زندگی رواں دواں تھیں کہ اچانک مشین کے خالق کو خیال
آیاایک ایسی مشین کیوں نہ بنائی جائے جس سےکائنات میں روشنی بھی ہو ،ارتقا
بھی ،اور اسے اپنے تابع بھی رکھا جاسکے۔ سو خالق نے مشین بنا کر کل پرزوں
سمیت زمینی کاری گروں کے حوالے کر دی۔ پہلا کاری گر اس مشین کی معصوم صورت
سے بہت متاثر ہوا اسے ناز و نعم کے ساتھ پروان چڑھایا ،اور اسے صفائی
ستھرائی اور مناسب تیل ڈال کر اس کے تمام پرزوں کی نشو ونما کا خیال کیا
مشین کی صورت خوبصورت سے خوبصورت ہوتی چلی گئی اور وہ ایک ایسی رومانوی شکل
اختیار کر گئی کہ بے اختیار کئی نوجوان کاری گر اس کی جانب متوجہ ہوئے ۔
سماجی اقدار کے بموجب پرانے کاری گر نے تمام تر لوازمات کے ساتھ مشین کونئے
کاریگر کے حوالے کر دیا ۔نئے کاری گر نے مشین کو گھر لا کر ایک طرح سے
پھینک دیا۔ اسے کبھی لگا ہی نہیں مشین بھی کوئی وجود رکھتی ہے ۔ اسے دیکھ
بھال کی مسلسل ضرورت ہے اور خاص طور پر تیل کی ۔ جو اس کی مناسب نشوونما کے
لیے ضروری ہے ، سو مشین چلتی رہی اور بالاآخر کار ایک روز مشین پرزے پرزے
ہو کر بکھر گئی ۔
عصمت نے یہ کہانی ایک رسالے میں پڑھی تھی نہ جانے اس کو کیوں یہ خیال آیا
کہ وہ بھی ایک مشین ہے ، باپ کے گھر پیدا ہوئی اور ناز و نعم میں پلنے
کےبعد آج شوہر کے گھر میں لاچاری کی زندگی گزار رہی ہے ۔ شادی کے پہلے دو
چار مہینے بھی اس کا شوہر عاصم اس کا خیال نہ رکھ پایا اور اسے اپنے گھر
میں معمولی نوکرانی کا درجہ دے دیا۔ ایک سال میں چار مرتبہ مرتے مرتے بچی
مگر اپنی کوکھ میں کوئی نمو کا بیج زندہ نہ رکھ پائی ۔ عورت کیا ہے ،؟ وہ
اکثر سوچتی پھر اسے مشین کی کہانی یاد آتی ۔ مشین کے خالق نے کیا سوچا ہو
گا کہ آخر کار مشین کا مقدر ٹکڑے ٹکڑے ہونا ہی لکھا ہے ۔
عصمت کا مقدر کیا ہے؟ کیا خالق جانتا ہے؟ یا زمینی کاری گر؟
پھر ایک دن اچانک عصمت کو آسمانی خالق سے نوید مل ہی گئی کہ اس کی کھیتی
بھی بار آور ہو رہی ہے اس نے بہت تمنا کی منتیں مرادیں مانگیں کہ اسے مشین
کی صورت نہیں بلکہ کاریگر کی صور ت چاہیے ۔ سو اس کے حصے میں پانچ کاری گر
لکھ دیے گئے جنھیں اس نے چاؤ سےپالا پوسا، بڑا کیا ، اور اپنی من پسند
لڑکیوں سےبیاہ دیا۔
زندگی مسلسل رواں دواں رہی عصمت کی زندگی میں سکھ نہ عاصم نے لکھا نہ پانچ
بیٹوں نے ، اب اسے بڑھاپے میں اکثر خیال آتا کہ بیٹی بے شک مشین کی طرح
ہوتی مگر زندگی کے آخر دم تک چلتی تو رہتی ۔ اس کی قدر تو کرتی ۔ مشکل وقت
میں ماں کے کام آتی ان پانچ بیٹوں نے کون سا ماں کو کچھ دے دیا تھا ۔ کچھ
بھی نہیں ۔
زندگی کا آخری وقت تھا جب عاصم کی وفات ہوئی تو عصمت کے وجود میں ایک زلزلہ
بھر گیا جس نے اس کے تمام وجود کو دہلا دیا ۔ کم سے کم عاصم اسے بارش دھوپ
اور زمانے کی سختی سے تو محفوظ رکھ رہا تھا ۔
اب عدم تحفظ کے احساس سے وہ کبھی ایک بیٹے کی جانب دیکھتے تو کبھی دوسرے
بیٹے کی جانب ۔
مگر کوئی بیٹا اسے مستقل ساتھ رکھنے پر آمادہ نہ ہوا۔ سو اس کی تقدیر کا
اگلا فیصلہ ہو ا، مشین بے کار ہو چکی ہے کسی گودام میں ، کسی سٹور میں ،
کسی برآمدے میں ، یا فالتو کباڑ کے ساتھ منتقل کر دی جائے۔
اب عصمت کبھی ایک بیٹے کے در پر کبھی دوسرے بیٹے کے در پر ، کبھی در بدر۔
مشین ٹکڑوں میں بٹ گئی اور عصمت بخروں میں۔
|