چند روز قبل میں نے، آجڑی یعنی چرواہے کے متعلق ایک بلاگ
لکھا اور بتایا کہ، آجڑی ریوڑ کو کیسے قابو کرتا ہے؟ آجڑی جب صبح کے وقت
ریوڑ لے کر گھر سے باہر نکلتا ہے تو اُس کے ہاتھ میں ایک چھڑی ہوتی ہے، شام
کے وقت جب وہ ریوڑ لے کر گھر پہنچتا ہے تو ریوڑ کو باڑ لگے احاطے میں داخل
کر کے بند کر دیتا ہے. آجڑی کا صبح اور شام کا یہ عمل بتاتا ہے کہ ریاست
میں قانون کی کیا اہمیت اور حیثیت ہوتی ہے؟
انسان کے اوپر جب حیوانی نفسیات کا غلبہ ہو جائے تو انسان کی ہر سوچ اور
رویہ جرم بن جاتا ہے. اب اس سطح سے انسان جتنا گرتا چلا جائے گا، انسانیت
کے لئے اُتنا باعث شرم اور نقصان دہ ثابت ہوتا چلا جائے گا. پھر ایک ایسا
وقت آئے گا کہ حیوان بھی اس سے شرما جائیں گے. یہ معاملہ ایک انسان کے ساتھ
ہو تو وہ درندہ کہلاتا ہے، کسی گروہ کے ساتھ ہو تو وہ درندوں کا ریوڑ
کہلاتا ہے. پھر اس کے ساتھ ریاست کا وہی طرزِ عمل ہونا چاہیے جو آجڑی کا
ریوڑ کے ساتھ ہوتا ہے. یہ طرزِ عمل نہ صرف اُس کے اپنے لیے کارآمد ثابت
ہوتا ہے بلکہ دوسری مخلوقات بھی اُس سے محفوظ ہوتی ہیں. ان پڑھ اور جاہل
آجڑی کو یہ بات سمجھ آ گئ ہے کہ ریوڑ کے ساتھ کس طرح ڈیل کرنا ہے؟ معلوم
نہیں سات دہائیوں میں ہماری ریاست کو یہ بات کیوں نہیں سمجھ آ رہی؟
دو روز قبل بھی سوات میں درندوں کے ایک ریوڑ نے توہین کا الزام لگا کر ایک
شخص کو بےدردی سے قتل کر دیا. اطلاعات کے مطابق پہلے اُس شخص کو پولیس نے
گرفتار کر کے تھانے میں بند کر دیا تھا لیکن پھر ریوڑ نے تھانے پر حملہ کر
دیا، فائرنگ کا تبادلہ ہوا. آگ لگائ گئ، اُس شخص کو تھانے سے باہر لایا گیا،
فائرنگ کر کے قتل کیا گیا اور پھر لاش جلا دی گئی.
پولیس سٹیشن وہ جگہ ہوتی ہے جہاں ریاست کے بے بس اور مظلوم شہری سکون محسوس
کرتے ہیں، اپنے آپ کو محفوظ سمجھتے ہیں. ہمارے ہاں اُلٹ نظام ہے. ہمارے ہاں
مظلوم اور بے بس شہری پولیس سٹیشن سے خوفزدہ ہوتے ہیں، درندے اور اُن کے
ریوڑ نہیں،پھر چاہے وہ کوئی بھی ہوں، پولیس سٹیشن میں وہی کچھ ہوتا ہے جو
وہ چاہتے ہیں.
ایک سوال جو ہر ایسے سانحے کے بعد اُٹھتا ہے لیکن شاید ہر بار نظر انداز کر
دیا جاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ اِن حیوانی نفسیات کا غلبہ آخر کیوں ہو چکا ہے؟
پہلے اس سوال کا جواب تلاش کرتے ہیں اور پھر اس کا حل بھی تلاش کرنے کی
کوشش کرتے ہیں.
پہلا سوال کہ حیوانی نفسیات کا غلبہ کیوں ہو چکا ہے؟ جواب مُلک کے سیاسی،
معاشی اور معاشرتی مسائل ہیں. جواب، مُلک کے اندر طبقاتی نظام ہے. جواب،
ریاست کا عام آدمی کے ساتھ سوتیلا سلوک ہے. اِن مسائل نے، اس طبقاتی نظام
نے، اس بدمعاشیہ نے، اس سوتیلے سلوک نے شہریوں کو ذہنی مریض بنا دیا ہے.
اِن کے اندر لاوا پک رہا ہے. آسان الفاظ میں کہوں تو کہیں کا غصہ کہیں اور
نکل رہا ہے.
اب دوسرے سوال کی طرف آئیے، کہ حل کیا ہے؟ بہت سے دانشور اس سوال کا جواب
تعلیم کی کمی، دیتے ہیں. عرض یہ ہے کہ ایسے جو بھی سانحات ہوتے ہیں، جن میں
حیوان بھی شرما جائیں، اُن میں آپ کو یونیورسٹیوں سے بھی فارغ التحصیل اعلیٰ
تعلیم یافتہ انسان نما درندے مل جاتے ہیں اور مدرسوں کے بھی تعلیم یافتہ
درندے شامل ہوتے ہیں. اب اگر تعلیم کی کمی ہے تو ان درندوں کو پکڑ کر ایک
پی ایچ ڈی اور کروا دیں، یا ایک مرتبہ پھر درس نظامی کروا دیں.
نہیں!!! قانون کی سخت باڑ لگا دو! تعلیم درندوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی. جو
ریاست کے شہری ہونے کے ناطے ان کے حقوق ہیں وہ انہیں احسن طریقے سے دو،
تاکہ یہ انسانیت کے مقام پر ہی رہیں. یہاں سے گریں نہیں. پھر مضبوط قانون
بناؤ جو بلا تفریق لاگو ہو. پھر جو بھی جرم کرے اسے قانون کے مطابق سزا دو.
|