ظریفانہ :کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ؟

للن نے کلن سے پوچھا یار یہ ہندوجا کون ہے؟
کلن نے کہا وہ بڑا امیر کبیر خاندان ہے ۔ تم اس کے چکر میں نہ پڑو تو بہتر ہے۔
ارے بھیا چکر میں کون پڑ رہا ہے؟ میں تو معلومات کے لیے پوچھ رہا تھا ۔ تمہیں پتہ ہوتو بتاو ورنہ جانے دو۔
اوہو ناراض کیوں ہوتے ہو ۔ یہ ایک سندھی سرمایہ دار خاندان ہے ۔ پہلے یہ لوگ ایران گئے اور پھر انقلاب کے بعد برطانیہ منتقل ہوگئے۔
تب تو ان کے پاس دھن دولت کی کوئی کمی نہیں ہوگی؟
کیسی باتیں کرتے ہو للن ، ہندوجا برادران میں سب سے بڑا بھائی گوپی چند ہندوجا کو برطانیہ کا امیر ترین فرد ہونے کا شرف حاصل ہے ۔
اچھا !لیکن پھر بھی ان لوگوں کے پاس کتنا پیسہ ہوگا ؟
بھائی فوربس نامی ادارے کے مطابق ہندوجا خاندان 160؍ہزار کروڈ روپیوں کا مالک ہے۔
یار اس میں کتنے صفر ہوتے ہیں؟
یہ تو سمبت پترا کو بھی نہیں معلوم اور اس سے یہ سوال کرنے والے گورو ولبھ بھی فی الحال اس کے ہم آغوش ہو گئے ہیں۔
بھائی مجھے گوپی چند میں کوئی دلچسپی نہیں یہ بتاو کہ میڈیا میں گونجنے والا یہ پرکاش ہندوجا کون ہے؟
وہ گوپی چند سے چھوٹا ہے۔ اس سے چھوٹے سری چند کا حال میں انتقال ہوگیا ۔
لیکن پرکاش ہندوجا کی خبریں تو لندن کے بجائے جینوا سے آر ہی ہیں ۔
ہاں تو بھائی وہ سنہ 2000 میں سوئزرلینڈ منتقل ہوگیا بلکہ وہاں کی شہریت لے لی ۔
یار میں نے سوئس بنک میں کالا دھن بھیجنے کی بات سنی تھی لیکن ان لوگوں نے تو اپنے کالے بھائی کو وہاں منتقل کر دیا۔
کیا بات کرتے ہو للن ! گوگل پر تصویر میں تو پرکاش گورا چٹاّ نظر آتا ہے ۔
آتا ہوگا ۔ ویسے کالے دھن کا رنگ تھوڑی نا سیاہ ہوتا ہے ، میں تو پرکاش کے اپنے ملازمین کے ساتھ کالے کرتوت کی بات کررہا تھا ۔
اوہو للن ان کے پاس دو لاکھ لوگ کام کرتے ہیں۔ اب کسی نہ کسی کو ان سے شکایت تو ہوگی نا بھیا؟
یہ معمولی شکایت نہیں ہے ۔ پرکاش سمیت اس کی بیوی بیٹے اور بہو کو سوئس عدالت نے ساڑھے چار سال تک قید کی سزا سنادی ہے۔
اچھا یہ تو بہت غلط ہوا ۔ ان بیچاروں سے ایسی کون سی غلطی ہوگئی؟
بھائی کلن میں نے تو پڑھا ہے کہ ان کو گھریلو ملازمین کا استحصال کرنے پر سزا سنائی گئی۔
یار اتنے امیر کبیر لوگ اپنے نجی ملازمین کا استحصال کریں یہ ناممکن ہے۔ اس میں ضرور ملک کو بدنام کرنے کی کوئی بڑی سازش ہوگی؟
نہیں بھیا ،پرکاش نے دوسری بار یہ حرکت کی ہے 2007میں بھی اس پر یہ الزام لگ چکا ہے مگر اس نے کوئی سبق نہیں سیکھا ۔
اسی لیے تو میں کہہ رہا ہوں کہ بغض و حسد کے مارے انگریز ہمارے پردھان جی اور ملک کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں ۔
دیکھو کلن ہر بات میں سازش کی تلاش کرنے کے بجائے حقیقت تو معلوم کرو ۔
اس کی ضرورت نہیں ۔ مجھے سب پتہ ہے مگرفکر نہ کروپردھان جی اپنے وکیل تشار مہتا کو بھیج کر پرکاش کو بچا لیں گے ۔
ارے بھیا پرکاش کے پاس اتنی دھن دولت ہے کہ وہ دنیا کا سب سے بڑا وکیل کرسکتا ہے اور ویسے بھی وہ ہندوستانی شہری نہیں ہے ۔
نہیں ہے تو کیا ہوا؟ ہندوجا تو ہے ۔ اپنی پارٹی کو چندہ تو دیتا ہی ہوگا اس لیے اس کی مدد کرنا ہم پر فرض ہے۔
اچھا اور جن ملازمین کو وہ استحصال کررہا تھا ان کی مدد کون کرے گا؟ وہ تو ہندوستانی شہری ہیں ۔
ارے بھیا ان کی حمایت ہم کیسے کرسکتے ہیں جو دشمنوں کی سازش میں ملوث ہوگیا ؟ ان پر تو یو اے پی اے کے تحت مقدمہ درج کرنا چاہیے۔
کیا بکواس کررہے ہو للن ؟ویسے ہی ارون دھتی رائے پر یواے پی اے سے ہونے والی بدنامی کیا کم ہے کہ تم یہ صلاح دے رہے ہو؟
اچھا یہ بتاو ان ملازمین کے ساتھ کیا کردیا بیچارے پرکاش ہندوجا، ان کی اہلیہ کمل بیٹے اجے اور بہو نمرتا نے جو آسمان سر پر اٹھالیا گیا؟
ارے بھائی کیا نہیں کیا؟ اول تو ان کو غیر قانونی طور پر لے گئے یعنی ضروری سرکاری کارروائی نہیں کی؟
اچھا یہ بتاو کہ اپنے گھر میں ملازم رکھنے سے قبل تم نے کون کون سی کاغذی کارروائی کی؟ یہ تو ایک نجی معاملہ ہے۔
اوہو میں نے کسی غیر ملکی کو تھوڑی نا ملازم رکھا ؟ تم کسی چینی یا بنگلا دیشی کو ملازم رکھ کر دیکھو تو پتہ چلے گاکہ کیا کیا کرنا پڑتا ہے۔
ہاں یار یہ بات تو ہے مگر پھر بھی اس بیروزگاری کے زمانے میں کسی کو پردیس میں ملازمت کا مل جانا سعادت ہے یا زحمت ہے؟
دونوں ہے؟ اگر اضافی آمدنی ہو تو سعادت ورنہ زحمت ؟
اچھا تو کیا انہیں وہاں جانے کے بعد بھی ہندوستانی تنخواہ ملتی تھی ؟
جی ہاں۔ ان کی تنخواہ ہندوستانی روپیہ میں بھارت کے اندربنک کھاتے میں جمع کی جاتی تھی ۔
یہ تو اچھا ہے بنک جاکر منتقل کرنے کی ضرورت نہیں ۔
وہ تو ہے مگر وہ رقم سوئزرلینڈ قانون کے مطابق دی جانے والی شرح سے دس گنا کم ہوتی تھی اس لیے اسے قانون شکنی قرار دیا گیا ۔
یار کم ازکم تنخواہ تو ہمارے یہاں بھی کم ہی لوگ دیتے ہیں۔ ہندوستانی شہری اس کا عادی ہے اس لیے شور شرابے کی کیا ضرورت ؟
بھیا ایسا ہے کہ ہم لوگ ظلم کرنے اور سہنے کے عادی ہوگئے ہیں اس لیے اپنے یہاں سب چلتا ہے مگر جینیوا میں ایسا نہیں ہے۔
اچھا تو کیا وہاں پر ملازمین کو سر پر بٹھایا جاتا ہے؟
جی نہیں مگر جوتوں میں بھی نہیں بٹھایا جاتا ۔ وہاں کسی ملازم سے اٹھارہ گھنٹے کام نہیں لے سکتے ۔ یہ غیر قانونی ہے۔
ارے بھیا ہمارے پردھان جی خود یہ غیر قانونی کام کرکے اس پر فخر جتاتے ہیں ۔ نارائن مورتی بھی بارہ گھنٹے کام کرنے کی سفارش کرتے ہیں۔
یہ تو استحصال کو خوشنما بنانے کی سازش ہے۔ معاشی کے علاوہ معاشرتی اور سماجی ذمہ داریاں بھی ہیں ۔کیا اس کے وقت پر اہل خانہ کا حق نہیں ہے۔
ارے بھیا ہندوجا کے وکیل کہنا ہے کہ وہ اپنے ملازمین کو خاندان کا فرد ہی سمجھتے ہیں ۔
ان کے سمجھنے سے کیا ہوتا ہے؟ کیا ملازمین بھی ایسا سمجھتے ہیں؟
وہ نہیں سمجھتے تو یہ ملازمین کی غلطی ہے۔
اچھا اگر کسی سے 18گھنٹے کام لینے کے بعد تہہ خانےمیں چٹائی پر سلاکر دس گنا کم تنخواہ دی جائے تو کیا وہ خود کو مالک کےخاندان کا فرد سمجھے گا؟
یار اگر اتنی خراب حالت تھی تو وہ لوگ وہاں گئے کیوں ؟اور چلے ہی گئے تھے تو رکے کیوں؟ ؟
بیروزگاری اورمجبوری ان کو پردیس لے گئی ۔ ہندوجا نے ان سے پاسپورٹ چھین لیا ۔ وہ بیچارے واپس بھی نہیں آسکتے تھے۔
یار یہ تو بندھوا مزدوری والی بات ہے۔خدا نہ کرے کسی پر ایسا وقت آئے۔
جی ہاں انسان اگر یہ دیکھے کہ اس سے زیادہ خیال کتوں کا رکھا جارہا ہے تو وہ خود کو کس قدر ذلیل ورسوا محسوس کرے گا؟
اچھا ! یہ تمہیں کیسے پتہ چل گیا کہ ان کے ساتھ کتوں سے بھی برا سلوک ہورہا تھا؟
مقدمہ کے دوران وکیل نے کتوں کے خرچ کی تفصیل پیش کرکے اس کا ملازمین کی تنخواہ سے موازنہ کردیا ۔ اس طرح یہ حقیقت سامنے آگئی۔
یہ تو بہت بری بات ہے یہ بتاو کہ پرکاش ہندوجا اور اس کی بیوی کملا جیل گئے یا نہیں ؟
وکیلوں کے مطابق مؤکلین کی صحت بہت خراب ہے۔ وہ کافی ضعیف ہیں اورکمل ہندوجا انتہائی نگہداشت میں ہیں۔
یار یہ تو ہمارے یہاں بھی ہوتا ہے کہ گرفتاری سے قبل امیر کبیر لوگ بیمار ہوکر اسپتال میں داخل ہوجاتے ہیں ۔
ہاں تو بھائی سوئزرلینڈ کو قدرتی مناظر کے سبب جنت کہا جاتا ہے ورنہ وہ بھی تو دنیا کا ایک حصہ ہے جہاں جبر و ناانصافی کم سہی مگر موجود تو ہے۔
اچھا یار یہ بتاو کہ کیا ہمارے ملک میں یہ ممکن ہے کہ کوئی عدالت کسی بڑے سرمایہ دار کے خلاف ایسا فیصلہ سنا دے ؟
مشکل ہے ۔ کیونکہ ہمارے سرمایہ داروں کو سرکاری تحفظ حاصل ہے ۔ اس لیے وہ عدلیہ کو بھی متاثر کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں ۔
سمجھ گیا اسی لیے اڈانی کو کلین چٹ مل جاتی ہے مگر سرکار اور سرمایہ دار کا یہ ناجائز رشتہ کیا کہلاتا ہے؟
کلن نے جواب دیا اس کو ’کرونی کیپٹلزم ‘ کہتے ہیں یعنی اقربا پرور بددیانت سرمایہ داری ۔
للن نے قہقہہ لگا کر پوچھا یارکیا کہیں دیانتدار سرمایہ داری بھی ہوتی ہے؟ یہ سنگ مرمر کا پتھر والی بات ہوگئی۔
جی ہاں یہ بات درست ہے مگر جب سرمایہ داری کو سیاسی سرپرستی حاصل ہوجائے تو وہ کریلا نیم چڑھا ہوجاتا ہے ۔
بھیا سرکار کا تو کام ہی سرپرستی کرنا ہے اور وہ سرمایہ دار و مزدور میں تفریق نہیں کرسکتی ۔ اس کو تو سب کے ساتھ برابری کا سلوک کرنا پڑے گا ۔
جی ہاں یہ بات تو ہے مگر پھر بھی مزدوروں کا خاص خیال کرنا پڑے گا ۔
یہ خاص و و عام کی تفریق کیوں ؟ کیا یہ عدل و انصاف کے خلاف نہیں ہے؟؟
جی نہیں امیر کبیر تو دولت کے زور پر اپنا خیال رکھ لیتا ہےمگر جو غریب و محتاج اس سے قاصر ہو اس کو سرکاری حمایت کی ضرورت پڑتی ہے۔
اچھا مگر غریبوں اور محتاجوں کو حمایت کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے؟
اس لیے سرمایہ دار ان کا استحصال کرتے ہیں جیسا کہ ہندوجا خاندان کا پرکاش کررہا تھا۔
میری سمجھ میں نہیں آتا کہ سرمایہ دار ان کا استحصال کیوں کرتے ہیں؟
استحصال اس لیے کیا جاتا ہے کیونکہ سرمایہ دار خودکو اپنے مال کا مالک سمجھتے ہیں جبکہ وہ ایک امانتدار ہیں
لیکن ایسا سمجھنے سے کیا فرق پڑتا ہے ؟ اور اس سے یہ مسئلہ کیسے حل ہوگا ؟
خود کو امین سمجھنے والا جب رازق کی مرضی کے مطابق دولت کا استعمال کرے گا تو اس کی ناراضی کے ڈر سے کسی کی حق تلفی نہیں کرے گا۔
ہاں بھیا مجھے لگتا ہے کہ اس عقیدے کو مان لینے پر استحصال ختم نہ سہی تو کم ضرور ہوگا لیکن یہ کب ہوگا؟
بھیا یہ تو علامہ اقبال بھی نہیں جانتے اس لیے انہوں نے آرزو کی تھی :کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ؟ ہیں تلخ بہت بندۂ مزدور کے اوقات
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2082 Articles with 1296041 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.