قومی ترقی میں بچوں کا کردار

ہم سب کے کانوں نے یہ جملہ ضرور سنا ہوگا" بچے من کے سچے" اور اگر بچے من کے سچے ہوں اور ساتھ میں دھن کے پکے بھی ہوں تو اپنی محنت اور لگن سے نہ صرف اپنے والدین کا نام روشن کرتے ہیں بلکہ ملک و قوم کا فخر بھی بنتے ہیں۔

قوم کے بچوں کو مستقبل کا معمار کہا جاتا ہے۔ اگر اْنھیں صحیح سمت میں تربیت دی جائے تو وہ معاشرے کی تعمیر و ترقی کے لئے مضبوط بنیاد اور ستون بن کر ابھریں گے۔ دنیا کی ترقی یافتہ قومیں اپنے بچوں کو بہترین تعلیم و تربیت کے مواقع فراہم کرتی ہے۔ اُن کے برعکس ہم جیسے ترقی پذیر ممالک میں میسر تعلیمی و تخلیقی مواقعے کس معیار کے میسر ہیں قوم کے بچوں کو اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ لیکن ان محدود وسائل میں رہ کر بھی ہماری قوم کے نونہال ذہنی و تخلیقی صلاحیتوں میں کسی سے کم نہیں!

سب سے بڑی مثال ہماری قوم کی پیاری بیٹی "ارفع کریم" ہے۔ 2004 میں جب وہ صرف نو سال کی تھی اس نے دنیا کی کم عمر ترین مائیکرو سافٹ سرٹیفائیڈ پروفیشنل کا اعزاز اپنے نام کیا!

ٹیکنالوجی کے شعبے میں اپنا نام روشن کرنے والی یہ قوم کی بیٹی 2012 میں اس دنیا سے رخصت ہوگئی مگر ارفع کریم کا نام ٹیکنالوجی کی دنیا میں آج بھی ذندہ ہے۔ آج وہ ہم میں نہیں ہے لیکن اس کا مشن آج بھی جاری رکھنے کے لیے دیگر مائیکرو سافٹ پروفیشنلز میدان عمل مین اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔

ایک نام ہے اسلام آباد کے 18 سالہ طالبعلم محمد ہارون طارق کا جس نے کیمبرج کے امتحان میں 6 عالمی ریکارڈ قائم کئے، ڈیڑھ سو ملکو ں کے ڈیڑھ کروڑ طالبعلموں میں قوم کے بیٹے ہارون طارق نے دنیا پر ثابت کر دیا کہ وہ ایک غیر معمولی شخصیت ہیں۔ اس نے مختلف مضامین میں O/A دونوں سطحوں میں 87 A حاصل کرنے کا عالمی ریکارڈ قائم کیا جس کے بارے میں شاید زیادہ تر لوگوں نے نہیں سنا ہوگا۔عالمی ریکارڈ قائم کر کے ملک و قوم کا سر فخر سے بلند کر کے دنیا کو یہ پیغام دیاہے کہ پاکستان کا ہر فرد ایک روشن ستارے کی مانند ہے ۔

ستارہ بروج اکبر ایک تعلیمی ماہر، متعدد عالمی ریکارڈ ہولڈر، اور گولڈ میڈلسٹ ہیں۔ وہ ایک ایسی بچی ہے جس نے پہلی بار پانچ سال کی عمر میں بڑے ہجوم کے سامنے اور قومی ٹیلی ویژن پر اپنی فصیح تقریر اور تقریری مہارت کے ساتھ ایک نشان بنایا۔ اس نے 11 سال کی عمر میں 5 مضامین میں O لیول پاس کرتے ہوئے کئی پاکستانی اور عالمی ریکارڈ بنائے۔ اس نے 13 سال کی عمر میں اپنا اے لیول مکمل کیا۔ اور یوں ملک و قوم کا سر فخر سے بلند کیا۔

2021 میں پاکستان کی کراچی سے تعلق رکھنے والی 4 سالہ عریش فاطمہ نے دنیا کی کم عمر ترین مائیکرو سافٹ پروفیشنل ہونے کا اعزاز حاصل کر لیا۔

آیان قریشی جس نے 2014 میں دنیا کے سب سے کم عمر مائیکرو سافٹ پروفیشنل ہونے کا اعزاز لیا جب وہ صرف 5 سال اور 7 ماہ کا تھا۔

2016 میں، محمد حمزہ شہزاد سات سال کی عمر میں دنیا کے سب سے کم عمر کمپیوٹر پروگرامر بن گئے۔

تعلیمی شعبے میں اور بھی بہت سے نام ہیں ، ایک نام کا ذکر کرنا ضروری ہے بین الاقوامی سطح پر جس نے شہرت حاصل کی اور دنیا کا سب سے بڑا اعزاز نوبل انعام جسے دنیا کا معتبر ترین ایوارڈ سمجھا جاتا ہے، یہ ایوارڈ سوات کی ملالہ یوسفزئی نے 17 سال کی عمر میں حاصل کیا،ملالہ یہ اعزاز پانے والی دنیا کی سب سے کم عمر فرد ہے۔ اس اعزاز میں اس کے شریک انڈیا سے کیلاش ستیارتھی ہیں جو بچوں کی تعلیم کے بہت بڑے حامی ہیں۔ ڈاکٹر عبد السلام کے بعد ملالہ نوبل انعام پانے والی دوسری جبکہ نوبل انعام برائے امن پانے والی پہلی پاکستانی بن گئی ہے۔اگرچہ پاکستان میں کچھ حلقوں میں ملالہ ایک متنازعہ شخصیت سمجھی جاتی ہے،لیکن نوبل انعام یافتہ ہونا بہرحال ایک حقیقت ہے، جس کی وجہ سے پاکستان دنیا کے کونے کونے میں پہچانا گیا! نا صرف تعلیمی میدان میں قوم کے بچوں نے پاکستان کا نام روشن کیا بلکہ کھیل کے میدان میں بھی کسی سے کم نہ رہے۔

مہک گل نے 12 سال کی عمر میں صرف ایک ہاتھ سے 45 سیکنڈ میں شطرنج کا ٹیبل قائم کرنے کا عالمی ریکارڈ اپنے نام کیا تھا۔

2016 میں 17 سالہ سمیل حسن جس نے سب سے کم عمری میں بین الاقوامی وڈیو گیم کے مقابلے میں فتح حاصل کی۔

اسلام آباد سے تعلق رکھنے والا سعد علی پاکستان کا کم عمر ترین پہلا فارمولا ون ریس ڈرائیور جس کئ بین الاقوامی مقابلوں میں کامیابی حاصل کی۔

قوم کے یہ بچے جنھوں نے تعلیمی ،تخلیقی اور کھیل کے میدان میں پاکستان کا نام روشن کیا اور کررہے ہیں جو مستقبل کے معمار بھی ہیں، مگر کچھ بچے ایسے بھی ہیں کہ جنہوں نے وطن اور اس کے لوگوں کے لئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا!

6جنوری 2014ء کو ابراہیم زئی کے اسکول میں ایک ہزار سے زائد بچے صبح اسمبلی میں کھڑے قومی ترانہ پڑھ رہے تھے ۔ ایک مشکوک شخص نے اسمبلی میں داخل ہونے کی کوشش کی۔ہنگو کے بنگش خاندان کے 9ویں کلاس کے 15سالہ صحت مند طالبعلم "اعتزاز حسن"نے اسے بھانپ لیا،اور اس نے ایک لمحہ ضائع کئے بغیر خود کش بمبار حملہ آور کو دبوچ لیا۔ اور اپنی جان پرکھیلتے ہوئے اسکی تباہ کن جیکٹ کو اپنا جسم پیش کر دیا ۔ اگر اعتزاز قربانی نہ دیتا تو سانحۂ آرمی پبلک اسکول پشاور کی طرح نہ جانے کتنے معصوم بچوں کا قتل عام ہو جاتا۔ اعتزاز حسن نے شہید ہو کر سینکڑوں ماؤں کی گودیں اُجڑنے سے بچالیں۔ حکومت کی طرف سے اعتزاز حسن کو بہادری اور جان نثاری پر ستارۂ شجاعت سے نوازا گیا۔ حقوق انسانی کے بین الاقوامی کمیشن نے بہادری کا عالمی ایوارڈ اس کے نام کیا ۔"ھیرالڈ "نے خود کش حملہ آور کو جان دیکر ناکام بنانے پر شہید طالب علم کو "پرسن آف دی ائیر "(اس سال یعنی 2014 کی بہترین شخصیت )منتخب کیاتھا۔

اسی طرح 80 کی دہائی میں پاکستان کا ایک عظیم بچہ "اقبال مسیح" جس کو ملکی تاریخ میں علم اور جبری مشقت سے آذادی کا ہیرو قرار دیا گیا ہے۔ بہت کم لوگ اس کے بارے میں جانتے ہیں۔ جو کام اور پیغام کئی ادارے اور بڑے بڑے نام ور لوگ نہ کرپائے وہ اس دلیر اور جواں ہمت بچے نے صرف اپنی بارہ سالہ زندگی میں کر دکھایا۔ اقبال مسیح 1983کو مریدکے گاؤں میں ایک غریب کیتھولک مسیحی گھرانے میں پیدا ہوا۔ اس کے والدین محنت مزدوری کرتے تھے۔ انہوں نے اپنے قرضے کے عوض چار سالہ اقبال کو بیگار کے لئے بیچ دیا، کئی سال وہ بیچارہ وہاں جبری مشقت کرتا رہا۔اپنے جیسے اور بچوں کے ساتھ اپنا بچپن قالین بنانے میں صرف کرتا گیا اور پھر ایک دن وہ اپنی قید سے فرار ہو گیا۔ اس وقت وہ دس سال کا تھا۔اس کو بی ایل ایل ایف (Bonded Labour Liberation Front) کی تنظیم نے پناہ دی۔ اس نے وہاں کی چار سالہ تعلیم محض دو سال میں مکمل کرلی تھی اور ان کے ساتھ اس نے بچوں کی جبری مشقت کے خلاف کئی بین الاقوامی فورمز پر بات کی۔ وہ امریکہ اور سویڈن تک کانفرنسز میں شریک ہوا اور اسے بین الاقوامی ایوارڈز بھی ملے۔

اٹلی میں کئی سکولوں کا نام اقبال مسیح کے نام پر رکھا گیا ہے۔ اقبال مسیح نے 10 سال کی عمر میں بچوں کی آزادی کی پہلی تحریک کی بنیاد رکھی۔اقبال ایک لیڈر بن چکا تھا۔ ایک دس سالہ لیڈر جس نے سرمایہ داروں کی فیکٹریوں اور بھٹوں سے ہزاروں بچوں کو آزاد کروایا۔ لیکن اس ننھے ہیروں کو16 اپریل 1995 میں صرف بارہ سال کی عمر میں گولیوں سے بھون دیا گیا کہا جاتا ہے کہ اس کے قتل میں چائلڈ لیبر مافیا کا ہاتھ تھا۔اب اس دن کو چائلڈ لیبر کے خلاف عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اقبال مسیح کو اس کی زندگی اور موت کے بعد بہت سے بین الاقوامی اعزازات سے نوازا گیا۔ اس کی جدوجہد کودیکھ کر کینیڈا کی ایک رفاہی تنظیم ’’فری دا چلڈرن‘‘ کا قیام عمل میں آیا۔ بین الاقوامی تنظیموں نے پاکستان میں کئی اسکول قائم کئے جو صرف اقبال مسیح کی جدوجہد کا نتیجہ تھی۔ امریکی کانگریس نے 2009 میں"اقبال مسیح ایوارڈ" کا اجراء کیا۔

حکومت پاکستان نے اقبال مسیح کے قتل کے 27 سال بعد اسے 23 مارچ 2022 کو تمغہ شجاعت کے اعلی سول اعزاز سے نوازا۔ پاکستان میں اس ننھے ہیرو نے چائلڈ لیبر کے خلاف جدوجہد کی جو شمع روشن کی تھی وہ آج بھی جاری و ساری ہے گَو کہ اس کی جدوجہد کو پاکستان میں بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ یہ وہ بچے تھے جو اپنی آنکھوں میں مستقبل کے سنہرے خواب سجائے ابدی نیند سو گئے۔
آج بھی ہمیں اپنی قوم کے بچوں سے روشن امید ہے!
نہیں ہے ناامید اقبالؔ اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی

Sabeen Abbas
About the Author: Sabeen Abbas Read More Articles by Sabeen Abbas: 5 Articles with 3949 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.