کیا سرفراز کو کپتانی و کرکٹ سے سیاسی بنیاد پر ہٹایا گیا تھا؟

آج پاکستان کی کرکٹ کا جو حال ہے وہی ہماری سیاست اور ہمارے حکمرانوں کا ہے. سوچنے اور سمجھنے کی بات یہ ہی ہے کہ جب ہمارا ملک ترقی کی طرف گامزن ہوتا ہے تو ایک خود ساختہ بحران پیدا کرکے کو میدان میں لاکر چھوڑ دیا جاتا ہے. جو اپنی کارگردگی تو کیا دیکھا پائیگی بلکہ وہ تو سابق حکمرانوں کی کارگردگی کو بھی زمین اپنے دور حکومت میں زمین بوس کردیتی ہے . یہ تقریبا 76 سال سے یہی کچھ ہورہا یہ تو اب بچہ بچہ کو پتہ چل گیا کہ یہ کیوں ہوتا ہے .

اگر سیاست سے ہٹ کر دیکھو تو یہی حال ہماریے کھیل کے میدان میں ہاکی اور اسکواش کے ساتھ ہوا نئے نئے تجربے کرکے ان دونوں کھیلوں کو عرش سے جب تک فرش پر نہ لے آئے کرتا دہرتاؤں کو چین نہیں آیا پھر بھی لوگوں نے اپنے دلوں پر پتھر رکھ کے ان کھیلوں سے آخر کار دور ہی ہوتے چلے گئے .

اس کے بعد ایک ہمارا کھیل کرکٹ ہی بچا تھا. جس سے پاکستانی عوام دیرینہ لگاؤ رکھتی ہے . اور اس کرکٹ نے ہی کئی دفعہ ملک میں سیاسی یا معاشی مسائل میں پریشان قوم کو جو یا انتہائی دل گرفتہ ہوں اس کرکٹ نے ہی کئی دفعہ کھیل کے میدان میں پاکستانی جیت پر عوام کو متحد و ان کے چہروں پر خوشی و مسکراہٹ قائم رکھی اور عوام اپنی سب تکالیف بھول گئے چاہے غریب و امیر سب کو کرکٹ کھیل نے باندھ کے رکھا ہوا تھا. مگر آخر اس کھیل کو بھی کئی مرتبہ سیاست کے بھینٹ چھڑانے کی کوشش تو مُتواتر ہوتی رہیں مگر اس دفعہ تو حد کردی . جس کی حکومت آئی اس نے اپنا اثرورسوخ قائم کرنے کے لیے ایسے متنازعہ فیصلے کیے جس کا پاکستانی کرکٹ پر کچھ سال بعد ایسا برا اثر پڑا کے ہر پاکستان اپنی کرکٹ کا حال دیکھ کر اندر ہی اندر کُڑتا رہا ، کہ ایک غلط فیصلے نے پاکستانی کرکٹ کو کہاں سے کہاں پہنچادیا کرکٹ ہو یا سیاست اس میں صیح وقت پر صیح فیصلے ہوں تو زمین سے آسمان پر اور اگر تُکبرانہ فیصلہ ہو تو آسمان سے زمین پر پہنچ جاتا ہے.

جیسے ڈکٹیٹر ایوب اور بھٹو نے اپنے دور حکمرانی میں پاکستان کی اردو بولنے والے بہترین میرٹ ہر کام کرنے والی بیروکریسی کو جنبش قلم نکال باہر کیا ان کی جگہ نااہل لوگوں کو ان کی جگہ پر لایا گیا. اور آخر اس ہی کا نتیجہ آج تک پاکستان اور عوام بھگت رہی ہے. ہونا تو یہی چاہیے تھا کے اتنے اہم ادارے میں ان حکمرانوں نے ان بہترین بیروکریسی سے نئے ٹیلنٹیڈ نوجوانوں کو ان کے حوالے کیا جاتا اور ایک بہترین بیروکریسی کے افراد تیار کیے جاتے مگر حُکمرانوں نے اپنے اپنے لوگوں کو میرٹ کے بغیر نااہل لوگوں کے لیے مُلک کی ریڑھ کی ہڈی بیروکریسی جیسے اہم اداروں کا دروازہ ان نااہل افرادوں کے لیے کھول دیا اس کے بعد جو بندر بانٹ کا لگی جس کا نتیجہ آج تک ملک اور عوام بھگت رہی ہے. اور آج تک بیروکریسی نہ سنبھلی اور نہ ہی آنے والے دنوں میں سنبھل پائیگی.

یہی حال ہماری کرکٹ کا رہا ہے کہ اب سابق کپتان مصباح الحق نے کہا کہ میرے پاس کپتان ( سرفراز ) کو فارغ کرنے یا مقرر کرنے کا اُس وقت کوئی اختیار ہی نہیں تھا بلکہ ایسا صرف کرکٹ بورڈ کے چیئرمین ہی کرسکتے ہیں اور انہوں نے ہی حتمی فیصلہ کیا تھا، یہ درست ہے کہ اس حوالے سے ہماری رائے معلوم کی گئی تھی جوعوام کو بتانے کی نہیں ہے۔

چیئرمین پی سی بی احسان مانی کا اُس وقت اپنے بیانیہ میں ان کا کہنا تھا کہ سرفراز احمد کو قیادت سے ہٹانا مشکل فیصلہ تھا، سرفراز احمد نے بطور کھلاڑی اور کپتان عمدہ کارکردگی دکھائی تاہم ان کی حالیہ کارکردگی اوراعتماد میں کمی کے باعث یہ فیصلہ ٹیم کی بہتری کیلئے کیا گیا ہے۔

جبکہ کراچی کے کوٹہ پر آنے والے قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان شاہد آفریدی نے سرفراز احمد کو قیادت سے ہٹاکر اظہر علی کو کپتان بنانے کے فیصلے کو درست کہہ کر کراچی کے لوگوں کو حیران و پریشان کردیا تھا جبکہ بابر اعظم کو ٹی ٹوئنٹی کپتان بنانے کے فیصلے کو نامناسب قرار دے دیا تھا ۔ یہ وہ کراچی کے شاہد آفریدی کے الفاظ جیسے کراچی کے نوجوانوں سر آنکھوں پر بٹھایا جبکہ شاہد آفریدی کا سرفراز احمد کو ٹیم کی قیادت سے ہٹائے جانے پر یہ بھی کہنا تھا کہ ضروری نہیں کہ کوئی ساری زندگی کپتان بن کر ہی کھیلے۔

جبکہ قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان سرفراز احمد کا کہنا تھا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کے سابق چیف ایگزیکٹو وسیم خان نے انہیں کپتانی سے ہٹانے کا پیغام دیا تھا اور کہا تھا کہ اگر خود کپتانی سے نہیں ہٹے تو ہٹا دیئے جائیں گے۔

پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان سرفراز احمد نے آئی سی سی کے دو کپ اپنی قیادت میں پاکستان کو جتوائے ہیں۔

سرفراز احمد نے 2006 میں پاکستان کی جونیئر ٹیم کی قیادت کرتے ہوئے گرین شرٹس کو آئی سی سی انڈر 19 کا ورلڈ کپ جتوا کر ٹرافی اٹھائی۔ اس اہم معرکے میں مدمقابل بھارت تھا۔

دوسری بار 2017 کی آئی سی سی چیمپئن ٹرافی میں پاکستان کو اپنی قیادت میں سرخرو کراکے پہلی بار چیمپئن بننے کا اعزاز پایا۔ اس بار بھی مدمقابل روایتی حریف بھارت ہی تھا۔ یوں ایک کپتان کی قیادت میں دو آئی سی سی ٹرافیاں جیتنا پاکستان کے لیے ایک ریکارڈ کی حیثیت رکھتا ہے۔

سرفراز احمد نے آخری مرتبہ 2019 میں آسٹریلیا کے خلاف ٹیسٹ سیریز میں پاکستان کی نمائندگی کی تھی لیکن اس کے بعد ان کے ستارے کچھ گردش میں رہے انہیں ناصرف کپتانی سے ہاتھ دھونا پڑا بلکہ انہیں ٹیم سے بھی باہر کر دیا گیا۔

ڈومیسٹک کرکٹ میں مسلسل شاندار کارکردگی دکھانے کے بعد وکٹ کیپر بیٹر حال ہی میں آسٹریلیا اور انگلینڈ کے خلاف ہونے والی ہوم سیزیر میں بھی قومی ٹیم کے ساتھ بینچ میں شامل رہے لیکن انہیں پلیئنگ الیون میں موقع نہ مل سکا۔

کسی بھی کرکٹر کے لیے اتنے طویل عرصے بعد قومی ٹیم میں واپسی آسان نہیں ہوتی اور کارکردگی کا بہت دباؤ ہوتا ہے، خاص طور پر اس صورت میں جب آپ کو پتہ ہو کہ آپ کے پیچھے رضوان اور محمد حارث سمیت وکٹ کیپر بیٹرز کی لائن لگی ہوئی ہے لیکن جب سرفراز احمد کو نیوزی لینڈ کے خلاف کراچی میں کھیلے گئے پہلے ٹیسٹ میں شامل کیا گیا تو انہوں نے پہلی ہی اننگز میں ففٹی بنا کر اپنی واپسی کو درست ثابت کیا، اس ففٹی نے وکٹ کیپر کا اعتماد بھی بحال کیا۔

دوسرے ٹیسٹ کی پہلی اننگز میں بھی سرفراز احمد 78 رنز بنا کر تھرڈ امپار کے ایک متنازع اسٹمپڈ کا شکار بن گئے لیکن بہرحال یہ سب کھیل کا حصہ ہے اور امپائر کا فیصلہ حتمی ہوتا ہے اس لیے سرفراز کو وکٹ چھورٹا پڑی۔

فیصلہ کن ٹیسٹ کی دوسری اننگز میں 319 رنز کے ہدف کے تعاقب میں جب پاکستان کی آدھی ٹیم صرف 80 رنز پر پویلین لوٹی تو ایسا لگا کہ پاکستان ناصرف ٹیسٹ بلکہ سیریز سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے گا لیکن 5 وکٹیں جلد گرنے کے بعد سرفراز احمد اور سعود شکیل نے ایک بار پھر ذمہ دارانہ بیٹنگ کرتے ہوئے 123 رنز جوڑ کر قومی ٹیم کو مشکلات سے نکالا۔ اور سینچری بھی اپنی مکمل کی جو سرفراز کو ٹیم سے باہر کرنے والے تھے اُنہیں سرفراز نے اپنی کارگردگی سے اُن سب کہ منہہ توڑ جواب دیا..

پاکستان اور نیوزی لینڈ کے درمیان ہونے والا ٹیسٹ تو ڈرا ہوگیا لیکن سرفراز احمد کے شاندار کم بیک سے ایک بات تو ثابت ہوتی ہے کہ اگر دوسروں پر کیچڑ اچھالنے کے بجائے کسی چیز کے لیے محنت، لگن اور جستجو جاری رکھی جائے تو دنیا کی کوئی طاقت آپ کو اس چیز سے دور نہیں کر سکتی۔

دیکھا جائے اگر سرفراز کو ہٹانا تھا تو اس کے ساتھ جونیر کھلاڑی کو نائب کے طور پر اس کے ساتھ رکھتے ایک دو سال کے لیے تو وہ ایسے ٹیسٹ کرکٹ ، ون ڈے اور T-20 کی کپتانی کے نشیب و فراز کو سرفراز کے ساتھ رہے کر بہت کچھ سیکھتا اور آج وہی جونیر کھلاڑی اپنے ٹیلنٹیڈ کو میدان میں استعمال کرتا تو آج پاکستان کرکٹ اتنی دنیا بھر میں رسوا و شرمسار ہونے سے بچ پاتی.

مگر ہمارے مُلک میں سیاست اور کھیلوں سے اور خاص کر کرکٹ سے یہی کچھ متواتر ہورہا ہے. جس کا خمیازہ پاکستان کرکٹ اور حکمران اپنے اپنے میدان میں رسواء اور شرمندہ ہورہے ہیں. سمجھ میں نہیں آتا کیوں نہیں ہمارے ملک میں میرٹ کو اس قابل نہیں سمجھا جاتا اس وجہ سے پاکستان کا ذہین نوجوان سمندر پار جارہا ہے کیا آئندہ دس پندرہ سال میں اگر اس طرح کی پوزیشن ہی رہی اہل افراد کو دیوار سے لگایا جاتا رہا اور نااہل لوگ ان کی جگہ پر بُراجمان رہے تو پاکستان کا حال کہیں ہر میدان میں روانڈا، ایتھوپیا، صومالیہ وغیرہ کی لائین میں نہ لگا ہو. اب بھی وقت ہے اس ملک میں ہر میدان میں میرٹ کو عام کرؤ اس ہی میں ملک اور عوام کی کامیابی و بھلائی ہے
 

انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ
About the Author: انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ Read More Articles by انجئنیر! شاہد صدیق خانزادہ: 415 Articles with 228247 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.