والدین اپنے بیٹوں کی تربیت کیوں غافل ہیں؟

پاکستان کے ہر شہر و گاؤں کراچی، لاہور، اسلام آباد ہویا پسماندہ علاقے ہر جگہ بنت ہوا ہوس زدہ جنسی درندوں کی ہوس کی بھینٹ چڑھ رہی ہے، پاکستان میں یوں تو جنسی زیادتی کے واقعات تقریباً ہر روز ہی ہورہے ہیں لیکن کچھ ایسے واقعات ہوتے ہیں جو پرنٹ و الیکٹرونک میڈیا کی زینت بننے کے بعد زبان زدعام ہوجاتے ہیں، مختاراں مائی، زینب، مروا اور لاہور موٹر وے پر عصمت دری جیسے ان گننت واقعات نے پاکستانی معاشرے کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے اور یہ ہمارے ملک پر انتہائی بدنما داغ چھوڑے ہیں- لیکن معاشرے میں ایسے واقعات کو درندگی و جہالت سے منسوب کرکے ان پر مٹی ڈال دی جاتی ہے۔

آج پاکستانی معاشرہ اپنی ذہنی پسماندگی کی انتہائی نیچی غلیظ زمین درگو میں انحطاط پذیر ہے، گھروں میں بھی بہنیں بیٹیاں محفوط نہیں ،ہمارے معاشرے کے جنسی ناسور قبر میں دفن مردہ عورت ،اسپتال میں پڑی مریضہ ،برقع پہنے لڑکی ،دارالامان میں رہنے والی، بس، اسکول، آفس بچوں کے ساتھ ماں، چار ماہ کی بچی، خواجہ سراء اپنی بہن اور بیٹی ،خاندان کی عورتوں اور بے زبان جانوروں کو بھی اپنی ہوس اور درندگی کا نشانہ بنانے سے نہیں چوکتے۔

پاکستان میں جنسی جرائم پر سزائیں تو موجود ہیں لیکن کمزور دفعات اور عدم شواہد کی بناء پر مجرم آزاد ہوجاتے ہیں اور واقعات کے حوالے سے اگر طبی ماہرین سے رائے لی جائے تو زیادتی کے واقعات میں جنسی اطمینان کا کوئی تعلق نہیں ہے یہ محض ایک ذہنی تسکین کا ذریعہ ہے جس میں فعل مفعول کو اذیت دیکر سکون محسوس کرتا ہے

مذہب معاشروں میں سزاؤں کا مقصد اصلاح ہوتا ہے لیکن ہمارے ملک میں انصاف کا نظام کمزور ہونے کی وجہ سے یہاں چھوٹا سے چور نظام کی مہربانی سے بہت بڑا مجرم بن کر جیل سے نکل رہا ہے۔ یہاں اگر ہم سزاؤں کے بجائے اصلاح اور تربیت پر توجہ دیں تو شائد معاشرے میں کافی حد تک تبدیلی ممکن ہے۔ والدین بیٹیوں کی حفاظت ضرور کریں لیکن بیٹوں کی تربیت بھی یقینی بنائیں۔

کرکٹ کا ایک واقعہ ہے کہ چند سال قبل جنوبی افریقہ کے سابق کرکٹر ہاشم آملہ سے خاتون کمنٹیٹر بات کررہی تھی تو ہاشم آملہ نظریں جھکاکر بات کررہے تھے کیونکہ سامنے بیشک خاتون تھی لیکن اپنی نظروں کا جواب انہیں خود دینا تھا۔ ہم متاثرین پر لباس اور بے حیائی کا الزام لگا کر بری الزمہ نہیں ہوسکتے، ہمیں اپنے بیٹوں کویہ سکھانے کی ضرورت ہے کہ سامنے چاہے جیسی بھی خاتون ہو جس حال میں بھی ہو، ہمیں اپنے ایمان کی حفاظت خود کرنی ہے۔ ایسا نہیں کہ سامنے والی خاتون کے لباس کی وجہ سے آپ اس کی عزت تار تار کردیں۔ اپنے بیٹوں کو سکھائیں کہ آپ نے سامنے والے کا نہیں بلکہ اپنے اعمال کا جواب دینا ہے اور اپنے بیٹوں پر کڑی نظر رکھیں تاکہ آپ کے بچے مادر پدر آزاد ہوکر کسی کی بیٹی کی عزت تار تار نہ کریں۔

 

انجینئر! شاہد صدیق خانزادہ
About the Author: انجینئر! شاہد صدیق خانزادہ Read More Articles by انجینئر! شاہد صدیق خانزادہ: 354 Articles with 144595 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.