فادر ڈے۔ باپ جنت کا دروازہ

اس کے باوجود کہ میں خود 70سال کاہو چکا ہوں اور میرا آنگن پوتے پوتیاں کی شرارتوں او قہقہوں سے مہکتا ہے ۔پھر بھی کوئی لمحہ ایسا نہیں جاتا جب میں اپنے والدین کو یاد نہ کروں ۔25دسمبر 1954ء کو قصور شہر کی فضاؤں میں، میں نے پہلا سانس لیا تھاحسن اتفاق سے اسی دن میرے والد کو پاکستان ریلوے میں بطور کانٹے والا ملازمت ملی تھی ۔اس لیے دنیا میں میری آمد کو والدین کے لیے خوش نصیب تصور کیا گیا ۔ابھی میں نے ہوش نہیں سنبھالا تھا کہ قصور کو خیرباد کہہ کر والدین کو پریم نگر جانا پڑا جہاں والد صاحب کی پہلی پوسٹنگ ہوئی تھی۔ چند سال وہاں گزار کر ہمارا خاندان قلعہ ستار شاہ جا پہنچا ۔ یہ اسٹیشن شاہدرہ اور شیخوپورہ کے درمیان واقع ہے ۔اس اسٹیشن کے اردگرد جنگل بیابان تھا دور دورتک انسانی آبادی کا نام و نشان نہیں تھا ۔ وہاں ہمیں رہنے کے لیے ایک چھوٹا سا کوارٹر دے دیا گیا۔ ہمیں بتایا گیا کہ جنگل میں خطرناک جنگلی درندے بھی دندناتے پھرتے تھے ۔ جو کسی کو بھی نقصان پہنچا سکتے تھے ۔ والدہ نے ہدایت کی کہ گھر کے سامنے کھیلنا ۔دور نہیں جانا۔اسٹیشن کے اردو گرد دو بڑی نہریں بھی تھیں جو موسم برسات میں اکثر ٹوٹ جاتی تھیں اور ان نہروں کا پانی ریلوے کوارٹروں اور اسٹیشن کو بھی چاروں اطراف سے گھیرلیتا تھا۔ برساتی پانی سانپ بھی کثرت سے موجود ہوتے ۔یہ سانپ اتنے زہریلے تھے کہ جس کو بھی ڈستے وہ پانی بھی نہیں مانگتا تھا۔سیلاب کے دوران ہمارے پاس پینے کا پانی بھی نہ ہوتا ۔چونکہ پلیٹ فارم اونچی جگہ پر تھا، اس لیے ریلوے ملازمین اپنی فیملیوں کو لے کر پلیٹ فارم پر آ جاتے ۔اس اسٹیشن پر تیزرفتار ٹرینیں بغیر رکے گزرجاتی تھیں۔ ایک آدھ پسنجر ٹرین یہاں چند منٹ ضرور رکتی تھی ۔یہیں پرہمارے گھر میں ایک بہن کا اضافہ ہوا۔ جس کا نام والدین نے "نصرت "رکھا ۔ چونکہ وہ مجھ سے چھوٹی تھی، اس لیے وہ میرے ساتھ بہت مانوس تھی ۔ ایک دن اسے بخار نے آگھیر ا ۔دور نزدیک کوئی حکیم نہیں تھا جس سے بخار کی دوائی لی جاتی ۔ چند دن ایسے ہی گزرگئے بالاخر بخار میں تپتی ہوئی میری بہن چپ چاپ خالق حقیقی سے جا ملی ۔ اس کی وفات کا دکھ گھر کے سبھی افراد کو تھا لیکن اﷲ کے فیصلے کے سامنے سب نے سرتسلیم خم کردیا ۔لیکن بہن کی یاد ہمیشہ میرے دامن گیررہی ۔ ایک رات خواب میں ایک سیدھی سادی لڑکی میرے قریب آئی اورسلام کرکے مجھے بتایا کہ میں آپ کی بہن نصرت ہوں ۔ جو بچپن میں آپ سے جدا ہو گئی تھی ۔میں نے یہ بات والدین کو بتائی تو وہ بھی خوش ہوئے ۔ قلعہ ستارشاہ اسٹیشن بنانے والوں نے کانٹے بدلنے اور سگنل ڈاؤن کرنے کے لیے کھلے آسمان کے نیچے چند لیور لگاکر گزارا کر لیاتھا ۔سردی ہو یا گرمی ہو جب بھی ٹرین کی آمد کا اعلان ہوتا تو میرے والد صاحب پیدل ہی چلتے ہوئے تین چار فرلانگ کے فاصلے پر جا کے کانٹے سیٹ کر کے سگنل ڈاؤن کردیتے۔لوہے کے یہ لیور آگ برساتی گرمیوں میں آگ کی طرح گرم ہوتے اور سردیوں کے موسم میں برف کی طرف ٹھنڈے ہوجاتے ۔ دن کے اجالے میں تو پھر بھی گزرا ہو جاتا تھا لیکن جون جولائی کے مہینوں میں جب گرمی عروج پر ہوتی اور گرم لو سے چہرے جھلسا رہی ہوتی تو آگ کی طرح گرم لوہے کے لیوروں کو پوری طاقت سے کھینچ کر کانٹے سیٹ کرنا اور سگنل ڈاؤن کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا ۔ سردیوں کی راتوں میں جب ٹرین کی آمد کے موقع پر یہ فریضہ انجام دینا پڑتا تو چاروں اطراف گھپ اندھیرے اور جنگل کی سنسناتی برف کی طرح ٹھنڈی ہواماحول کو اور بھی خوفناک اور سرد بنادیتی تھی ۔ ایک دن والدصاحب نے یہ واقعہ سنایا کہ جیسے ہی میں سگنل ڈاؤن کرنے کے لیے اس مقام پر پہنچا تو رات کے اندھیرے میں اڑنے والے سانپ لیوروں سے چمٹے ہوئے تھے ۔میرے ہاتھ میں چھوٹی سی بتی تھی جس میں ایک چراغ ٹمٹا رہا تھا اور دوسرے میں ایک لاٹھی تھی ۔اتنی کم روشنی سے کوئی چیز واضح دکھائی نہیں دے رہی تھی ، میں نے جیسے ہی لیور پرہاتھ ڈالا تو لپٹے ہوئے سانپوں نے مجھ پر حملہ کر دیا اگر اﷲ کا کرم شامل حال نہ ہوتا تو وہ میری زندگی کی آخری رات ہی ثابت ہوتی ۔ اسٹیشن سے کچھ فاصلے پر ایک چھوٹا سا کمرہ بھی موجود تھا جس میں بوقت ضرورت استعمال کے لیے اسٹیشنری رکھی ہوئی تھی۔ ایک دن جب میں والد صاحب کے ساتھ اس کمرے میں پہنچا تو میرے دل نے چاہا کہ اگر یہ سارے کاغذمجھے مل جائیں تو میں ان پرساری دنیا کی کہانیاں لکھوں ۔یاد رہے کہ اس وقت میں نے ابھی سکول کا منہ بھی نہیں دیکھا تھا ۔یہاں یہ عرض کرتا چلوں کہ میں جتنی محبت اپنی والدہ سے کرتا تھا اس سے دوگنی والد سے کرتا تھا ۔ ریلوے کے تمام رننگ سٹاف پر یہ لازم ہے کہ وہ سال میں ایک مرتبہ اپنی آنکھوں کا معائنہ کرانے ڈی ایس آفس جائیں۔ وہاں موجود ڈاکٹر آنکھوں کا معائنہ کرکے پاس اور فیل کرنے پر قادر تھے ۔ ایک مرتبہ میرے والد بھی آنکھوں کا معائنہ کرانے لاہور گئے ہوئے تھے ۔صبح ہی سے مجھے والد کی یاد نے بے حال کررکھا تھا۔ پہلے تو میں اپنے کوارٹرکی چھوٹی سی کھڑکی میں بیٹھ کر ٹرین کا انتظار کرتا رہا۔ جب یاد نے شدت اختیار کی تو میں والدہ سے اجازت لے کر اسٹیشن پر جا بیٹھا ۔پلیٹ فارم پر بیٹھ کر آنے جانے والی ٹرینوں کانظارہ کرتا رہا۔ لاہور کی جانب سے ٹرین آنے میں ابھی کچھ وقت باقی تھا، میں نے سوچا کہ اس وقت تک کچھ نہ کچھ کرنا چاہیئے ۔پلیٹ فارم کے ایک حصے میں تارکول ( لک ) بکھری ہوئی تھی ، میں نے تارکول کے گولے بنانے شروع کردیئے ۔اس کام میں مجھے اتنا مزا آیاکہ مجھے احساس ہی نہ رہا کہ تارکول میرے کپڑوں میں بھی لگ چکی ہے ۔ اسی اثنا ء میں لاہور کی جانب ایک ٹرین آکر پلیٹ فارم پر رکی ۔ جیسے ہی میری نظر ٹرین سے اترتے ہوئے اپنے والدپر پڑی تو دل باغ باغ ہو گیا ۔ میں بے ساختہ بھاگتا ہوا والد کی ٹانگوں سے چمٹ گیا ۔انہوں نے پیارکرنے کے بعد جب میرے کپڑوں پر نظر ڈالی تو انہیں غصہ تو آیا لیکن جلد ہی ان پر شفقت اور محبت غالب آگئی ۔جب ہم گھر پہنچے تو والدہ نے دیکھتے ہی کپڑے دھونے والا تھاپا پکڑا اور میری پٹائی شروع کردی ۔ چار پانچ تھاپے میری کمرپر برس چکے تو میں والدکی جانب مدد کے لیے بھاگا اور ان کی ٹانگوں سے چمٹ گیا ۔ اس شرط پر میری جان چھوڑی کہ کپڑوں پر لگی ہوئی تارکول والد صاحب مٹی کے تیل سے خود صاف کریں گے۔اسٹیشن پر ایک بتی گودام موجود تھا جس میں مٹی کا تیل موجود ہوتا ۔ جو چراغواں میں ڈال کر یہ چراغ ہرشام اوٹراور ہوم سگنلز میں رکھے جاتے تھے۔والد صاحب نے مجھے بچانے کے لیے اس مٹی کے تیل سے میرے کپڑوں پر لگی ہوئی تارکول اتاردی ، تب میری جان چھوٹی۔یہ بھی بتاتا چلوں کہ میرے دو بڑے بھائی محمد اکرم اور محمد رمضان اس وقت شیخوپورہ شہر کے کسی پرائمری سکول میں ٹرین پر سوار ہوکرہر صبح جاتے تھے اور شام ہونے سے پہلے گھر واپس آجاتے تھے ۔ایک صبح وہ شیخوپورہ پڑھنے گئے لیکن رات تک واپس نہیں آئے۔ان کے گھر واپس نہ آنے سے والدین سخت پریشان ہوئے۔ انہوں نے رات جاگ کی گزاری ۔ اگلے دن والد صاحب انہیں تلاش میں شیخوپورہ جا پہنچے تو پتہ چلا کہ جب میرے دونوں بھائی شیخوپورہ اسٹیشن پر پہنچے تو آخری ٹرین جاچکی تھی۔ اس لیے وہ شیخوپورہ میں ہی ہمارے عزیزوں کے گھر چلے گئے اور رات انہوں نے وہاں گزاری ۔ جس وقت کی میں بات کررہا ہوں اس وقت نہ تو پی ٹی سی ایل کا فون تھا ، جبکہ موبائل کا تو تصور بھی نہیں تھا ۔اس رات کے بعد والد صاحب اس جستجو میں تھے کہ کسی ایسے اسٹیشن پر ٹرانسفر کروائی جائے جہاں کم از کم پرائمری سکول تو موجود ہو جہاں ان کے بچے ان کی آنکھوں کے سامنے پڑھ سکیں ۔چنانچہ ان کی کوشش اس وقت کامیاب ہوگئی جب ان کی ٹرانسفر واں رادھارام ( حبیب آباد) ہو گئی ۔کچھ دن بعد ہمارا خاندان واں رادھا رام ( حبیب آباد )جا پہنچا ۔آج میری والدہ اور والد دونوں مٹی کی چادر اوڑھ کر قبروں میں سو رہے ہیں لیکن شاید ہی کوئی لمحہ ایسا جاتا ہوگا جب مجھے ان کی یاد نہ آتی ہوگی ۔رات کو جب میں سوتا ہوں تو خواب کی حالت میں اپنے والدین کے پاس پہنچ جاتا ہوں ۔ نیند سے بیدار ہوتا ہوں تو اپنے بیوی بچوں میں آجاتاہوں ۔کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ موت آئی تو مرجاؤں گا میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جاؤں گا ۔جہاں پہلے سے میری جان سے پیارے والدین موجود ہونگے ۔
 

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 802 Articles with 790603 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.