہ نہیں بلکہ وہ محب وطن پروفیشنل کھلاڑی جس کا دامن کرپشن سے پاک ہو جو اہلیت و قابلیت کو فوقیت دئے اور سفارشی ٹولہ کو نکال باہر کرئے اس وقت وہی پاکستان کے بہترین ٹیلنٹ اور کرکٹ کو اوپر لاسکتا ہے نہیں تو جو آج پاکستان کی سیاست کا حشر ہورہا ہے یہی حال کہیں پاکستان کرکٹ کا نہ ہوجائے.

اس وقت فورا کرکٹ بورڈ کا چیرمین سابق ٹیسٹ بیٹر محسن حسن خان کو سونپ دئی جائے. پھر دیکھیں کس طرح کرکٹ ترقی کرتی ہے.

 

انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ
About the Author: انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ Read More Articles by انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ: 313 Articles with 117133 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.