سپورٹس ڈائریکٹریٹ ، ڈیپوٹیشن ، سیاسی مداری

اب جبکہ تحریک انصاف کی حکومت آئی ہے توصوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے حصے میں مشیر ہی آیا ہے مشیر اتنا ایکٹیو ہے کہ اس نے صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں ڈیرا تو جما دیا ہے تاکہ وہ سسٹم کو ٹھیک کرسکے لیکن مشیر ٹھہرے سیاسی بندے ، انہیں ایسے دھوبی پٹکے دئیے جارہے ہیں کہ انہیں بھی سمجھ نہیں آرہی ان کے دور میں بھی ایسے ایسے کارنامے ہورہے ہیں جو کہ بتانے کے قابل بھی نہیں

خیبر پختونخواہ سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں تعیناتی کیلئے میرٹ کیا ہے اس بارے میں پی ٹی آئی کے سابقہ حکومت جس میں قلمدان وزیراعلی محمود خان کے پاس تھا اتنا ہی تھا کہ ان کے بال کاٹنے والے ہیئر کٹر کو صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں سیکورٹی پر تعینات کیا گیا موصوف کا تعلق لاہور سے تھااور اس ہیئر کٹر کا اتنا نشہ تھا کہ ڈیوٹی تو نہیں کرتا البتہ سارا دن باکسنگ ہال کے باہر کرسی پر بیٹھ چوکیداری کے نام پر موبائل میں سارا دن مصروف رہتا ، پتہ نہیں اس کے موبائل میں کیا ہوتا جب بھی اس کی طرف جانے کا اتفاق ہوتا تو موبائل میں مصروف عمل نظر آتے ، جب اس بارے میں انہی صفحات پر خبر رپورٹ کی تو"جی سرکار"کرنے والی انتظامیہ نے ہوشیاری دکھاتے ہوئے موصوف کی ڈیوٹی دوسرے سائیڈ پر لگا دی اور پھر وہ غائب ہوگئے ، یہ توبعد میں پتہ چلا کہ موصوف کو تنخواہیں ملتی رہی اور وہ ڈیوٹی کرنے سے قاصر تھا کہ اسے ڈر تھا کہ کہیں دوبارہ خبر شائع نہ ہو جائے ،خیر یہ پی ٹی آئی کی سابقہ حکومت میں وزارت کھیل کا ایک واقعہ ہے ،

اپنوںکو نوازنے کے عمل میں اگر ممبران اسمبلی نے ہاتھ دھوئے ہیں توڈائریکٹریٹ میں آنیوالے "وڈے افسران"بھی کم نہیں تھے انہی کے دورمیںایک معذور شخص کوایک بیورو کریٹ نے جواس کی اہلیہ کی طرف سے رشتہ دار تھا، چونکہ بیوروکریٹ جتنابھی باہر بدمعاش ہو ، گھر پر بھیگی بلی بنا رہتا ہے اس لئے اس معذور رشتہ دار کو لائف گارڈ کی آسامی پر تعینات کیا ، حالانکہ وہ خود معذور تھا اور کسی کی زندگی کیسے بچاسکتا نہ تواسے تیرنا آتا تھا خیر وہ بھی مستقل ہوگیا ، اوراب آہستہ آہستہ ترقی کے منازل کرتے کرتے اوپر جارہاہے .بھرتیوں کے اس عمل میں بیورو کریٹ کے ساتھ "سب نے مل بیٹھ کر "ہاتھ دھوئے ہیں ، بس موقع ملنے کی دیر ہے کسی بیوروکریٹ نے اپنی خوشامد کرنے والے کوچ کو سرکاری سامان اورزمین مفت میں دیدی تاکہ اس کی دکانداری چلتے رہے اوریہ سلسلہ تاحال جاری ہے.

تحریک انصاف کی حکومت جانے کے بعد جب نگران حکومت آئی تو نگران سیٹ اپ میں آنیوالے سیاسی و بیورو کریٹ نے اتنی انت مچا دی کہ کمپلیکسز کیلئے خریدی گئی جگہیں کینسل کروا دی ، ٹھیک ٹھاک کمیشن اورپلاٹ لئے لیکن کسی نے پوچھا تک نہیں ، کیونکہ سب کو پتہ ہے کہ "گول مال "ہے اور انٹی کرپشن کی انکوائریاں بھی غائب ہوگئی ، کیونکہ جب سر پر ہاتھ ہو تو پھر ایک بیورو کریٹ کی کرپشن کو جسے بیوروکریٹک زبان میںغلطی کہا جاتا ہے دوسرابیوروکریٹ چھپاتا ہے کہ کل کلاں اس نے بھی اس طرح کی غلطی کرنی ہوتی ہے اورغلطیوںکو چھپانے کیلئے انہی تربیت بھی دی جاتی ہیں.اوراب حال یہ ہے کہ اگر کوئی ان غلطیوں پربات کرنے کی کوشش کرے یا معلومات تک رسائی قانون کے تحت معلوما ت حاصل کرنا چاہے تو درخواستیں التواءکا شکار کردی جاتی ہیں ، کم و بیش پینتیس درخواستیں اس طرح سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں پڑی ہوئی ہیں اور رائٹ ٹو انفارمیشن کمیشن بھی اس معاملے میں سرکاری ادارہ بن چکاہے.اوراگر انٹرنل طور پر کسی ذمہ دار شخص سے پوچھا جائے تو گریڈ اٹھارہ کے ایک اہلکار کا تحریری جواب ملتا ہے کہ "میں کسی کو جوابدہ نہیں " اور یہ تحریری جواب بھی ادارے کے سربراہ کوملتا ہے اورایسے اہلکار کی جانب سے جو ڈیپوٹیشن پر سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں آیا ہو ، یعنی "ہم اپنی مرضی کریں گے کوئی لاکھ پوچھے"

اب جبکہ تحریک انصاف کی حکومت آئی ہے توصوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے حصے میں مشیر ہی آیا ہے مشیر اتنا ایکٹیو ہے کہ اس نے صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں ڈیرا تو جما دیا ہے تاکہ وہ سسٹم کو ٹھیک کرسکے لیکن مشیر ٹھہرے سیاسی بندے ، انہیں ایسے دھوبی پٹکے دئیے جارہے ہیں کہ انہیں بھی سمجھ نہیں آرہی ان کے دور میں بھی ایسے ایسے کارنامے ہورہے ہیں جو کہ بتانے کے قابل بھی نہیں ، کسی بھی سرکاری ڈیپارٹمنٹ میں ڈیپوٹیشن پر جانے کیلئے ایک مخصوص پالیسی ہے لیکن یہ پالیسی سیاسی افراد سمیت بیورو کریٹ کیلئے کوئی معنی نہیں رکھتی ،اس طرح ڈیپوٹیشن پر آنیوالے افراد کے ماضی کا ریکارڈ بھی دیکھا جانا چاہئیے کہ موصوف نے اس سے قبل کونسے ادارے میں کتنے "کارنامے"کیئے ہیں لیکن اس بارے میں نہ توکوئی بات کرتا ہے اورنہ ہی کوئی پوچھتاہے جہاں پر" تعلق اورریفرنس پرسب کچھ ملتاہو "ایسے میںقوانین "وڑ جاتے ہیں"

صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے کم و بیش ایک درجن کے قریب اعلی عہدوںپر تعینات افسران نہ صرف اپنے لئے دفاتر کے حصول کیلئے خوار ہورہے ہیں بلکہ ان کیلئے آسامیاں بھی نہیں جبکہ حال ہی میں محکمہ تعلیم سے صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے کوچز کو ٹریننگ دینے کیلئے " اف سران"کوٹریننگ کے نام پر ڈیپوٹیشن کیلئے لایا جارہا ہے اب کوئی ان سے پوچھے کہ کھیلوں کی وزارت میں آپکی سپیشلٹی کیا ہے تو جواب ملتا ہے کہ" خیر خیریت" لیکن چونکہ بیک اپ میں بیورو کریٹک چینل موجود ہوتا ہے اس لئے ایسے ایسے افراد بھی سپورٹس ڈائریکٹریٹ میں لائے جارہے ہیں جنہیں شائد اپنے گھر والے "نمک کی خریداری کیلئے " بھی گھر سے باہر نہ بھیجیں. یہ لوگ کھیلوں سے وابستہ کوچز کو کس چز کی ٹریننگ دینگے یہ وہ اہم سوال ہے جو کہ کرنے کا کا ہے ، لیکن کرے گا کون.

دوسرے اس ڈیپارٹمنٹ میں ترقی کیلئے کوئی معیار نہیں ، آپ جتنے بھی قابل ہو ، محنتی ہو اس کی کوئی حیثیت نہیں ہاں اگر کوئی پالش کرنے سمیت جوتے اٹھانے کی صلاحیت رکھتا ہے تو وہ قابل ہے یا پھر اس کا تعلق اتنا مضبوط ہونا چاہئیے کہ وہ گھوڑوں پر بیٹھ کر "ریس "کرسکے تو پھر ترقی ہی ترقیاں ہیں ، ویسے اس ڈیپارٹمنٹ میں بیٹھے افراد یہ سوال بھی نہیں کرتے کہ جن کو ترقیاںدی جارہی ہیں کبھی ان کے پرسنل فائل بھی دیکھ لیا کریں کہ"کو ن کتنی مرتبہ اور کس بنیاد پر" معطل ہوا ، اور ایسے میں صاحبان کو ترقیاں ملتی رہے تو پھر کھیل کے شعبے میں کھیلوں کیساتھ ساتھ "کھلاڑی بھی "وڑ جاتے ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا.
#kikxnow #digitalcreator #sportsnews #mojo #mojosports #kpk #kpsorts #kpk #pakistan #games #merit
Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 619 Articles with 475277 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More