کچھ لوگ زمانے میں ایسے بھی ہوتے ہیں - خدمت ،عظمت اور حب الطنی کا نشان ڈاکٹر طاہر علی جاوید اور ڈاکٹر فوزیہ اشرف

کچھ لوگ زمانے میں ایسے بھی ہوتے ہیں جو درد دل رکھتے ہیں تو اپنے کاموں سے ثابت بھی کرتے ہیں انکے قول و فعل میں تضاد نہیں ہوتا اور نہ ہی اپنی معصوم شکل سے کسی کو دھوکہ دیتے ہیں بلکہ عوام کا دکھ درد رکھنے والے دیوانوں کی دنیا کا عالم ہی نرالا ہوتا ہے جو اپنا خوشیاں قربان کرکے عوام کی خدمت کرنے میں ہی اطمینان محسوس کرتے ہیں بہت کم ایسے لوگ ہیں جو دن رات اسی کوشش میں رہتے ہیں کہ کسی نہ کسی طریقے سے انکے ہاتھوں بھلائی اور خیر کا کام ہو جائے ویسے بہت کم دیکھنا میں آیا ہے کہ میاں بیوی مل کر خدمت کا مشن سر انجام دے رہے ہوں اکثر ہوتا یہ ہے کہ گھر میں سے ایک بندہ عوامی خدمتگار بن جائے تو دوسرا اسے اس کام سے روکتا ہے کہ خومخواہ وقت ضائع کررہے ہو یہی وقت گھر میں بچوں کو دو اگر خو ش قسمتی سے میاں اور بیوی دونوں مخلوق خدا کی خدمت کے مشن پر لگ جائیں تو پھر انکے ہاتھوں ایسے ایسے کام سر انجام ہونا شروع ہوجاتے ہیں جو ایک مثال بن جاتے ہیں اسی طرح کا ایک خوبصورت جوڑا ڈاکٹر طاہر علی جاوید اور ڈاکٹر فوزیہ اشرف کی شکل میں آج ہمارے درمیان موجود ہے ہم سے سے اکثر لوگ ان کے نام سے بھی واقف نہیں ہونگے لیکن ان کے کام ایسے ہیں کہ ہر بچہ ،جوان اور بوڑھا ان سے بخوبی واقف ہے اور ہم سے اکثر لوگ اپنی جان بچ جانے پر دل کی گہرائیوں سے انکے لیے دعاگو بھی ہوتے ہیں ڈاکٹر طاہر علی جاوید کے ویسے تو بہت سے کارنامے ہیں لیکن پاکستان کی دکھی ،مجبور ،بے بس اور لاچار عوام کے لیے جو کام انہوں نے ریسکیو 1122بنا کر کردیا تھا وہ لاجواب ہے انکی اس خدمت پر میں نے پہلے بھی ایک بار تفصیل سے لکھا تھا کہ جب ڈاکٹر طاہر علی جاوید چوہدری پرویز الہی دور میں وزیر صحت ہوا کرتے تھے تب انہوں نے چوہدری پرویز الہی کو پنجاب میں ریسکیو 1122کے نام سے ایک ایمرجنسی ایمبولینس سروس شروع کرنے کا مشورہ دیا تھا جسے انہوں نے یہ کہہ کر فارغ کردیا کہ ہر ہسپتال میں ایمبولینس موجود ہے نئی سروس بنانے کی کیا ضرورت ہے خیر اس ایمبولینس سروس کو شروع کروانے میں ڈاکٹر صاحب کو بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اس وقت کے صدر جنرل پرویز مشرف کے ساتھ بھی یہ آئیڈیا ڈسکس ہوا تو انہوں نے اس پروگرام کے لیے فورا فنڈز جاری کردیے تب سے لیکر آج تک اس ایمبولینس سروس نے حیران و پریشان کررکھا ہے ایدھر ایکسیڈنٹ ہوا اور ادھر ٹون ٹون کرتی ایمبولنس پہنچ گئی فورا متاثرہ شخص کو طبی امداد دینے کے ساتھ ہی کسی نہ کسی نزدیکی ہسپتال کی طرف شوٹر بھاگنا شروع کردیتی ہے اس ایمبولینس میں سوار عملہ بھی پورا کاریگر ہوتا ہے جو خوش دلی سے مریض کی جان بچانے کی سر توڑ کوشش کرتارہتا ہے اس ایمبولینس کا کمال یہ بھی ہے کہ گلی محلوں سے ایسے مریضوں کو بھی ہسپتال پہنچانے کا کام کرتی ہے جو پیسے نہ ہونے کے سبب کسی بھی ایمرجنسی کی صورت میں ہسپتال تک بھی نہیں پہنچ سکتے خاص کر بچے کی پیدائش سے پہلے ماں کو بروقت کسی زچہ بچہ سنٹر تک لے جانا بھی انہی خدائی خدمت گاروں کا ہی کام ہے اور یہ سب کچھ ممکن ہوا ہے تو صرف ڈاکٹر طاہر علی جاوید کی بدولت اور انہیں بھی یہ کام شروع کرنے کا مشورہ انکے بیٹے نے دیا تھا کہ بابا آپ وزیر ہیں تو پھر امریکہ کی طرز پر یہاں ایمبولینس شروس شروع کیوں نہیں کرواتے اسی طرح انکی بیوی ڈاکٹر فوزیہ اشرف بھی کمال کی خاتون ہیں انکے نام سے بھی ہم لوگ اتنا واقف نہیں ہیں لیکن انکے کام نے پوری دنیا میں پاکستان کا ڈنکا بجا دیا اور وہ کام انہوں نے اس وقت کیا جب پوری دنیا لاک ڈاؤن ہو گئی تھی لوگ ایک انجانے خوف سے گھروں میں بیٹھ گئے تھے کسی کو یاد ہو کہ نہ ہو لیکن مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب ایک خطرناک اور موذی وبا کرونا نے دنیا سمیت پاکستان میں پنجے گاڑ لیے تھے تو اس وقت ڈاکٹر فوزیہ اشرف ہی تھی جنہوں نے کرونا ٹیسٹ ایجاد کیا اور وہ بھی اتنا سستا کہ مفت جیسا تھا اسی ٹیسٹ سے ہمیں معلوم ہوتا تھا کہ کرونا ہے یا عام بخار ڈاکٹر فوزیہ اشرف اور انکے خاوند ڈاکٹر طاہر علی جاوید دونوں اپنے اپنے شعبے میں امریکہ سے پی ایچ ڈی ہیں اور وہاں کی شاندار نوکریوں کو چھوڑ کر پاکستان اس لیے آئے تھے کہ اپنے لوگوں کی خدمت کرسکیں اسی لیے تو کہتے ہیں کہ دیوانوں کی دنیا کا عالم ہی نرالا ہے جو ہنستے ہیں تو دنیا ہنستی ہے ڈاکٹر فوزیہ اشرف اس وقت جناح ہسپتال کی اس پی سی آر لیب کی انچارج ہیں جو خود انہوں نے بنوائی تھی جہاں کرونا کے ٹیسٹوں کا آغاز ہوا اور آج دنیا بھر کے تمام ٹیسٹ اس لیبارٹری میں مفت ہوتے ہیں ایسے عوامی خدمتگاروں کی موجودگی میں بھی ہمارے ملک کی کشتی کسی بھنور میں پھنسی ہوئی جو نکلنے کا نام ہی نہیں لے رہی اور رونابھی اسی بات کا ہے کہ کشتی کے محافظ ہی کشتی کو ڈبورہے ہیں جو اپنے کپڑے بیچ کر عوام کی خدمت کرنے کی باتیں کرتے تھے آج انہی لوگوں نے عوام کو ننگا کرکے تگنی کا ناچ نچوانا شروع کررکھا ہے پاکستان کی سیاسی تاریخ میں بہت کم ایسے لوگ ہیں جو اپنے دور حکومت میں کوئی ایک ایسا کام کرگئے ہوں جنہیں رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے سوائے ڈاکٹر طاہر علی جاوید کے ورنہ تو سب کی کرپشن کہانیاں ہی سننے کو ملی نہیں یقین تو آج کے صدر پاکستان جناب آصف علی زرداری اور آج کے ہی وزیر اعظم جناب میاں شہباز شریف کی وہ تقریریں یو ٹیوب سے نکال کر سن لیں جس میں یہی دونوں ایک دوسرے کو لاہور اور لاڑکانہ کی سڑکوں پر گھسیٹنے کی باتیں عوامی جلسوں میں کیا کرتے تھے اور تو اور پیٹ پھاڑ کر لوٹی ہوئی دولت بھی نکالنے کے بلندوبانگ دعوے کیے جاتے تھے اس وقت کوئی علی بابا چالیس چور تھا تو کوئی منی لانڈرر تھا ایک دوسرے کو گریبان سے پکڑنے والوں کے جب مفادات اکٹھے ہوئے تو پھر یہ ایک دوسرے کے گلے مل گئے اور عوام نے ایک دوسرے کے گلے کاٹنے شروع کردیے ابھی کل ہی کی بات ہے گوجرانوالہ میں بجلی کا بل زیادہ آنے پر سگے بھائی نے اپنے چھوٹے بھائی کی شہ رگ کاٹ ڈالی ایک وہ لوگ ہیں جنکی کوششوں سے انسان موت کے منہ میں جانے سے صاف بچ نکلتا ہے اور ایک یہ لوگ ہیں جنکی وجہ سے لوگ موت کے منہ میں جارہے ہیں خیر میں بات کررہا تھا انسانیت کی اس لازوال خدمت کی جو ڈاکٹر طاہر علی جاوید اور انکی بیگم ڈاکٹر فوزیہ اشرف نے شروع کررکھی ہے لاہور سے شروع ہونے والی ریسکیو 1122 ایک ایمرجنسی سروس تھی جواس وقت ملک بھر میں خدمت کا کام کررہی ہے یہ سروس پنجاب، کے پی کے، بلوچستان، سندھ، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں اسی طرح جوش اور ولولے سے کام کرنے میں مصروف ہے جیسے اس نے پہلے دن لاہور میں کیا تھا اس سروس کے حصول کے لیے پاکستان میں کسی بھی فون سے 1122 پر کال کرکے اس سروس تک رسائی حاصل کی جاسکتی ہے یہ ایمرجنسی سروس 2006 کے پنجاب ایمرجنسی سروس ایکٹ کے تحت قائم کی گئی تھی تاکہ ہنگامی حالات جیسے کہ آگ، ریسکیو اور ہنگامی طبی خدمات فراہم کی جا سکے ہنگامی صورتحال کے انتظام اور روک تھام کو یقینی بنانے اور عوامی تحفظ کو خطرے میں ڈالنے والے خطرات کے تدارک کے لیے اقدامات کی سفارش کرنے کے لیے پنجاب ایمرجنسی کونسل اور ڈسٹرکٹ ایمرجنسی بورڈز تشکیل دیے گئے ہیں ڈاکٹر رضوان نصیر ریسکیو 1122 پاکستان کے موجودہ اور پہلے ڈائریکٹر جنرل ہیں جنہیں ڈاکٹر طاہر علی جاوید نے ہی انٹریو کے بعد رکھا تھا اور انہوں نے بھی اپنی کارکردگی سے ثابت کردیا کہ ڈاکٹر صاحب کا انتخاب غلط نہیں تھا جنکی کوششوں اور کاوشوں سے یہ سروس پاکستان کی سب سروسز سے بازی لے گئی اور دوسرے صوبوں کی مجبوری بن گئی 2004 سے پہلے پاکستان میں ہنگامی طبی نظام کا کوئی منظم انتظام نہیں تھا یہی وجہ تھی کہ ریسکیو 1122 کو ایک پیشہ ور پری ہسپتال ایمرجنسی سروس کے طور پر شروع کیا گیا تھا اور یہ روس ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں اوسطاً سات منٹ کا رسپانس ٹائم حاصل کرنے میں بھی کامیاب رہی اس کی کامیابی کے کچھ اہم عوامل میں گاڑیوں کی مقامی تیاری، ہنگامی طبی تکنیکی ماہرین کی تصدیق کے لیے انسٹرکٹرز کی تربیت، مقامی سیاق و سباق کے مطابق تربیتی مواد کو اپنانا، اور متحدہ کمانڈ ڈھانچے کے تحت فائر اینڈ ریسکیو سروس کے ردعمل کو شامل کرنے کے لیے شاخیں بنانا بھی شامل ہیں ریسکیو 1122 اس وقت 110 ملین سے زیادہ آبادی والے پنجاب کے تمام اضلاع میں کام کر رہا ہے اور پاکستان کے دیگر صوبوں کو تکنیکی مدد فراہم کر رہا ہے ریسکیو 1122 میں ایمرجنسی ایمبولینس، ریسکیو اور فائر سروسز اور کمیونٹی سیفٹی پروگرام شامل ہیں ڈائریکٹر جنرل کا دفتر بنیادی طور پر صوبائی مانیٹرنگ سیل کے ذریعے یکسانیت اور معیار، تربیت، منصوبہ بندی، تحقیق اور ترقی کو یقینی بنانے کے لیے مجموعی نگرانی کا ذمہ دار ہے اس وقت ریسکیو 1122 دنیا میں مربوط ایمرجنسی سروسز کے ماڈل کی نمائندگی کر رہا ہے شائد انہی لوگوں کے لیے ساغر صدیقی نے کہا تھا کہ
کچھ ایسے دیوانے ہیں سورج کو پکڑتے ہیں کچھ لوگ عمر ساری اندھیرا ہی دھوتے ہیں
میرے درد کے ٹکڑے ہیں یہ شعر نہیں ساغر ہم سانس کے دھاگوں میں زخموں کو پروتے ہیں

 

rohailakbar
About the Author: rohailakbar Read More Articles by rohailakbar: 830 Articles with 616730 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.