ایک بار پھر آغازِ گفتگو والدین سے تہہ دل سے معزرت کے
ساتھ اور اس امید کے ساتھ کہ میرے معزز قارئین میرے نظریے کو منفی نہیں
مثبت انداز میں پرکھیں گے۔ آج نصیحت کے لۓ ہمیشہ کی طرح اولاد کو چُنا نہیں
جا رہا بلکہ آج کرنا چاہونگی کچھ نصیحت والدین کو۔
والدین بننے کی خوشی انسان کو شاید زمین سے آسمان پر پہنچا دیتی ہے۔ ماں
باپ بنتے ہی انسان اپنی اولاد کو ہرطرح کا سکھ، چین، آسائش و آرام فراہم
کرنے کی تگ و دو میں لگ جاتا ہے۔ اسی مصروفیت اور والدین کا معزز رتبہ مل
جانے پر اکثر ہم اپنی ہی اولاد کو ایک جیتا جاگتا انسان نہیں بلکہ احساس و
جذبات سے عاری ایک روبوٹ سمجھنے لگتے ہیں۔ اب آپ ضرورحیران ہو رہے ہونگے کہ
ایسا کیوں کر ممکن ہو سکتا ہے۔ تھوڑا سا حوصلہ درکار ہے میں کچھ تفصیل سے
بیان کرنے کی کوشش کرتی ہوں۔
والدین ہونے کا جو سب سے بڑا حق ہم اپنے بچوں پرسمجھتے ہیں وہ ہمارے ہر حکم
کو ماننے کا ہے۔ چاہے اولاد کا دل ہو نہ ہو، مرضی ہو نہ ہو، بس وہ ہماری ہر
بات پر سرتسلیم خم کریں۔ ایک نہایت معمولی مثال پیش کرتی ہوں۔ اکثر ایسا
ہوتا ہے سب بیٹھیں ہوتے ہیں، پھروالدین بچوں میں سے کسی کو اپنے کام کے لۓ
کہتے ہیں مثلاً پانی پلا دو، موبائل اٹھا دو، چشمہ لے آؤ۔ کہنے کو بات تو
معمولی سی ہے مگر اگر بچے کا اٹھنے کا دل نہیں تو وہ منع بھی نہیں کر سکتا
کیونکہ ایسا کرنے پر اسے نافرمان یا بے ادب کا لقب ہی نہیں ملے گا بلکہ
اچھا خاصا لیکچر بھی سننے کو مل سکتا ہے۔
یہ تو شروعات ہے ایک بہت چھوٹی سی مثال کے ساتھ ۔ کچھ والدین اپنا حق اس حد
تک جتاتے ہیں کہ پڑھائ سے لے کر شادی تک سب اپنی مرضی سے ہوتا ہوا دیکھنا
چاہتے ہیں۔ قطع نظر اس کے کہ ان کی اولاد وہ پڑھائ پڑھنا چاہ بھی رہی ہے یا
نہیں، اس میں وہ خوبیاں، قابلیت یا خصوصیات ہیں بھی یا نہیں۔ اب والدین زور
ذبردستی کر کے اپنی اولاد کو اس پڑھائ کے غار میں گھسا تو دیتے ہیں مگر
اکثر اوقات اولاد لاکھ کوشش کے بعد بھی مطلوبہ نتیجہ لانے میں ناکام ہو
جاتی ہے۔ تب انہیں نہ صرف والدین کی لعن طعن سننا پڑتی ہے بلکہ کچھ بچے
ذہنی تناؤ اور ڈپریشن کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اور یوں وہ معاشرے کا فائدہ مند
شہری بننے کے بجاۓ، ٹیشن ڈپریشن کے مریض کے طرح جینے لگتے ہیں۔
شادی کا معاملہ بھی اس سے کچھ مختلف نہیں۔ والدین ہمیشہ سے ہی یہ خواہش
رکھتے ہیں کہ اولاد ان کی پسند سے شادی کرے۔ اگر اولاد اپنی پسند سے شادی
کرنا چاہے تو والدین اموشنل بلیک ملینگ کرنے لگتے ہیں۔ اگر کوئ اولاد خاص
کر بیٹا اپنے والدین کو پسند کی شادی پر راضی کر ہی لے اور وہ مان جائیں تو
بہو کو دل سے قبول ہی نہیں کیا جاتا۔ آۓ دن اس کے لۓ نئ سازش اور محاز تیار
کۓ جاتے ہیں۔ معذرت مگر حقیقت یہی ہے کہ اس میں گھر کی خواتین ساس، نندیں
اہم کردار ادا کرتی نظر آتی ہیں۔ اس سب میں وہ یہ یکسر بھول جاتی ہیں کہ
ایسا کرنے سے صرف بہو اذیت کا شکار نہیں ہو گی بلکہ ان کا اپنا بیٹا یا
بھائ بھی ذہنی کرب میں مبتلا رہے گا۔ اور یوں زندگی کا ہرہرمرحلہ ایک
آزمائش کی سی حیثیت اختیار کرتا جاتا ہے۔
معافی کی طلبگار۔ والدین ایک عجیب سے زعم یا شاید خوش فہمی کا شکار ہوتے
ہیں کہ وہ اپنی اولاد کو کچھ بھی کہنے کا حق رکھتے ہیں۔ وہ یہ یکسر بھولے
بیٹھیں ہوتے ہیں کہ ان کی اولاد بھی ان ہی کی طرح کی انسان ہے۔ جیتی جاگتی،
احساس و جذبات رکھتی۔ کچھ اچھا برا انہیں بھی لگ سکتا ہے، والدین کا کہا
گیا تلخ جملہ ان کا بھی کلیجہ چیر سکتا ہے، کوئ طنزوطعنہ اولاد کی بھی دل
آزاری کا سبب بن سکتا ہے۔ والدین کو یہاں ایک نہایت ضروری بات یاد کرانا
چاہونگی کہ بروزِجزاوسزا انہیں بھی اللہ پاک کے حضور پیش ہونا ہے جہاں
انہیں اپنے ہرعمل کا جوابدہ ہونا ہو گا۔ اس وقت انہیں جواب دینا ہو گا جب
جب انہوں نے اپنی اولاد کا جانے انجانے دل دُکھایا ہو گا، ان کی تذلیل کی
ہوگی، ان کے جذبات کو ٹھیس پہنچائ ہو گی۔ تو والدین ذرا خبرداد رہیں اور
اپنی اولاد سے اپنے رویوں میں تبدیلی لاتے ہوۓ، الفاظ کے چناؤ اور جملوں کی
ادائیگی کو بھی ملحوظِ خاطر رکھیں۔
اختتام کی جانب بڑھتے ہوۓ والدین کو ایک مخلصانہ مشورہ دینا چاہونگی کہ خود
کو بھی انسان، جو خطا کا پُتلا ہے ہی سمجھیں۔ اگر کوئ غلطی سرذد ہو جاۓ تو
اپنی غلطی کا احساس کرتے ہوۓ اولاد سے معافی مانگنے میں ذرا شرم محسوس نہ
کریں۔ یقین کریں ایسا کرنے سے اولاد کی نظر میں آپ کی عزت بالکل نہیں گھٹے
گی بلکہ اس میں اضافہ ہو گا۔ والدین کی قدر ومنزلت بڑھے گی کیونکہ اولاد یہ
جان جاۓ گی کہ والدین اصول وضوابط اور انصاف کے پابند ہیں، جو غلطی سر ذد
ہو جانے پر ہمیں ہی معافی مانگنے کا درس نہیں دیتے بلکہ خود بھی انہی
اصولوں پر کار بند ہیں۔
اس میں کوئ شک نہیں کہ والدین کا رتبہ نہایت بلند ہے اور عزت و احترام کا
متقاضی ہے مگر جہاں پر انسان وانسانیت کی بات آۓ وہاں اپنی اولاد کو بھی
انہی اصولوں پر پرکھیں اور ان کا خیال رکھیں۔ یقیناً اولاد کی شخصیت والدین
کی تربیت کی مرہونِ منت ہوتی ہے۔ جس طرح والدین کا کہا گیا ایک تعریفی جملہ
اولاد کو آسمان کی بلندیوں پر پہنچا دیتا ہے بالکل اسی طرح ایک طنزوتشنع،
ذلت بھرا جملہ انہیں ذہنی اذیت سے دو چار کر سکتا ہے۔ محتاط زندگی گزاریں
کیونکہ یہ اللہ پاک کا وہ تحفہ ہے جو سب کو صرف ایک بار ہی عطا کیا گیا ہے۔
رشتوں، جذبات و احساسات کی قدر کریں، خوش رہیں اور خوش رہنے دیں۔
|