گذشتہ ہفتہ جب وفاقی وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب کی طویل بجٹ تقریر میں انکم
ٹیکس کی اصطلاح پہلی بار آئی تو پاکستان میں تنخواہ پر گزر بسر کرنے والے
تمام ہی افراد حیران و پریشان ہمہ تن گوش ہوئے۔
تاہم وزیرِ خزانہ صرف یہی کہہ کہ آگے بڑھ گئے کہ ’انکم ٹیکس سلیب ریٹس میں
رد و بدل کیا گیا ہے‘ جس سے یہ تاثر ملا کہ شاید کوئی غیر معمولی تبدیلی
نہیں کی گئی۔
یہ معاملہ اصل میں کتنا غیر معمولی ہے یہ اس وقت واضح ہوا جب وزارتِ خزانہ
نے گذشتہ رات اپنی ویب سائٹ پر فنانس بل 2024-25 شائع کیا جس میں نہ صرف
ٹیکس سلیب ریٹس میں ردوبدل کی تفصیلات درج تھیں بلکہ سلیب بھی تبدیل کیے
گئے تھے۔
پاکستان میں سرکاری ملازمین جو کچھ دیر پہلے حکومت کی جانب سے تنخواہوں میں
25 فیصد تک کے اضافے کو ایک ’بہترین سرپرائز‘ قرار دے رہے تھے ایک دوسرے کو
مبارکیاں دے رہے تھے ان کی مبارکیاں دینا کو اس وقت دھچکہ لگا جب ٹیکسز میں
اس اضافے کے بعد تو یہ تنخواہوں میں سارا اضافہ تو ٹیکس میں اضافے سے
تقریباً ختم ہی ہو گیا۔
ایک سرکاری ملازم جس کی تنخواہ میں اس بجٹ میں 20 فیصد اضافہ تجویز کیا گیا
ہے، اگر اس کی تنخواہ میں 11 ہزار کا اضافہ ہونا ہے لیکن ٹیکس میں اضافہ کے
بعد یہ صرف 1500 رہ جائے گا۔
دیکھا جائے تو اپنی طرف سے (حکومت) نے حاتم طائی کی قبر پر لات ماری کہ
تنخواہ میں 20 فیصد اضافہ کر دیا لیکن جو اصل میں اضافہ کیا ہے وہ نہ ہونے
کے برابر ہے۔‘
یہی حال پاکستان کے پرائیوٹ اداروں میں کام کرنے والے افراد کا بھی ٹیکسوں
میں اس مجوزہ اضافے کے بارے میں خاصے پریشان نظر آرہے ہیں . اگر ان کی
تنخواہوں کا اضافہ تو ٹیکس کی صورت میں مزید گھٹا دے گا۔
اگر سوشل میڈیا پر بھی نظر دوڑائی جائے تو تنخواہ دار طبقہ سراپا احتجاج
نظر آتا ہے اور لوگ حکومت کے خلاف سڑکوں پر آنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔
دیکھا جائے کہ آئندہ برس فروری میں جب کسی فرد کی تنخواہ میں اضافہ کیا
جائے گا تو ٹیکس کٹنے کے بعد ان کی تنخواہ اتنی ہی ہو گی جتنی اس وقت ہے۔
یہ تو یہ محاورہ بن گیا کہ ’کم سیلری میں کم پیسوں کا دکھ، زیادہ سیلری میں
ٹیکس کا دکھ۔‘
اس وق ہاکستان میں تو بہت سے لوگوں نے اپنی ماہانہ تنخواہ کی سلپ بھی سوشل
میڈیا پر شیئر کر ڈالیں اور یہی سوال زیادہ اٹھایا کہ حکومت صرف تنخواہ دار
طبقے کو ہی نشانہ کیوں بناتی ہے؟
اس وقت ماہرین یہی کہتے پائے کہ یہ تنخواہ دار طبقے کے ساتھ حالیہ بجٹ میں
شب خون مارا گیا ہے اب تنخواہ دار کہ پاس ’اب صرف دو ہی آپشن ہیں کہ اپنی
تنخواہ کیش میں لی جائے یا پاکستان کو چھوڑ دیں۔‘
اگر آپ گذشتہ روز کسی وجہ سے ٹیکسز میں اضافے کے حوالے سے تفصیلات نہیں جان
پائے تو درج ذیل معلومات آپ کو اپنے انکم ٹیکس کا حساب لگانے میں مدد دے
سکتی ہیں۔
اگر آپ کی آمدن پچاس ہزار روپے ماہانہ ہے تو آپ کو کوئی انکم ٹیکس نہیں
دینا ہو گا۔ تاہم اگر یہ آمدن 50 ہزار اور ایک لاکھ روپے ماہانہ کے درمیان
ہے یعنی مثال کے طور پر80 ہزار ہے تو آپ کو ماہانہ چار ہزار روپے ٹیکس دینا
پڑے گا جو گذشتہ برس دو ہزار تھا۔ ماہانہ ڈیڑھ لاکھ روپے آمدن کی صورت میں
گذشتہ برس آپ کو 7500 روپے ماہانہ ٹیکس ادا کرنا ہوتا تھا، تاہم اب یہ رقم
بڑھ کر 10 ہزار روپے ماہانہ ہو جائے گی۔ دو لاکھ روپے ماہانہ کمانے والوں
کو گذشتہ برس تک 13750 روپے ماہانہ ٹیکس دینا پڑتا تھا، تاہم اب ان کا سلیب
تبدیل ہو گیا ہے اور انھیں 19,166 روپے ماہانہ ٹیکس دینا پڑے گا۔ ایسے
افراد جن کی ماہانہ آمدن ڈھائی لاکھ روپے ہے وہ اس سے قبل 25 ہزار روپے
ماہانہ ٹیکس کی مد میں دیا کرتے تھے، اب یہ 31666 روپے ماہانہ انکم ٹیکس
دیں گے۔ تین لاکھ ماہانہ کمانے والے افراد پہلے ماہانہ 36250 روپے انکم
ٹیکس دیتے تھے اور اب اس رقم پر ان کا ماہانہ ٹیکس 45833 روپے بنے گا۔ساڑھے
تین لاکھ کمانے والوں کا ماضی میں ماہانہ انکم ٹیکس 50 ہزار روپے تھا، جو
اب بڑھ کر 61250 روپے ہو جائے گا۔ایسے افراد جن کی ماہانہ آمدن چار لاکھ
روپے ہے وہ اس سے قبل 63750 روپے ماہانہ ٹیکس ادا کرتے تھے، اب یہ رقم بڑھ
کر 78750 روپے ہو جائے گی۔
جبکہ حکومت نے تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کی شرح بڑھا کر ظلم کیا ہے کیونکہ
یہی شعبہ ٹیکس دیتا ہے اور اسے سب سے زیادہ ٹیکس کا سامنا ہے۔ ’حکومت نے
نان فائلرز کو ٹیکس نیٹ لانے میں ناکامی کے بعد اس شعبے پر ٹیکس کا زیادہ
نفاذ کر دیا جو پہلے سے ٹیکس دے رہا تھا۔ یہ اپنی اور ٹیکس ادارے کی
نااہلیت کو چھپانے کے لیے عام عوام کی اس ٹیکس سلیب سے کمر توڑ کے رکھ دی
جبکہ عوامی حکومتیں اپنی عوام کو بہترین سہولت دینے میں ہر اوّل تیار رہتی
ہیں. جس طرح ٹیکس شرح بڑھائی گئی ہے اس کے بعد تنخواہ دار طبقے کی جیب پر
زیادہ بوجھ پڑے گا۔’ یہ لگتا کہ جس نے بھی یہ سلیب بنائیں ہیں انھوں نے یہ
حساب بھی لگایا ہے کہ ان کے نتیجے میں ٹیکس میں اضافہ کتنا زیادہ ہو گا۔
جبکہ اس دفعہ تو یہ ہونا چاہیے تھا کہ ایگریکلچر ٹیکس نافذ کیا جاتا تو کچھ
حد تک تنخواہ دار طبقے پر بوجھ کچھ کم ہوجاتا. مگر یہ حکومت بھی پیچھلی
ادوار حکومتوں جیسی ہی رہی کہ ہمارے چاروں صوبائی و وفاق اور سینیٹ میں
چاروں طرف اکثریت وڈیروں، چوہدری، سرداروں ، خوانین وغیرہ کی ہیں. جن کو ہر
حکومت نے آنکھیں بند کرکے نوازہ مگر مُلک کی تقدیر ان وڈیروں و سرداروں نے
کہاں نوازنا تھی انہوں نے تو ہمیشہ دوران حکومت اپنے آپ کو نوازہ اپنے اپنے
علاقوں کو جو ترقی نہ دے سکے.
|