جمعہ نامہ: معیشت کا نظامِ رحمت و زحمت

ارشادِ ربانی ہے:’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جو مال تم نے کمائے ہیں اور جو کچھ ہم نے زمین سے تمہارے لیے نکالا ہے، اُس سے بہتر حصہ راہ خدا میں خرچ کرو‘‘۔ اہل ایمان کو تجارت، ملازمت یا زراعت کی کمائی سے انفاق فی سبیل اللہ کرتے وقت اللہ تعالیٰ کی رضاجوئی کو پیش نظر رکھتے بہترین مال خرچ کرنےکی تاکید کی گئی :’’ ایسا نہ ہو کہ اس کی راہ میں دینے کے لیے بری سے بری چیز چھانٹنے کی کوشش کرنے لگو، حالانکہ وہی چیز اگر کوئی تمہیں دے، تو تم ہرگز اُسے لینا گوارا نہ کرو گے الّا یہ کہ اس کو قبول کرنے میں تم اغماض برت جاؤ‘‘۔ یعنی لینے والے کی جگہ خود کو رکھ کر غور کرو۔ایک زمانے میں مکیش اور انل امبانی یکساں ملکیت کے مالک تھے مگر اب ایک بھائی ایشایا کا امیر ترین آدمی ہے اور دوسرے کا دیوالیہ پٹ چکا ہے اس لیے یہ کوئی نہیں جانتاکہ کب دینے والا شخص لینے والا بن جائے ؟ گھٹیا مال کوراہِ خدا میں خرچ کرنے کی وجہ یہ ہے ’’ شیطان تمہیں مفلسی سے ڈراتا ہے اور شرمناک طرز عمل اختیار کرنے کی ترغیب دیتا ہے، مگر اللہ تمہیں اپنی بخشش اور فضل کی امید دلاتا ہے اللہ بڑا فراخ دست اور دانا ہے ‘‘۔ وہ انفاقِ فی سبیل اللہ کے بدلے بھرپور نوازے گا۔

حقیقی فلاح و خسران کی معرفت کرانے والی حکمت کے بغیر مندجہ بالا معقول رویہ اختیار کرنا ناممکن ہے ۔ اس کی بابت فرمایا گیا ’’(اللہ) جس کو چاہتا ہے حکمت عطا کرتا ہے، اور جس کو حکمت ملی، اُسے حقیقت میں بڑی دولت مل گئی اِن باتوں سے صرف وہی لوگ سبق لیتے ہیں، جو دانشمند ہیں ‘‘ یعنی مال و دولت کے مقابلے حکمت کو فضیلت حاصل ہے ۔ یہی حکمت اس حقیقت کا ادراک کراتی ہے کہ :’’۰۰۰ خیرات میں جو مال تم خرچ کرتے ہو وہ تمہارے اپنے لیے بھلا ہے آخر تم اسی لیے تو خرچ کرتے ہو کہ اللہ کی رضا حاصل ہو تو جو کچھ مال تم خیرات میں خرچ کرو گے، اس کا پورا پورا اجر تمہیں دیا جائے گا اور تمہاری حق تلفی ہرگز نہ ہوگی ‘‘۔اخروی انعام و اکرام کے ساتھ ا صحابِ خیر کویہ بشارت بھی دی گئی کہ ’’ جو لو گ اپنے مال شب و روز کھلے اور چھپے خرچ کرتے ہیں ان کا اجر ان کے رب کے پاس ہے اور اُن کے لیے کسی خوف اور رنج کا مقام نہیں‘‘۔ وہ دنیا و آخرت دونوں میں مطمئن اور خوش و خرم رہتے ہیں۔

اس کے برعکس سود خور کی کیفیت اس طرح بیان ہوئی ہے کہ :’’ مگر جو لوگ سود کھاتے ہیں، اُ ن کا حال اُس شخص کا سا ہوتا ہے، جسے شیطان نے چھو کر باؤلا کر دیا ہو اور اس حالت میں اُن کے مبتلا ہونے کی وجہ یہ ہے کہ وہ کہتے ہیں: "تجارت بھی تو آخر سود ہی جیسی چیز ہے"، حالانکہ اللہ نے تجارت کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام ‘‘۔ مال کی محبت میں حلال و حرام کا فرق بھول کر دنیا کے پیچھے پاگلوں کی طرح بھاگنے والوں کو ان کے انجام بد سے اس طرح خبرادار کیا گیا کہ :’’لہٰذا جس شخص کو اس کے رب کی طرف سے یہ نصیحت پہنچے اور آئندہ کے لیے وہ سود خوری سے باز آ جائے، تو جو کچھ وہ پہلے کھا چکا، سو کھا چکا، اس کا معاملہ اللہ کے حوالے ہے اور جو اِس حکم کے بعد پھر اسی حرکت کا اعادہ کرے، وہ جہنمی ہے، جہاں وہ ہمیشہ رہے گا‘‘۔ دنیا کے اندر انفاق رحمت اور سود کی لعنت کا یہ فرق بتایاگیا کہ :’’ اللہ سود کا مٹھ مار دیتا ہے اور صدقات کو نشو و نما دیتا ہے ‘‘۔

سرمایہ دارانہ نظام ِ معیشت نے سود کی بنیا پر عالم انسانیت کو اپنے پنجے میں جکڑ رکھا ہے۔حال میں پیش کردہ بجٹ کے مطابق ہندوستان جیسےتیسری سب سے بڑی معیشت کا خواب دیکھنے والے ملک پر فی الحال 172.37 لاکھ کروڈ کا قرض ہے جو اس مالی سال کے خاتمہ پر بڑھ کر 185.27 لاکھ کروڈ ہوجائے گا یعنی ہر ہندوستانی شہری جو اب ایک لاکھ بیس ہزار روپیہ کا مقروض ہے اس پر دس ہزار کا قرض بڑھ جائے گا کیونکہ ملک کی آمدنی تو ہے32.07 لاکھ کروڈ اور خرچ ہوگا 48.21لاکھ کروڈ۔ بجٹ کے اس خرچ میں عوام کےٹیکس کا تقریباً دس لاکھ کروڈ ان کی فلاح و بہبود کے بجائے سود چکانے پر خرچ ہوجائےگا یعنی قرض لے کر سود چکایا جائے گا ۔ یہ قرض چونکہ چین سے متوقع ہے اس لیے گلوان اور ارونا چل پر اس کے قبضے کا انکار اور اس پر خاموشی جاری رہے گی ۔ وطن عزیز میں سودی سرمایہ داری نے غربت و فراغت کے درمیان ایک عظیم کھائی بنادی ہے جو 1920کے بعد سب سے زیادہ ہے۔ہندوستان جیسی دنیا کی پانچویں سب سے بڑی معیشت میں کل دولت کا 40 فیصد حصہ صرف ایک فیصد لوگوں کی تجوری میں بند ہے اور جملہ کمائی کا 22.6 فیصد ان مٹھی بھر لوگوں کی جیب میں چلا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھکمری کا شکار ہونے والوں کی سب سے بڑی تعداد اسی ملک میں رہتی اور بستی ہے۔

وطن عزیز میں جہاں ایک طرف 80 کروڈ لوگ پیٹ بھرنے کے لیے سرکاری امداد کے محتاج ہیں وہیں مکیش امبانی اپنے بیٹے کی شادی پر5 ہزار کروڈ خرچ کردیتا ہے اور وزیر اعظم وہاں آشیرواد دینے کے لیے پہنچ جاتے ہیں۔ ارشادِ قرآنی ہے :’’اور اللہ کسی ناشکرے بد عمل انسان کو پسند نہیں کرتا‘‘۔ ایسے میں عالم انسانیت کو خبر دار کیا جارہا ہے کہ :’’جو لوگ ایمان لے آئیں اور نیک عمل کریں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں، اُن کا اجر بے شک ان کے رب کے پاس ہے اور ان کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہیں۔ اے لوگو جو ایمان لائے ہو، خدا سے ڈرو اور جو کچھ تمہارا سود لوگوں پر باقی رہ گیا ہے، اسے چھوڑ دو، اگر واقعی تم ایمان لائے ہو لیکن اگر تم نے ایسا نہ کیا، تو آگاہ ہو جاؤ کہ اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے تمہارے خلاف اعلان جنگ ہے اب بھی توبہ کر لو (سود چھوڑ دو) تو اپنا اصل سرمایہ لینے کے تم حق دار ہو نہ تم ظلم کرو، نہ تم پر ظلم کیا جائے‘‘۔ سود سے دولت کا ارتکاز ہوتا ہے اور انفاق و خیرات کی تقسیم سےغریب خودکفیل ہوتے ہیں ۔ اس لیے سسکتی بلکتی عالم انسانیت کے سرمایہ دارنہ جبرو استحصال سے نجات کا وسیلہ اسلامی نظامِ معیشت ہی ہے۔

 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2104 Articles with 1340507 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.