امیر ملت حضرت سید جماعت علی شاہ محدث علی پوری ؒ

آپ ؒ نے حقیقی معنوں میں مسلمانوں کی رہنمائی فرمائی
آپ ؒ نے قادیانیت کے پودے کو جڑ پکڑنے سے پہلے ہی اکھاڑ پھینکا
آپ ؒ کا شمار قائداعظم محمد علی جنا ح ؒ کے بہترین اور مخلص دوستوں میں ہوتا ہے۔
مفکر پاکستان علامہ محمد اقبال ؒ بھی آپؒ کے عقیدت مندوں میں شامل تھے۔

مغل شہنشاہ جلال الدین اکبر کا عہد حکومت تھا۔ ایران کے شہر شیراز کے ایک بزرگ سید محمد حنیف ہندوستان میں تشریف لا کر علی پور سیداں میں رہائش پذیر ہوئے۔ موصوف کے زہد وتقوے کے پیش نظر سرکار نے ان کو ایک جاگیر کا مالک ومختار بنا دیا۔ سید خاندان کی چوتھی پشت میں خاندان کے سربراہ سید کریم شاہ تھے جن کے ہاں 1845ء کوایک بچے نے جنم لیا ،جسے برصغیر پاک وہند میں ’’امیر ملت‘‘ کے لقب سے پکارا جاتا تھا۔ یہ بچہ اﷲ والوں کے دستور حیات کے عین مطابق دیگر بچوں سے یکسر مختلف ومنفرد تھا۔ یہ زمانہ ہندی مسلمانوں کے لئے آزمائش سے کم نہ تھا۔ سلطنت مغلیہ کے چراغ کی لو مدہم پڑ چکی تھی۔ اورنگزیب کو سفر آخرت اختیار کئے ایک سو اڑتیس برس گزر چکے تھے۔ جب امیر ملت نے آنکھ کھولی۔ اس دور میں عربی‘ فارسی کو اہم مقام حاصل تھا ۔ عربی فارسی کی ابتدائی تعلیم کے لئے امیر ملت نے حضرت میاں عبدالرشید ؒ کے آگے زانوئے تلمذ طے کیا۔ سات سال کی عمر میں قرآن پاک حفظ کرنے کے بعد مروجہ علوم کی تکمیل کے لئے مولانا عبدالوہاب امرتسری کے در پر دستک دی ۔ لاہور میں شہید ’’انڈیمان‘‘ علامہ فضل حق خیرآبادی کے شاگرد مولانا غلام قادر بصیروی اور مولانا فیض الحسن سہارنپوری نے بساط علم بچھا رکھی تھی۔ چنانچہ علمی کشش نے امیر ملتؒ کو لاہور کا رخ کرنے پر مجبور کر دیا۔ چنانچہ مولوی عالم اور مولوی فاضل کے نصاب کی تکمیل اسی درسگاہ سے ہوئی۔ آپؒ کی علم کی تشنگی بجھنے کا نام نہیں لے رہی تھی لہٰذا آپ نے پروفیسر محمد عبداﷲ ٹونکی سے استفادہ حاصل کیا۔ علوم ظاہری یعنی عقلیہ اور نقلیہ میں مہارت نامہ حاصل کرنے کا سوال پیدا ہوا تو آپ نے تین درسگاہوں سے فیض حاصل کیا۔ سرفہرست مولانا محمد مظہر سہارنپوری کا مدرسہ مظہر یہ تھا۔ دوسری ہستی ناظم دارالعلوم ندوہ (اعظم گڑھ) مولانا محمد علیؒ کی تھی جس کاا نتخاب ہوا۔

چنانچہ آپ ؒ امیر ملت شاہ فضل الرحمن گنج مراد آبادی کی خدمت میں تشریف لے گئے۔ شاہ صاحب موصوف ’’قال‘‘ کے ساتھ ساتھ ’’بحرحال‘‘ کے بھی شناور تھے۔ ادھر شدت طلب کی انتہا نہ تھی تو ادھر شاہ صاحب کی ’’عطا‘‘ کی بھی حد نہ رہی۔ عطا سے زیادہ عطا کا انداز دیدنی تھا۔ دیکھنے سننے والے اس وقت حیرت کے سمندر میں ڈوب گئے۔ جب شاہ صاحب نے اپنے سر سے دستار مبارک اتار کر آپ ؒ کے سر پر رکھ دی۔ پھر ایک گلاس سے پانی کا گھونٹ بھرا اور باقی گلاس آپ ؒ کو پیش کر دیا۔ درس وتدریس کا یہ انداز رسم زمانہ کے مطابق ہرگز ہرگز نہیں تھا تاہم ایک عام سی فراست کا حامل انسان بھی اندازہ لگا سکتا ہے کہ شاہ فضل الرحمن صاحب نے گاڑی کا رخ بدلنے کا پائیدار بندوبست کردیا اور واضح اشارہ کر دیا کہ علوم ظاہری کی تکمیل تو ہو گئی اب سالک علوم باطنی کے حصول کا اعزاز حاصل کرے۔

حضرت بابا فقیر محمد چوراہیؒ کا آستانہ بلند مرتبے کا حامل تھا اور خود بابا صاحب سراپا انتظار تھے چنانچہ جب جماعت علی شاہ ؒ ان کی خدمت میں حاضر ہوئے تو مرشد نے زبان حال سے پکار کر کہا:جدائی کی آگ نے سینے میں دھڑکنے والے دل کو جلا کر کباب بنا دیا ہے اور انتہائے شوق نے نقد جاں کو سپرد عذاب کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ’’لین دین‘‘ کا یہ سفر زیادہ طویل نہ تھا‘ سارے معاملات برق رفتاری سے طے ہوچکے۔ اتنی برق رفتاری سے کہ جب بابا فقیر محمدؒ نے آپ ؒ کو خلافت سے نوازا تو ان کے مرید ان وفا کیش اعتراض کرنے سے باز نہ رہ سکے۔ ہر مرید کی گفتگو کا خلاصہ یہ تھا کہ ’’ہم طویل عرصے سے محو انتظار اور خدمت گزار ہیں اور جماعت علی شاہ صا حب ؒ آتے ہی سب کچھ لے گئے۔‘‘

خدمت گزاروں کا یہ اعتراض نیا نہیں تھا البتہ بابا فقیر محمدؒ کا جواب انوکھا ضرور تھا۔ انہوں نے حقیقت بیانی سے کام لیتے ہوئے فرمایا ’’جماعت علی شاہ ؒ کے پاس خوبصورت چراغ تھا جس میں تیل کی وافر مقدار بھی تھی اور بتی بھی۔ ہم نے صرف دیا سلائی سے چراغ روشن کیا ہے۔ اب یہ چراغ خلق خدا کو روشنی فراہم کرے گا۔‘‘

پیر ومرشد کی دعا دربار خداوندی میں قبول ہوئی جس کے نتیجے میں برصغیر پاک وہند امیر ملت ؒ کی خوشبو سے مہکنے لگا۔ پشاور سے راس کماری اور کشمیر سے مدارس تک پیر جماعت علی شاہ ؒ کے عقیدت مندوں کا سلسلہ پھیلتا چلا گیا۔ پھر وہ وقت بھی آیا کہ کابل‘ برما‘ سعودی عرب اور دیگر ممالک کی خلق خدا بھی امیر ملت ؒ کا دم بھرنے لگی۔ نادر شاہ والیٔ افغانستان‘ میر عثمان علی خان نظام حیدرآباد دکن اور آغا خلیل کنجی برادر دربار مآب تک آپ ؒ کے عقیدت مندوں میں شامل ہوگئے۔ دیگر ریاستوں کے حکمرانوں کی عقیدت کو دیکھ کر ہی علامہ اقبالؒ نے فرمایا تھا:دربار د رویش اگر سچائی کا علمبردار ہو تو حکمران برہنہ پا‘ اس دربار میں حاضری دینے کو اعزاز سمجھتے ہیں۔ جلال الدین اکبر جیسا منتشر ذہن کا مالک شہنشاہ‘ سلیم چشتیؒ کے دربار میں کیسے حاضر ہوا؟ شاہجہان‘ دربار میاں پیر بالا پیر کے آستانے پر کس طرح حاضری دیا کرتا تھا۔بابا فقیر محمدؒ سے خرقہ خلافت حاصل کرنے کے بعد امیر ملت نے ’’اول خویش بعد درویش‘‘ پر عمل پیرا ہوتے ہوئے علی پور کی ایک مسجد کو مرکز تبلیغ بنایا پھر یہ تبلیغی سفر طویل سے طویل تر ہوتا چلا گیا۔ چنانچہ پشاور‘ کلکتہ‘ بمبئی‘ میسور‘ حیدرآباد کن‘ دہلی‘ بھوپال‘ کشمیر اور کابل کے دورے بھی ہوئے اور خلق خدا کو سیدھا راستہ دکھایا گیا۔

امیر ملت کی زندگی کا روشن ترین پہلو ’’حب رسول ﷺ‘‘ کو قرار دیا جاتا ہے کیونکہ یہ محبت ہی فیض رسانی کا سرچشمہ ہوتی ہے۔ یہ محبت نہ تو ساری زندگی کی حقیقت ’’کاروبار‘‘ سے زیادہ نہیں ہوتی اور کاروبار میں ہر انسان اپنی ذات کو ترجیح دینے پر مجبور ہوا کرتا ہے۔ جب صرف ’’لینا‘‘ ہی زندگی کا مقصد بن جائے تو آخروی ناکامی پر مہر لگ جاتی ہے۔ سرکار مدینہ ﷺ سے امیر ملت کی محبت کا یہ عالم تھا کہ آپ ﷺ کا نام سنتے ہی فصیل جاں کی کیفیت بدل جایا کرتی تھی۔ آنکھیں پرنم ہو جاتیں‘ دل تیزی سے دھڑکنے لگتا اور چہرے کا رنگ متغیر ہو جاتا۔

امیر ملت ؒ ہر سال حج کی سعادت حاصل کیا کرتے تھے۔ آپؒ اس حقیقت سے آشنا تھے کہ خانہ کعبہ میں ہر نماز کا ثواب مسجد نبویؐ میں ادا کی جانے والی نماز سے دوگنا ہوتا ہے مگر عشق رسول ﷺکا تقاضا تھا کہ ثواب کے معاملے میں بھی خسارے کا سودا قبول کر لیا جائے۔ چنانچہ امیر ملت ؒ اپنا زیادہ وقت مدینہ شریف میں روضہ رسول ﷺ کے قریب گزارتے۔ عجیب بات یہ تھی کہ مدینے کے چرند پرند اور دیگر حیوانات تک سے آپ ؒ کی شفقت ومحبت دیدنی ہوا کرتی تھی۔ اس سرزمین کے باشندوں کی مالی امداد کا یہ عالم ہوا کہ لوگ امیر ملت ؒ کو ’’ابو العرب‘‘ کہنے لگے۔

انسان کی خوبی یہ ہے کہ مخالفین بھی اس کا اعتراف کرنے پر مجبور ہو جائیں۔ مولانا حسین احمد مدنی (صدر جمعیت علمائے ہند) کا شمار امیر ملت ؒ کے مخالفین میں ہوا کرتا تھا۔ تاریخی حقیقت یہ ہے کہ مولانا موصوف نے کھلے لفظوں اعلان کیا کہ عشق رسول ﷺ میں امیر ملت ؒ کے مقام کو کوئی نہیں پہنچ سکتا۔ ’’یہی حال سید عطاء اﷲ شاہ بخاری صاحب کا تھا۔ سیاسی مخالفت کے باوجود وہ عشق رسول ﷺ کے سلسلے میں امیر ملت ؒ کی مثال دیا کرتے تھے۔ مشہور ومعروف اہل حدیث ہستی سید محمود غزنوی نے ایک چشم دید واقعہ بیان کیا جس کا خلاصہ ہے کہ ایک بار کسی غلط قسم کے نوجوان نے مسجد نبویؐ کے قریب ایک کتے کو زخمی کر دیا۔ امیر ملت ؒ یہ دیکھ کر تڑپ اٹھے۔ اپنی دستار فضیلت پھاڑ کر کتے کی مرہم پٹی کرنے لگے اور ساتھ ساتھ یہ بھی کہتے جا رہے تھے ’’ظالم کو یہ خیال بھی نہ آیا کہ کتا مدینے شریف کا ہے‘‘ مرہم پٹی کے علاوہ کتے کے کھانے کا اہتمام بھی کیا۔محبت کا تقاضا یہ بھی ہے کہ محبوب کا ذکر کثرت سے سنایا اور سنا جائے چنانچہ امیر ملت ؒ کی محفل میں نعت خوانی بکثرت ہوا کرتی تھی۔ ایک بار ابو الاثر حفیظ جالندھری نے مدینے کے پس منظر میں تڑپا دینے والا نعتیہ شعر پڑھا:امیر ملت کی حالت غیر ہو گئی۔ اپنی گرم واسکٹ اتار کر شاعر کی خدمت میں پیش کر دی۔ واسکٹ میں اچھی خاصی رقم بھی تھی جسے گننے کا تردد بھی نہ کیا گیا کیونکہ یاری میں ناپ تول کا نظام ہی رائج نہیں ہوتا۔حکیم الامت علامہ محمداقبالؒ کو امیر ملت ؒسے گہری عقیدت تھی۔ ایک بار امیر ملت کی صدارت میں انجمن حمایت اسلام کا جلسہ ہو رہا تھا۔ جلسہ گاہ میں بیٹھنے کی جگہ نہیں تھی۔ علامہ اقبالؒ ذرا دیر سے آئے اور امیر ملتؒ کے قدموں میں بیٹھ کر کہا ’’اولیاء اﷲ کے قدموں میں جگہ پانا بڑے فخر کی بات ہے۔‘‘ یہ سن کر امیر ملتؒ نے فرمایا ’’جن کے قدموں میں ’’اقبال‘‘ آ جائے اس کے فخر کا کیا کہنا۔‘‘

علامہ اقبالؒ کے آخری ایام کا ذکر ہے۔ ایک محفل میں امیر ملتؒ نے کہا ’’اقبال! آپ کا ایک شعر ہمیں بے حد پسند ہے۔‘‘ پھر یہ شعر پڑھا:علامہ اقبال ؒ کی خوشی دیدنی تھی چنانچہ آپ ؒ نے کہا ’’ولی عہد کی زبان سے ادا ہونے والا میرا یہ شعر میری نجات کے لئے کافی ہے۔‘‘

1922-23ء کا زمانہ ہندی مسلمانوں کے لئے کڑی آزمائش سے کم نہ تھا۔ تحریک خلافت کے سلسلے میں مولانا محمد علی جوہر کو 2برس کے لئے پابند سلاسل کردیا گیا۔ 1923ء میں سوامی شردھانند نے ہندوستان میں ’’شدھی‘‘ تحریک کا آغاز کیا۔ ادھر پنڈٹ مدن موہن مالویہ نے سنکھٹن جیسی باعث آزار تحریک شروع کر رکھی تھی۔ شدھی کا مقصد دھونس دھاندلی، دھکے شاہی غرض ہر قسم کی تحریک وترغیب سے مسلمانوں کو ’’ہندو‘‘ بنانا تھا اور مدن موہن مالویہ کی ’’سنکھٹن‘‘ اس سے بھی خطرناک تھی۔ اس کا مقصد تھا کہ ہندو اپنے اختلافات ختم کر کے ایک ہو جائیں اور سارے ہندوستان کو مسلمانوں کے وجود سے ’’پاک‘‘ کر دیں۔ امیر ملت ؒ جیسا فعال اور ملت کا دردمند انسان ان حالات میں خاموش کیسے رہ سکتا تھا؟ وہ کوئی ایسے صوفی نہ تھے جو گوشہ تنہائی میں بیٹھ کر وظائف سے اپنے باطن کی صفائی میں مصروف رہتے اور ’’بوقت قیام‘‘ سجدے میں سرگرا کر اپنی بخشش کی دعا مانگتے رہیں۔ چنانچہ امیر ملت ؒ لنگر لنگوٹ کس کر میدان عمل میں اترے اور اس فتنہ ارتداد کے خلاف جنگ میں مصروف ہو گئے۔ 10 اپریل 1932ء کو علی پور سیداں میں انجمن خدام الصوفیہ کا سالانہ اجلاس ہوا۔ امیر ملت کی عمر 80 برس کے قریب تھی۔ (آپ کی ولادت 1840-45ء کے درمیان بتائی جاتی ہے) مگر تیور نوجوانوں کو مات دینے والے تھے۔ آپؒ نے اس جلسے میں اعلان کیا ’’حضورﷺ نے تو اپنے مردے بھی اغیار کے حوالے کرنے کو ناپسند فرمایا تھا اور یہ ہندو لوگ ہمارے ’’زندوں‘‘ کو چھین کر لے جا رہے ہیں۔ میں اپنے تمام وسائل اس فتنے کے خلاف جنگ میں استعمال کرنے کا اعلان کرتا ہوں اور جب تک کہ کم گشتگان دین کو راہ راست پر نہ لے آؤں ،چین سے نہیں بیٹھوں گا۔‘‘ اس اعلان کے بعد آپ ؒنے تمام متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا۔ آگرہ‘ متھرا‘ ریاست بھرت پور‘ بڑودہ‘ فرخ آباد‘ گڑ گاؤں اور رہتک حصار تک جانے والے وفود کا ساتھ دیا۔ آگرہ میں شندھی تحریک زوروں پر تھی چنانچہ اسی جگہ کو امیر ملت ؒ نے ’’مرکز تگ وتار‘‘ بنایا۔ واضح رہے کہ انگریز حکمرانوں کا سارا زور مسلمانوں کے خلاف تھا۔ اس جدوجہد میں میر غلام بھیک نیرنگ (انبالوی) مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی نے امیر ملت ؒ کا بھرپور ساتھ دیا۔ اس سے پیشتر 1910ء میں ترکی کے سلطان عبدالحمید خان نے حجاز تک ریلوے لائن بچھانے کا اعلان کیا تو امیر ملت نے اپنے ’’متوسلین‘‘ کی جانب سے چھ لاکھ روپے چندہ عطا کیا۔ تاریخی حقیقت یہ بھی ہے کہ ہندی روپیہ ’’پونڈ‘‘ سے بھی زیادہ طاقتور ہوا کرتا تھا پھر فرنگیوں نے پورا زور لگا کر پونڈ اور روپے کو مساوی قرار دیا لہٰذا چھ لاکھ کی رقم معمولی نہ تھی۔

سیکرٹری تحریک خلافت مولانا شوکت علی نے چندے کی اپیل کی تو امیر ملت نے اپنے مریدوں کو حکم دیا کہ ہر فرد ایک ایک روپیہ اس فنڈ میں جمع کرائے۔بڑے بڑے دولت مند بھی آپؒ کے مریدوں میں شامل تھے مثلاًبمبئی کا سیٹھ نورانی وغیرہ اور اہم بات یہ کہ مریدوں سے پہلے پیر صاحب نے خود اس فنڈ میں دل کھول کر چندہ جمع کرایا۔ تحریک پاکستان کے لئے امیر ملت ؒ کے خلوص کو دیکھتے ہوئے مولانا ظفر علی خان نے بھی اپنے اخبار زمیندار میں آپؒ کو خراج تحسین پیش کیا۔ تحریک خلافت اور دیگر معاملات میں آپؒ اس قدر فعال تھے کہ سرکاری اخبار ’’سول اینڈ ملٹری گزٹ‘‘ نے سرخی لگائی کہ ’’حکومت وقت کے لئے گاندھی جی سے زیادہ پیر جماعت علی شاہ صاحب خطرناک ثابت ہو رہے ہیں۔‘‘ آخر کار حکومت کو امیر ملت ؒ پر پابندیاں عائد کرنے کا خیال آیا‘ چنانچہ صوبہ سرحد‘ بلوچستان اور کشمیر میں آپ ؒ کا داخلہ بند کر دیا گیا۔ 1914ء میں موصوف نے ترک موالات کی شدید مخالفت کرتے ہوئے مسلمانوں کو ’’ہجرت ہند‘‘ سے باز رکھا۔ اس کے باوجود کم وبیش 2لاکھ مسلمانوں نے افغانستان اور عرب ممالک کی طرف ہجرت کی مگر سب کو جان لیوا عذاب سے گزر کر واپس آنا پڑا۔ 1930ء میں نابالغ بچوں کی شادی پر پابندی لگانے والا قانون ’’ساردا ایکٹ‘‘ پاس ہوا تو امیر ملتؒ نے اسے دینی معاملا ت میں مداخلت قرار دیا اور خود نکاح پڑھانے شروع کر دیئے۔ نہ صرف یہ بلکہ پولیس کو اس قانون شکنی کی اطلاع بھی دے دی۔ آپؒ کے چاہنے والوں نے بھی جب قانون شکنی کو اپنا شعار بنا لیا تو حکومت کو مذکورہ قانون واپس لینا پڑا۔

1935ء میں مسجد شہید گنج کے سلسلے میں راولپنڈی شہر میں عظیم الشان جلسے کا انعقاد ہوا جس میں پیر صاحب کو امیر ملت ؒ کا لقب دیا گیا۔ اسی جلسے میں علامہ عنایت اﷲ مشرقی نے فیصلہ کن اعلانات کئے ۔ لاہور میں گولی چلنے کی اطلاع آپؒ کو راولپنڈی میں ملی تو آپؒ نے لاہور کا قصد کیا۔ پنڈی ریلوے سٹیشن پر خلق خدا کا ہجوم بے قابو ہوا تو ڈپٹی کمشنر صاحب نے سخت اقدامات کا فیصلہ کیا مگر اسے سمجھایا گیا کہ راولپنڈی کو لاہور بنانے سے گریز کیا جائے۔ انگریز ڈی سی کے ذہن میں بھی یہ بات آ گئی کہ پیر صاحب سے ٹکرانا خطرناک ہے۔ لہٰذا پیر صاحب کو بصد احترام لاہور روانہ کر دیا جائے۔ اس طرح راولپنڈی سٹیشن کشت وخون سے محفوظ رہا۔ 8 نومبر1935ء کا سورج طلوع ہوا تو چشم فلک نے عجیب وغریب منظر دیکھا۔ پانچ لاکھ مسلمانوں کا جلوس‘ امیر ملت ؒ کی زیرسرکردگی میں بادشاہی مسجد سے نکلا۔ سب کے ہاتھوں میں ننگی تلواریں تھیں۔ اس روز حکمرانوں کے ایوانوں میں تہلکہ مچ گیا۔ غیرمسلموں کو یقین تھا کہ فساد ہو کر رہے گا تاہم امیر ملت ؒ نے جوشیلے نوجوانوں کو اپنے قابو میں رکھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب یہ نعرے لگا جا رہے تھے ’’مسلمان ہو تو مسلم لیگ کا ساتھ دو‘‘ نظریہ پاکستان کی حمایت کا یہ انداز قائداعظم ؒ کو بے حد پسند آیا۔ اس تعاون نے منزل پاکستان کا سفر آسان تر بنا دیا۔ اسے ہم نعمت خداوندی قرار دیتے ہیں۔
1944ء میں دو بڑوں کے ملن کو ہم ’’قران السعدین‘‘ قرار دیتے ہیں۔ کشمیری لیڈر غلام عباس‘ امیر ملت ؒکے سچے مرید تھے اور شاہ صاحب اس زمانے میں سری نگر کے دورے پر تھے چنانچہ غلام عباس صاحب قائداعظم ؒ کو لے کر امیرملت ؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ امیر ملتؒ نے والہانہ استقبال کیا۔ کشمیری انداز میں پرتکلف دعوت کے بعد امیر ملتؒ نے قائداعظم ؒ کو کامیابی کی خوشخبری سنائی اور دو عدد جھنڈے عطا کئے۔ ان میں سے ایک جھنڈا سبز رنگ کا تھا۔ امیر ملت نے سبز جھنڈے کی طرف اشارہ کر کے فرمایا ’’یہ جھنڈا مسلم لیگ کا ہے اور دوسرا کفرستان کا‘‘ بعد ازاں اس کی عملی وضاحت کرتے ہوئے بڑے بڑے پوسٹر تیار کئے گئے ۔جس میں تلقین کی گئی کہ امیر ملت کا ہر مرید مسلم لیگ میں شمولیت کا اختیار کرے کیونکہ یہی مسلمانوں کی حقیقی جماعت ہے۔‘‘

اس کے بعد امیر ملت ؒ نے تحریک پاکستان کی کامیابی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا اور مجلس احرار کے گڑھ کوہاٹ میں جا پہنچے۔ یہاں آپؒ نے اپنے متوسلین کو حکم دیا کہ سب مسلم لیگ کو کامیاب بنائیں۔ کوہاٹی مریدوں کی اکثریت احراری اور خاکساری تھی مگر دیکھتے ہی دیکھتے ہوا کا رخ بدل گیا اور مسلم لیگ کے آگے سب کے چراغ بجھ گئے۔ 1946ء میں امیر ملت ؒ کے صاحبزادے سید محمد حسین ؒنے بھی مسلم لیگ کی کامیابی میں اہم کردار ادا کیا۔اس زمانے میں مفاد پرست اور تنگ ظرف مسلمان بھی قائداعظم کو سرعام برا بھلا کہتے تھے۔ امیر ملت ؒ نے ان کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا ’’محمد علی جناح کو برا بھلا کہنا رواج میں شامل ہو چکا ہے۔ ایسا کرنے والے عقل سے عاری ہیں۔ جناح کی سچائی کا بڑا ثبوت یہی ہے کہ وہ جواباً کسی کو برا نہیں کہتا۔‘‘

اسی زمانے میں امیر ملت ؒ کو قتل کی دھمکیاں ملنے لگیں۔ آپ ؒ نے برملا اعلان کیا ’’میں سید ہوں اور موت کے خوف سے مکمل آزاد۔‘‘1946ء میں آل انڈیا سنی کانفرنس کا انعقاد بنارس میں ہوا جس کی صدارت امیر ملت نے فرمائی۔ یہی وہ مثالی کانفرنس تھی جس میں 5 ہزار مشائخ نے شرکت فرمائی اور اس کانفرنس کے خطبہ صدارت میں جب امیر ملت ؒ نے تحریک پاکستان کی حمایت کا دو ٹوک اعلان کیا تو ساری کسر پوری ہو گئی۔

ظاہری علماء سے مرزا غلام احمد قادیانی کا ٹکراؤ‘ حکومت وقت کی ضرورت بھی تھی۔ اس سلسلے میں مرزا صاحب کو سرکاری تعاون حاصل تھا۔ اس کے باوصف قادیانیوں کو کامیابی حاصل نہ ہو سکی۔ امیر ملت ؒ کی افتاد طبع کچھ ایسی تھی کہ ان کا مرزا موصوف سے ٹکراؤ ناگزیر ہو گیا۔ چنانچہ پہلا ٹکراؤ 27 اکتوبر 1904ء کو سیالکوٹ میں ہوا۔ یہ ٹکراؤ بھی عجیب ثابت ہوا یعنی اس وقت پنڈال میں ایسے لاتعداد لوگ موجود تھے جن کا ذہنی جھکاؤ مرزا قادیانی کی طرف تھا مگر ہوا یہ کہ امیر ملت ؒ تو مقررہ جگہ پر تیار بیٹھے تھے مگر مرزا صاحب کہیں دکھائی نہیں دے رہے تھے۔ یہ رویہ شکست سے بھی بدتر ثابت ہوا اور جب امیر ملت نے اپنی تقریر میں دلائل دیئے تو وہ تمام لوگ جو دینی معاملے میں تذبذب کا شکار ہو کر مرزا موصوف پر ’’ایمان‘‘ لانے والے تھے ٗامیر ملت ؒ کے مرید بن گئے۔ یہ تفصیل ’’برکات علی پور‘‘ مطبوعہ راولپنڈی 1967ء میں دیکھی جا سکتی ہے۔

6 مئی 1908ء کو مرزا غلام احمد لاہور میں اپنے عقیدت مند خواجہ کمال الدین کے ہاں فروکش تھے۔ چند روز قیام کے بعد موصوف نے سادہ لوح عوام کو متاثر کرنا شروع کردیا تو چند اہل دل لاہوریوں نے امیر ملت ؒ کو اطلاع کر دی۔ چنانچہ پیر جماعت علی شاہ ؒ محدث علی پوری لاہور تشریف لائے اور 22 مئی والے دن بادشاہی مسجد میں عظیم الشان جلسے کا انعقاد ہوا۔ اس میں علمائے اہل سنت کی بڑی تعداد نے شرکت فرمائی۔ پیر مہر علی شاہ آف گولڑہ شریف بھی تشریف لائے۔ امیر ملت ؒ نے واشگاف الفاظ میں مرزا قادیانی کو للکارا اور کہا کہ اگر وہ مباحثے میں شرکت نہیں کرنا چاہتے تو ’’مباہلے‘‘ کے لئے تیار ہو جائیں۔ کافی انتظار کے بعد جب مرزا قادیانی نہ آئے تو ولی اﷲ کو جلال آ گیا اور انہوں نے مرزا غلام احمد قادیانی کی موت کا اعلان فرما دیا۔ اسے پیشگوئی کہہ لیں یا ایک ولی اﷲ کا ’’حکم رحلت‘‘ امیر ملت نے فرمایا کہ خدائی فیصلہ ہو چکا اور اب مرزا غلام احمد قادیانی تین روز کے بعد اس دنیا سے کوچ کر جائے گا۔‘‘ یہ اعلان رات دس بجے کے قریب کیا گیا۔ اکثر لوگوں نے اسے قابل توجہ نہ سمجھا لیکن وافقان حال جانتے تھے کہ امیر ملت ؒ نے نوشتہ دیوار پڑھ کر سنا دیا ہے چنانچہ 26 مئی کی صبح دس بجے مرزا قادیانی اس دنیا سے کوچ کر گئے۔

یہاں امیر ملت کی کرامات کو عمداً شامل مضمون نہیں کی جارہیں‘ اس کے لئے ’’سیرت امیر ملت‘‘ کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے تاہم آپ ؒ کی سب سے بڑی کرامت سنت نبوی ﷺ کا اتباع ہے۔ امیر ملت ؒ کی ساری زندگی حضور اکرم ﷺکی حیات طیبہ کا عکس تھی۔ قیام پاکستان کے بعد امیر ملت صرف ایک دکھ اپنے ساتھ لے کر دنیا سے رخصت ہوگئے کہ پاکستانی حکمرانوں نے اسلام نافذ کرنے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ 26 ذیقد 1370ھ بمطابق 31 اگست 1951ء امیر ملت اس دنیا سے رخصت ہو گئے (انا ﷲ وانا الیہ راجعون) پیر غلام دستگیر مرحوم ومغفور نے تاریخ وصال کہی۔ علی پور شریف میں آپ ؒکا عرس 29,28 بیساکھ کو ہر سال احترام وعقیدت سے منایا جاتا ہے۔
ٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌٌ****************

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 791 Articles with 710240 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.