محکمہ سوئی گیس اور لیسکو اتھارٹی کو ہے کوئی پوچھنے والا؟

 ہمارے خاندان میں یہ روایت ہمیشہ سے چلی آرہی ہے ۔ عیدالفطر ہو یا عید الاضحی ۔صبح ہوتے ہی گھر میں پھینیاں یا کھیر پکائی جاتی ہے ۔ اس پر چند قرآنی آیات پڑھنے کے بعد تمام مرحومین اور عالم اسلام کی سربلندی اور آزادی کے لیے دعا کی جاتی ہے۔ جو ابھی زندہ وتابندہ ہیں ان کی صحت وسلامتی کی دعامانگنا ایک روٹین کی بات بن چکی ہے ۔اس کے بعد گھر کے سبھی افراد میٹھی شیرینی کھا کر نماز عید کے لیے مسجدوں کا رخ کرتے ہیں ۔ اس مرتبہ 7 جون کو چونکہ ذوالحج کا چاند نظر آگیا تھا اس لیے اسلامی روایات کے عید الاضحی 17جون 2024 ء بروز پیر کو ہوناقرار پائی تھی ۔ جیسے ہی سورج طلوع ہوا تو بیگم حسب معمول کچن میں پہنچی اور کچھ دیر بعد مایوس لوٹ آئی ۔ میں نے بیگم کے چہرے پر مایوسی دیکھ کر استفسار کیا تو نہایت بددلی سے اس نے کہا گیس نہیں آرہی ۔ میں نے کہاکچھ انتظار کرلیتے ہیں۔ ہوسکتا ہے محکمہ سوئی گیس والے گیس کا وال کھولنا بھول گئے ہوں ۔ایک جانب میٹھی کھیر اور پھنیوں کا انتظار تو دوسری جانب وقت تیزی سے گزرتا جا رہا تھا ۔چونکہ میٹھی کھیر ہمیشہ سے میری کمزوری رہی ہے ،اس لیے میں عید سے پہلے عید منانے کا شوقین ہوں ۔ میرے کہنے پر بیگم جتنی بار کچن میں بھی گئیں، اتنی ہی بار مایوس لوٹ آئیں ۔ ایک دو مرتبہ تو اس نے مجھے مایوسی سے بچانے کے لیے کہہ دیا ،ابھی گیس آتی ہی ہو گی ۔ دیوار پر لگے ہوئے وال کلاک پر نظر ڈالی تو ساڑھے پانچ کا وقت ہوچکا تھا ۔ چونکہ عید الاضحی کی نماز کا وقت چھ بجے مقرر تھا ،اس لیے میں وقت سے کچھ پہلے گھر سے نکلنا چاہتا تھا ،چونکہ ایک گھٹنے کے آپریشن کی وجہ سے میں کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھتا ہوں ۔حیرت کی بات تو یہ ہے کہ جو مسلمان کبھی نماز پڑھنے مسجد نہیں جاتے وہ عید اور بقرا عید کی صبح سب سے پہلے مسجدمیں پہنچ کر کرسیوں پر قبضہ کرلیتے ہیں ۔ جب تک باقاعدگی سے نمازپڑھنے والے مسجد پہنچتے ہیں تو وہاں تل دھرنے کو جگہ نہیں ملتی ۔ کئی مرتبہ تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ امام صاحب بھی ابھی مسجد میں نہیں پہنچتے کہ مسجد نمازیوں سے بھر چکی ہوتی ہے ۔ چنانچہ ایک طرف میٹھا کھائے بغیر گھر سے نکلنے کو دل نہیں چاہ رہا تھا تو دوسری جانب کرسی پر قبضے کا خوف میرے اعصاب پر سوار ہو رہا تھا ۔ اس لیے مجبوری کے عالم مجھے خالی پیٹ ہی مسجد جا نا پڑا اور امام مسجد قاری محمد ذیشان صاحب کی گفتگو فلسفہ قربانی کے بارے میں سننے لگا ۔عید الاضحی کی نماز ادا کرنے کے بعد امام صاحب نے خطبہ پڑھا اور دعا کے بعد سب لوگ ایک دوسرے کے بغلگیر ہونے لگے ۔ابھی دوستوں سے بغلگیر ہوہی رہا تھا کہ مسجد کے باہر میرا بیٹا بائیک پر بیٹھا میرا منتظر تھا ۔ جب میں گھر پہنچا تو یہ جان کر مزید پریشانی کا سامنا کرنا پڑا کہ گیس ابھی تک نہیں آئی اور چولہا ویرانی کی تصویر بنا ہوا ہمیں منہ چڑارہاہے ۔پیٹ میں بھوک کے مارے چوہے دوڈ رہے تھے ۔ اب کیا کیا جاسکتا ہے ۔ دونوں بیٹے خالی پیٹ پر المرکز اسلامی والٹن روڈ لاہورکینٹ کی قربان گاہ جا پہنچے ۔ جہاں قطار در قطار جانوروں کی قربانی ہورہی تھی ۔ قصائی اپنے فن کا شاندارمظاہرہ کررہا تھا ۔چونکہ ہمارا حصہ دوسرے جانور میں تھا، اس لیے صبح آٹھ بجے گوشت تیارہوکر ہمارے گھر پہنچ گیا ۔ بیگم نے ایک بار پھرکچن کا رخ کیا تو گیس کا دور دور تک نام و نشان نہ ملا ۔سخت غصہ آیا کہ عید کے دن بھی محکمہ سوئی گیس کی انتظامیہ کس قدر لاپرواہی اور غفلت کا مظاہرہ کر رہی ہے ۔ اس کے باوجود کہ عید کے دن فیکٹریاں اور کارخانے بھی بند ہوتے ہیں اور ان میں استعمال ہونے والی گیس عوام الناس کے لیے اضافی میسر ہو جاتی ہے ، پھر بار باردل میں خیال اٹھ رہا تھا کہ اس قدر لاپرواہی کا مظاہرہ کیوں کیارجا ہے ۔بھوک زوروں پر تھی ،پیٹ میں چوہے ناچ رہے تھے اورآنکھوں کے سامنے خالی پیٹ کی وجہ سے ستارے ٹمٹا رہے تھے ۔ میری زندگی کی یہ پہلی عید تھی کہ چار بجے سہ پہر تک کچھ کھائے بغیر گزار دیا۔پاکستان کے رہنے والوں کی یہ بدقسمتی ہے کہ کسی کو کچھ علم نہیں ہوتا کہ مشکل لمحات میں کس سے مدد مانگی جائے اور کون شکایت کاازالہ کرے گا ۔لاہور کے کینٹ ایریا میں ہماری یہ دسویں عید تھی ۔ ہمارا گھر والٹن روڈ اور ڈیفنس اتھارٹی کے درمیان واقع ہے اس لیے کبھی گیس کی قلت کا سامنا نہیں کرنا پڑا لیکن عید تہوار کے دن دانستہ گیس بند کرکے عوام کے صبر کا امتحان کیوں لیا جارہا تھا ۔میں نے اپنی بیگم کو کہا گیس کا سلنڈر ہی نکال کر اس پر کھانا تیار کرلیں ۔ بیگم نے یہ کہتے ہوئے میرے ارادوں پر اوس ڈال دی کہ عید کے دن گیس کی دوکانیں کہاں کھلی ہونگی۔ اس لیے اب سوائے صبر کے کوئی چارہ نہیں تھا۔ بیگم کے بقول یہ پاکستان ہے اورپاکستان میں ہر آسانی اور سہولت اشرفیہ اور حکمرانوں کے لیے ہے، عوام کو ہر جگہ مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ یہ میرے خاندان کی پہلی عید الاضحی تھی جس میں ہمیں سہ پہر چار بجے تک بھوکا رہنا پڑا ۔ہم نے مجبور ہو کر بازار سے کھانا منگوایا اور پیٹ بھرا ۔قربانی کا گوشت گھر میں موجود تھا لیکن گیس کی عدم فراہمی کی وجہ سے اس سے استفادہ نہ کیا جاسکا۔یہ بدنظمی اور لاپرواہی کی انتہا نہیں تو اور کیا ہے ؟۔ عید الاضحی سے دو دن پہلے ہفتے کی شام اچانک بجلی سوا چھ بجے بند ہو گئی ۔گرمی کی عروج پر تھی ، ہاتھ والے پنکھے سب نے اپنے اپنے ہاتھوں میں پکڑ کر اپنے اپنے جسم کو مصنوعی طریقے سے اس لیے ہوا دینے لگے کہ ایک گھنٹے بعد بجلی بحال ہوجائے گی ۔ پانچ منٹ کے بعد نظر گھڑی پر جمی ہوئی تھیں ، وقت اس قدر سست روی کا شکار ہو چکا تھا جیسے وہ اپنی رفتار ہی بھول گیا ہو ۔کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ انتظار کی گھڑیاں بہت لمبی ہوتی ہیں اور اگرزندگی میں کبھی کسی کا انتظار کرنا پڑجائے تو کلیجہ مونہہ کو آجاتاہے ۔ سوا سات بھی گزر گئے ۔سوچا ڈی ایچ اے ویسٹ کے ایس ڈی او آفس میں کال کرکے صورت حال کا پتہ چلاتے ہیں لیکن پی ٹی سی ایل کا جو نمبر ہمارے پاس موجود تھا، بار بار ڈائل کرنے کے باوجود وہاں سے کوئی شخص کال اٹنڈ نہیں کررہا تھا ۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے انہوں نے فون کا ریسور اٹھا کر ایک طرف رکھ دیا ہو ۔پھر سوچا کہ چلو لیسکو اتھارٹی کے چیف ایگزیکٹو سے بات کرکے بجلی کی واپسی کا پتہ کرتے ہیں ، بار بار کال کرنے کے باوجود لیسکو چیف نے فون سننا گوارا نہ کیا ۔ہمارے ایک دوست نذیر صاحب جن کالیسکو اتھارٹی سے ریٹائر ہوئے تھوڑا عرصہ ہی گزرا ہے ۔ سوچا کہ انہیں فون کرکے اصل صورت حال کا پتہ چلاتے ہیں کیونکہ وہ لوڈ شیڈنگ یا فالٹ کا گرڈ اسٹیشن سے پوچھ لیتے ہیں۔ جہاں سے بجلی آن اور آف کی جاتی ہے ۔بار بار کال کرنے کے باوجودد نذیر صاحب نے بھی فون سننا گوارا نہ کیا ۔ سخت ترین گرمی اور بدترین حبس میں ایک منٹ عذاب بنتا جارہا تھا رات کے ساڑھے دس بج چکے تھے ، یہ سوچ کر کلیجہ مونہہ کو آرہا تھا کہ اگر ساری رات بجلی نہ آئی تو کیا بنے گا ۔؟ بجلی کے بغیر رات کیسے کٹے گی ۔ ا ب سوائے اﷲ رب العزت دعا کے کوئی چارہ نہیں تھا ۔ساڑھے دس بجے دعائیں رنگ تو لے آئیں کیونکہ بجلی کا ایک فیس آگیا اور دوسرا فیس اب بھی بند تھا۔ لائٹس جل رہی تھیں لیکن پنکھے خاموش تھے۔پہلے تو یہی سمجھا ہمارے گھر کے بجلی کے سسٹم میں کچھ خرابی آگئی ہے جب موبائل پر الیکٹریشن سے رابطہ قائم کیا توپتہ چلا کہ ایسا سب کے ساتھ ہو رہا ہے ۔بہرکیف ہمارے ملک میں بجلی اور گیس سمیت پبلک ڈیلنگ کے جتنے محکمے ہیں سب شطر بے محار کی طرح چلتے ہیں ۔چونکہ وہ کسی کو جواب دہ نہیں ہیں اس لیے ان کا دماغ آسمانوں پر دکھائی دیتا ہے ۔

 

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 788 Articles with 695937 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.