ڈاکٹر عقیل عباس جعفری کے اعزاز میں تقریب اعترافِ کمال

ڈاکٹر عقیل عباس جعفری کے اعزاز میں تقریب اعترافِ کمال
(زیر اہتمام سخن پارے خاندان، بمقام شاہ محی الحق فاروقی اکیڈمی، گلشن معمار، کراچی28جون 2024ء)
صدارتی خطاب
٭
ڈاکٹر رئیس صمدانی
پروفیسر ایمریٹس۔ منہاج یونیورسٹی، لاہور
سخن پارے خاندان کے ذمہ داران، سلیم فاروقی صاحب، مہ جبیں آصف صاحبہ، منیر پٹھان صاحب
آج کی تقریبِ اعتراف کمال کے دولھا ڈاکٹر عقیل عباس جعفری صاحب، پاکستان سے باہر مختلف ممالک سے زوم پر ہمارے ساتھ جڑے ادیبوں اور شاعرو، خواتین و حضرات
ڈاکٹر عقیل عباس جعفری کے اعزاز میں منعقد تقریب کمال کے انعقاد پر منتظمین کو دل کی اتھا گہرایوں سے مبارک باد۔ حسین اور یادگار جگہ شاہ محی الحق فاروقی اکیڈمی، گلشن معمار میں اردو ادب کی اہم شخصیت کے حوالے سے خوبصورت تقریب میں شرکت میرے لیے بڑا اعزاز ہے۔ ممنون ہوں کہ کراچی کی ادبی تنظیم سخن پارے خاندان کا کہ انہوں نے مجھے آج کی اس خوبصورت تقریب کی صدارت کا اعزاز بخشا۔ آج کی تقریب کئی اعتبار سے منفرد اور مختلف ہے۔ ایک تو یہ کہ ادبی تقریبات میں شاعری کی محفلوں کے انعقاد کا رواج عام ہے اور وہ زیادہ ہوا کرتی ہیں اور موجودہ دور میں بھی ان کا زیادہ رواج دکھائی دیتا ہے۔ یہ بھی ایک قابل تعریف عمل ہے۔ ادبی شخصیات کے حوالے سے تقریبات کا اہتمام کم کم ہوتا ہے۔اس کی جو وجہ میری سمجھ میں آتی ہے وہ یہ کہ شاعری کی محفل میں شعراحضرات مختصر الفاظ اور جملوں میں کبھی ترنم سے کبھی خوش الحانی سے محفل کواپنے اشعار یا غزلوں یا نظموں سے مَحظُوط کرتے ہیں اور سامعین بھی ان سے بھر پور لطف اٹھاتے ہیں۔ نثر کی محفل یاادبی شخصیات کے اعزاز میں محفل سنجیدگی، توجہ، فہمیدگی، متانت اور مہذب ماحول کا تقاضہ کرتی ہے۔ مجھے آج اس محفل میں یہی کچھ دیکھ کر بے حد خوشی ہوئی ہے۔کراچی شہر سے دور اس مقام پر سخت گرمی اور گھٹن کے ماحول میں ادب کے چاہنے والے اس تقریب میں کھچے چلے آئے ہیں۔
اردو ادب کی جانی پہچانی شخصیت ڈاکٹر عقیل عباس جعفری صاحب کو سرکار نے ”تمغہ امتیاز“ سے سرفراز کیا، آج کی یہ تقریب کمالِ اعتراف جعفری صاحب کے اعزاز میں منعقد کی گئی ہے جس کے لیے منتظمین قابل تحسین ہیں۔ سب سے پہلے تو میں ملک کے سیاسی وڈیروں کی جانب سے جعفری صاحب کو یہ اعزاز عطا ہونے پر مبارک باد، خوشی ہوئی کہ سرکار نے درست فیصلہ کیا اور حق دار کو اس کا حق دیا جس کے لیے سرکار بھی قابل ستائش ہے۔ میں نے حکمرانوں کے لیے جو اصطلاح ”سیاسی وڈیروں“ کی استعمال کی ہے اس کے موجد جناب ڈاکٹر عقیل عباس جعفری صاحب ہی ہیں۔ سچ بات تو یہ ہے کہ ڈاکٹر عقیل عباس جعفری اپنی اِسی کتاب کے بعد لکھاریوں کے بیچ معروف ہوئے حالانکہ وہ اس سے قبل بھی لکھ رہے تھے۔ مشورہ ہے کہ وہ موجودہ دور کے حکمراں وڈیروں کے بارے میں یہ غلطی ہر گز نہ کریں، اس لیے کہ ایک شاعر کا انجام اور طریقہ وارداد ہم سب کے سامنے ہے۔
جعفری صاحب سے ادبی تقریبات میں قربت ہوئی۔ یاد پڑتا ہے کہ جب وہ اردو ڈکشنری بورڈ کے سربراہ تھے اس وقت میں بورڈ کی جانب سے شائع ہونے والی لغت پر کچھ لکھ رہا تھا، اس کے لیے ڈکشنری بورڈ کے آفس جانا ہوا تھا وہ ان سے میری پہلی ملاقات تھی۔ وہ ایک نفیس انسان ہیں، پیشہ کے اعتبار سے انجینئر، معلومات کا خزانہ اور یاد داشت بھی خوب ہے۔ معلومات سے یاد آیا کہ ڈاکٹر صاحب نے معلومات عامہ یعنی جنرل نالج سے ادبی سفر کی ابتدا کی، کئی کتابیں مرتب کیں۔ اس سفر نے انہیں تحقیق سے وابستہ کردیا، تحقیق ایک ایسا ہنر ہے جو انسان کو علم و ادب کی دنیا کے سمندر میں ادبی ہیرے اور موتی تلاش کرنے میں زندگی وقف کردیتا ہے۔ اسی تحقیق نے ڈاکٹر عقیل جعفری کو ایک کے بعد ایک کتاب لکھنے،ساتھ ہی تعلیم کی اعلیٰ ڈگری یعنی پی ایچ ڈی کے حصول کی جانب مائل کیا، انہوں نے اپنی اس خواہش کی تکمیل اس وقت کی جب عام طور پر لوگ زندگی کے معاملات سے فارغ ہو کر آرام و آسائش کی دنیا میں قدم رکھتے ہیں۔ میں تو اس خوش فہمی میں تھا کہ مجھے 60سال کی عمر میں پی ایچ ڈی کرنے کا اعزاز حاصل ہوا لیکن جعفری صاحب کو 2022ء میں یہ اعزاز ملا گویا وہ مجھ سے پانچ سال بڑی عمر میں یہ اعزاز حاصل کیا۔اس عمل کے پیچھے تحقیق، جستجواور محنتِ شاقہ ہے۔ تحقیقی مقالہ کا لکھنا مخصوص ہنر، جہد مسلسل اور محنت کاتقاضہ کرتا ہے۔ انسان اگر کسی بھی عمل کو کرنے کا مسمم ارادہ کر لے تووہ کام مشکل نہیں رہتا۔ ابھی رعنا خالد محمود جو بنیادی طور پر بنکرہیں انہیں پی ایچ ڈی کی ڈگری تفویض ہوئی۔ جعفری صاحب بنیادی طور پر محنت، مشقت، لگن سے کام کرنے کے عادی ہیں، اللہ پاک نے انہیں اسی عمل کا صلاعطا فرمایا۔
ڈاکٹر عقیل عباس جعفری تین برس اردو لغت بورڈ کے سربراہ رہے۔ اس سے قبل وہ سریڈیو اور ٹیلی ویژن سے بھی وبستہ رہے۔ان کا ایک اہم کارنامہ ”پاکستاان کرونیکل“ ہے ۔ یہ کتاب ان کی محنت و مشقت اور بیس سال کی جہد مسلسل کا ثمر ہے۔ یہ حوالہ جاتی تصنیف بنیادی طور پر سامنے آنے والی معلومات جس میں سیاسی، صحافتی، سقافتی، فنون لطیفہ صنعت و حرفت اور کھیلوں کے ساتھ ساتھ اہم اور یاد گار واقعات، معروف کتب،رسائل و اخبارات سے اقتباسات، معروف علمی، ادبی، سیاسی شخصیات کے بارے میں بنیادی معلومات درج ہیں۔ ڈاکٹر عقیل عباس جعفری کی تصانیف و تالیفات جو تعداد میں دو درجن سے زائد ہیں کا مختصر وقت میں احاطہ ممکن نہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس محقق نے جو تحقیق کی اب جامعات میں ایم فل اور پی ایچ ڈی کی سطح پر تحقیق کی جائے تاکہ ڈاکٹر عقیل عباس جعفری کی تحقیق کے مختلف پہلو سامنے آسکیں۔ ڈاکٹر عقیل عباس جعفری کا قلم جس قدر خوبصورت الفاظ اور جملے قرطاس پر منتقل کرتا ہے، ان کی گفتگو بھی اتنی ہی سریلی ہوتی ہے۔ان کی تحریر میں کسی قسم کا الجھاو، پیچیدگی، گھمبیر قسم کی باتیں نہیں، الفاظ عام بول چال والے، سادہ جلے، انداز بیان سلیس اور سادہ ہے۔ کسی شاعر نے خوب کہا ؎
لہجہ کہ جیسے صبح کی خوشبو اذان دے
جی چاہتا ہے میں تری آواز چوم لوں
ڈاکٹر عقیل عباس جعفری نثر نگار ہونے کے ساتھ ایک اچھے شاعر بھی ہیں۔ ان کا شعری مجموعہ ”تعلق“ منظر عام پر آچکا ہے۔ ڈاکٹررخسانہ صبا نے درست کہا کہ عقیل عباس جعفری کی شاعری محبت کی شاعری ہے اور عقیل کی پہلی تحقیق و تالیف ہے‘۔آخر میں ڈاکٹر عقیل عباس جعفری کے ایک شعر پر اپنی بات ختم کرتا ہوں۔
زندہ رہنا عجب ہنر ہے عقیل
یہ ہنر عمر بھر نہیں آتا
(28جون2024 ء)
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 857 Articles with 1329646 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More