السلام علیکم
میں افضل لالی ہوں ،،گھٹن مایوسی ڈپریشن اور انزئیٹی کے اس ختم کر دینے
والے ماحول میں کچھ عرصہ پہلے سانحہ تھانہ بہاول نگر ایک ایسی تفریح ثابت
ہوا ہے جس نے پوری قوم کی عید کو پُر مسرت بنا دیا اور میں خود بھی قلبی
طور پر اس وا قعہ سے نہ صرف خوش ہوا بلکہ اندر سے ایک قلبی مُسرت ہوئی کہ
شکر ہے پولیس کومار پڑی اور میری دلی خواہش ہے کہ نہ صرف ایسے واقعات اکثر
رونما ہوتے رہنے چاہیں بلکہ پاک فوج کو پولیس کو اپنے زیر نگیں لے کر پاک
فوج کے جوانوں کو تھانوں میں پولیس کے اوپر تعنیات کرنا چائیے کیونکہ پولیس
کےمنہ زور اور بے لگام گھوڑے کو صرف اور صرف فوج کی لگام ہی قابو کر سکتی
ہے نیز اس بات کو بھی یقینی بنایا جائے کہ تمام تھانوں میں ایک بریگڈئیر
لیول کے ایک افسر کا ہفتہ وار وزٹ ہو جو خود عوام کی ان تکالیف کو دیکھے جو
اسے اپنے مقدمے کے علاوہ پولیس کیطرف سے درپیش ہیں لیکن ذرا رک کر سوچیں کہ
میرا یا کسی کا بھی یہ رویہ اور سوچ اُس انسان کاجو خود کو مسلمان کہتا ہو
زیب دیتا ہے کہ وہ کسی دوسرے مسلمان بھائی کی تضحیک و تزلیل پرخوش ہو؟ لیکن
چاہت فتح علیخان اور ٹک ٹاک پر گُجر ارائیں ملک راجا قوموں کی تشہیر کرنے
والے لمبے بالوں والے مونچھوں کو تاو اور سر عام دھمکیاں دیتے ربڑی
بدمعاشوں اورمختلف کامیڈین جنہیں کسی زمانے میں ڈوم اور بھانڈ کہا جاتا تھا
قوم کے آئیڈیل ہوں تو ہماری مینٹل اپروچ اس کے علاوہ کیا ہو سکتی ہے۔۔
ورنہ اپنے ملک کے دو اداروں کا یوں آمنے سامنے دست و گریبان ہونا لمحہ
فکریہ ہے
اس سانحہ سے کئی سال پہلے میرے کہے گئے کم از کم اس قول کی تصدیق تو ہو گئی
کہ جس سے خؒوف آئے اس سے محبت نہیں ہو سکتی فوج کے ہاتھوں پولیس کی تذلیل
پر عوام کی خوشی اس بات کی وہ روشن دلیل ہے جسے چاہیں بھی تو جھٹلایا نہیں
جا سکتا ،،،ناظرین کرام انسان کو جب بھی طاقت ملتی ہے اگر وہ منہ سے نہ بھی
کہے لیکن اسکی پہلی خواہش خُدا بننا ہوتی ہے تابعداری اور جی جی کرتے سر
نگوں انسانوں کو احکامات کی تعمیل کرتے اپنے آگے پیچھے دیکھنا اس کی اولین
خواہش ہوتی ہے اور اس خواہش کی تکمیل کرنے کے لئیے انسانوں کو خوفزدہ کرنا
بنیادی شرط اور ضرورت ہوتی ہے اور یہ عمل اور نیت ہی خُدائی دعوی کہلاتا ہے
،،،، پولیس کا ادارہ عوام کی حفاظت اور تحفط کے لئیے قائم کیا گیا تھا لیکن
بد قسمتی سے پاکستان میں یہ واحد وہ ادارہ ہے جس سے عوام کو تحفط دینے کی
سخت ترین ضرورت ہے جسکی طرف آج تک کسی نے دھیان اس لئیے نہیں دیا کہ
حکومتیں ملنے کے بعد ہر کوئی ٹھیکوں اور ککس بیک اپنے مخالفین کی سرکوبی
اور تذلیل کرنے کی جس دوڑ میں دوڑنے لگتا ہے اُس میں مدد کے لئیے بھی ہر
قدم پر اسی ادارے کی ضرورت پڑتی ہے اگرچہ پولیس میں کرپٹ ظالم اور مجرمانہ
ذہنیت کے افراد کی پہلے ہی کمی نہیں ہوتی لیکن ان کی دین اور دنیا کو تباہ
و برباد کرنے میں بڑا ہاتھ سیاست دانوں کا ہوتا ہے لہذا کہا جا سکتا ہے کہ
ستوڈنٹ لیڈروں کو غنڈہ بدمعاش اور قاتل بنانے میں بھی سو فیصد ہاتھ سیاست
دانوں اور پولیس کا ہوتا ہے
اگرچہ فوج اور پولیس کی اس بد ترین جھڑپ میں کسی قسم کے کوئی ملکی مفاد در
پیش نہیں تھے بلکہ یہ چوہدراہٹ کی وہ جنگ تھی جو ملک بھر میں خصوصا پنجاب
کے دیہاتی علاقوں میں جا بجا ہمیشہ چھڑی رہتی ہے اور اس میں ہر سال بے شمار
انسان لقمہ اجل بن جاتے ہیں
لب لباب یہ ہے کہ جس گھر میں سارے افراد ہی خود کو سربراہ سمجھتے ہوں وہ
گھر گھرنہیں کنجر خانہ ہوتا ہے اور معذرت کے ساتھ مجھے کہنے دیجئے کہ فی
الوقت ملک پاکستان کے عام لوگ تقریبا اسی طرح کے ماحول میں زندگی گُزار رہے
ہیں اور اگر یہ زندگی ہے تو مرنا کس کو کہتے ہیں
پولیس کی پٹائی کرنے والے فوج کے ادارے نے جو کچھ کیا وہ غلط ہے یا صحیح یہ
ایک علیحدہ بحث ہے لیکن آپ نے دیکھا کہ آپ کے اس اقدام سے عوام کتنی خوش
ہوئی ہے اور عوام نے کس قدر اپنی فوج سے یک جہتی کا اظہار کرتے ہوئے آپکے
اس اقدام کی تعریف کی؟
اور پچھلے ایک دو سالوں سے فوج کے متعلق عام آدمی کی جو راے قائم ہو چُکی
تھی اسکی شدت میں کچھ نہ کچھ کمی واقع ضرور ہوئی ہے اگرچہ فوج کا یہ اقدام
عوام کی فلاح کے لئیے نہیں بلکہ اپنی سپر میسی کو قائم کرنے کے لئیے تھا
اور یہ انتہائی ضروری بھی اس لئیے تھا کہ ایک وقت میں ایک میان میں ایک ہی
تلوار ہونی چائیے
لیکن اسکے باوجود عوام نے آپکے اس اقدام کوکسی ایک مقام پر بھی ظلم و
زیادتی یا غلط نہیں کہا بلکہ تعریف کی گویا عوام ہمیشہ اس عمل کی تعریف کرے
گی جو اسکو تکلیف دینے والے کے خلاف کیا جائے گا چاہے وہ سیاست دان ہوں
حکومت یاکوئی بھی ہو
فوج اور عوام میں پچھلے ایک دوسال سے جن غلط فہمیوں کی وجہ سے دوریاں پیدا
ہو چکی ہیں اانہیں قربتوں میں تبدیل کرنے کے لئیے سانحہ تھانہ بہاولنگر ایک
زبردست دلیل اور درس ہے جس سے استفادہ کیا جا سکتا ہے کیونکہ ملک پاکستان
کے اصل معنی تو عوام اور فوج ہیں عوام اور فوج کو ہی پاکستان کہا جاتا ہے
سیاست دان تو وہ فصلی بٹیرے ہیں جو ہر موسم میں محض دانہ دنکا چگنے آتے
ہیں اور پھر یورپ کے نیلگوں آسمانوں میں کھلی فضاوں میں اُڑ جاتے ہیں جبکہ
عوام اور فوج نے تو ہمیشہ یہیں رہنا ہے حقیقی معنوں میں پاکستان میں مرنا
جینا تو صرف ان دونوں کا ہے باقیوں کے تو صرف دعوے ہیں-
|