گلی میں شور سا سنائی دیا۔ بالکنی میں جا کر دیکھا کہ
ماجرا کیا ہے۔ معلوم پڑا کہ ہمارا مرغا نا معلوم فرط جذبات سے مغلوب ہو کر
نیچے چھلانگ مار چکا ہے۔ اور لڑکوں بالوں کی دوڑیں گلی میں لگوا رہا ہے۔ اس
سے پہلے کہ ہم نیچے جاتے اور مرغ شریف کو گردن سے پکڑ کر اوپر لاتے۔ ایک
لڑکا مرغے کو پکڑ کر لے آیا اور اس تنبیہہ کے ساتھ ہمارے سپرد کیا کہ
مستقبل میں اس کی حرکات و سکنات پر کڑی نظر رکھی جائے گی، چونکہ یہ کٹخنا
بھی ہوتا جا رہا ہے۔ مزید یہ کہ پڑوس میں ایک خوب صورت مرغے اور مرغی کا پر
امن کنبہ بھی رہائش پذیر ہے۔ اور اس کنبے کا سربراہ اور مالک دونوں آپ کے
مرغے کی حرکتوں اور دلچسپیوں سے نالاں ہیں۔
مرغے کی تنہائی دور کرنے کی ہم نے ہی ٹھانی۔ جب تک چوزہ تھا، تو بھتیجا اس
کے ناز نخرے اٹھا لیتا تھا۔ لیکن اب ایک کٹخنے مرغے کے ناز و نخرے اٹھانا،
اس کے بس سے باہر تھا۔ اب جب کہ اس کی دلچسپیوں اور جذبات سے کسی قدر آگاہی
ہو گئی تھی۔ دفع شر کے لیے مناسب یہی سمجھا کہ ایک دو عدد مرغیاں مرغے صاحب
کے دڑبے کی رونق بڑھانے کے لیے لے آئی جائیں۔ ایک عدد خوب صورت مرغی دڑبے
کی زینت بنا دی گئی۔ جب بھی وقت ملتا، بالکنی میں جا کھڑے ہوتے اور یہ
جاننے کی کوشش کرتے کہ مرغے صاحب میں کوئی تبدیلی بھی آئی کہ نہیں۔ سب سے
بڑی تبدیلی تو یہ آئی کہ مرغے صاحب نے بے وقت بلند بانگ بانگیں دینے کا
سلسلہ موقوف کر دیا۔ اور اپنے کام سے کام رکھنے میں مصروف ہو گئے۔ نئے جوڑے
کو اپنائیت کا احساس دلانے کے لیے بالکنی میں جانے کا سلسلہ جاری رکھا۔ دو
چار دن بعد احساس ہوا، کہ سامنے کونے والے کی مکان کی اندرونی گلی میں
موجود مونکھے سے کوئی مسلسل دیکھتا ہے اور کبھی کبھار ہاتھ سے اشارے بھی
کرتا ہے۔
بازار جانے کے لیے اسی گھر کی اندرونی گلی سے گزر کر جانا ہوتا تھا۔ تجسس
تو قائم ہو چکا تھا، کہ کسی طرح اس نا معلوم شخصیت کا پتا چلے۔ ایک دوپہر
بازار جاتے ہوئے، وہ شخصیت نظر آ گئی۔ اس نے مسکرا کر دیکھا اور نسوانی
آواز میں کہا: ' سنیں ' سنیں کی آواز کا کانوں میں پڑنا تھا۔ ہمارے قدم تیز
ہو گئے۔ بازار سے واپسی پر دوسرا راستہ اختیار کیا۔ تاکہ اب ایسی صورت حال
کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
اب تو یہ معمول ہو گیا، کہ جب بھی بالکنی میں کھڑے ہوتے یا بازار جاتے تو
اشاروں اور مسکراہٹوں کا سامنا کرنا پڑتا۔ سمجھ یہی آیا کہ نسوانیت زدہ اس
لڑکے کو گھر والوں نے ایک طرح سے قید کر رکھا ہے۔ نہ گلی محلے میں نکلنے
اور نہ کسی سے ملنے کی اس مجبور کو اجازت ہے۔ دل ہی دل میں کڑھتا تھا، اور
اپنے آپ کو بے بس پاتا تھا۔ چونکہ اس گھر کے دروازے کھڑکیاں ہمیشہ بند رہتے
اور نہ گھر کے افراد محلے میں نظر آتے۔ بس وہی دروازے کے قریب واقع مونکھے
سے جھانکتا اور اس کوشش میں مصروف نظر آتا کہ کوئی اس سے بھی بات کرے۔
ہمیشہ مجھ کو یہ اندیشہ لاحق رہا کہ اگر لڑکے کے گھر یا محلے والوں نے مجھے
لڑکے سے بات چیت کرتے دیکھ لیا، تو نہ جانے میرے بارے کیا تاثر قائم کریں۔
ایک دن اس کی کوشش کامیاب ہوئی۔ ہم بالکنی میں کھڑے تھے، کہ دیکھا بھری
دوپہر وہ زنانہ لباس میں ملبوس اپنی جیسی ایک شخصیت سے ہنسی خوشی باتیں کر
رہا ہے۔ گھر، محلے اور بطور پڑوسی ہم سب اس کے دکھ درد اور جذبات کو نہ
سمجھ سکے۔ سمجھا تو کون جو اس کے جیسا تھا۔ دونوں کو ہنسی خوشی بات چیت میں
مصروف دیکھ کر اس کی طرف سے جو دل پر بوجھ تھا اور اس کی دل جوئی نہ کرنے
کا جو احساس جرم تھا، کسی حد تک کم ہوا۔ احساس جرم یہی تھا، کہ مرغے کی
تنہائی تو دور کر دی گئی اور ایک جیتا جاگتا انسان جو قید و تنہائی کا شکار
ہے۔ اس کی قید و تنہائی دور کرنے سے اپنے آپ کو بے بس اور مجبور پایا۔ |