پیرس اولمپکس 2024ء میں نیزہ بازی کاہیرو ٭ ارشد ندیم٭

پاکستان کی1947ء کے بعد اب تک کی سب بڑی انفرادی فتح کے ہیرو نیزہ بازی کے ماہر " ارشد ندیم" ہیں۔ ایتھلیٹ ارشد ندیم کا پیرس اولمپکس 2024 ء میں نیزہ بازی کے مقابلے میں 92.97 میٹر کی شاندار ریکارڈ توڑ تھرو کر کے طلائی کا تمغہ اپنے نام کرکے تاریخ رقم کرنا۔ارشد ندیم نے نہ صرف اولمپکس مقابلے میں طلائی تمغہ(گولڈ میڈل) جیتا بلکہ 118 سالہ ریکارڈ بھی توڑ ڈالا

نیزہ بازی کاہیرو ٭ ارشد ندیم٭

پیرس اولمپکس 2024ء میں نیزہ بازی کاہیرو ٭ ارشد ندیم٭
تحریر: عارف جمیل
[email protected]

پاکستان کی1947ء کے بعد اب تک کی سب بڑی انفرادی فتح کے ہیرو نیزہ بازی کے ماہر " ارشد ندیم" ہیں۔
ایک لمحہ جو پاکستانی کھیل کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا وہ تھا پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر میاں چنوں سے تعلق رکھنے والے 27 سالہ ایتھلیٹ ارشد ندیم کا پیرس اولمپکس 2024 ء میں نیزہ بازی کے مقابلے میں 92.97 میٹر کی شاندار ریکارڈ توڑ تھرو کر کے طلائی کا تمغہ اپنے نام کرکے تاریخ رقم کرنا۔ارشد ندیم نے نہ صرف اولمپکس مقابلے میں طلائی تمغہ(گولڈ میڈل) جیتا بلکہ 118 سالہ ریکارڈ بھی توڑ ڈالا اور سب سے اہم پاکستان کیلئے اولمپکس میں 40 سال بعد طلائی تمغہ جیتا۔بے شک انسان کی محنت اور عزم کے ساتھ ساتھ جب اللہ تعالیٰ کی مدد بھی شامل ہو تو کوئی چیز ناممکن نہیں رہتی۔
اس شاندار کامیابی نے نہ صرف اُنھیں اولمپک چیمپیئن کا لقب عطا کیا بلکہ پاکستان کیلئے ایتھلیٹکس کے شعبے میں پہلی مرتبہ اولمپک تمغہ بھی حاصل کیا، جس نے اُنھیں قومی ہیرو اور ملک کے نوجوان کھلاڑیوں کے لیے ایک مثال بنا دیا۔
**ایک ریکارڈ برائے یادگار**
ارشد ندیم کی شاندار تھرو نے بیجنگ 2008 ء اولمپکس میں نروے کے آندریاس تھورکئیلڈسن کے 90.57 میٹر کے سابق اولمپک ریکارڈ کو توڑ دیا۔ شاندار اسٹیڈ ڈی فرانس اسٹیڈیم میں مقابلہ کرتے ہوئے ارشد ندیم نے اپنی مہارت اور عزم کا شاندار مظاہرہ کیا اور اپنے دیرینہ حریف اور دوست اِنڈیا کے نیرج چوپڑا کو شکست دی جنہوں نے 89.45 میٹر تک قابل ذکر تھرو کی لیکن ارشد ندیم کے تاریخی تھرو تک رسائی نہ حاصل کر پائے۔ اس طرح ندیم اولمپک کی تاریخ میں 90 میٹر کی حد عبور کرنے والے چوتھے کھلاڑی بن گئے اور نیزہ بازی کے کھیل کے ممتاز کھلاڑیوں کی صف میں شامل ہو گئے۔اِنڈین حریف نیرج چوپڑہ جنہوں نے دوسرے نمبر پر آکر چاندی کا تمغہ جیتا کی والدہ نے ارشد ندیم کی جیت پر کہا کہ وہ بھی ہمارا ہی ہے۔
**ملک کی اعلیٰ سطح پر تعاون و سہولتوں کا فقدان**
ارشد ندیم کی اس جیت پر اولمپک ایسویشن کی طرف سے 50ہزار ڈالر کا انعام اور اسکے علاوہ پاکستان کی مرکزی،صوبائی حکومتوں، اہم اداروں اور شخصیات کی طرف سے بھی بڑی بڑی رقوم اور انعامات دینے کا اعلان کیا جارہا ہے، بلکہ حکومت ِپاکستان نے یومِ آزادی پر اس اولمپک چیمپیئن کی تصویر والا خصوصی ٹکٹ بھی جاری کر دیا ہے۔ جبکہ اس جیت سے چند روز پہلے تک ارشد ندیم کی اس مقام تک پہنچنے کی داستان میں چند ذاتی نوعیت کے اُنکے تعلق رکھنے والے افراد کے تعاون کے علاوہ کوئی حصے دار نہیں تھا۔ملک کی اعلیٰ سطح پر تعاون اور سہولتوں کے فقدان کا انداز ہ پاکستان کے ارشد ندیم اور مد ِمقابل اِنڈیا کے نیرج چوپڑا کی سہولیات کا موازنہ کر کے کچھ اسطرح لگایا جا سکتا ہے کہ:
٭ سب سے پہلے تو ارشدندیم بین الاقوامی معیار کی جولین کے حوالے سے ملکی سطح پر مشکلات میں تھے۔
٭ پاکستانی حکام ماضی میں ارشد ندیم کو وہ تمام سہولیات دینے میں ناکام رہے جو اُنکے پائے کے دُنیا کے دیگر ایتھلیٹس کو ملتی ہیں۔
٭ بی بی سی کے مطابق ارشد ندیم کے پاس واحد جیولن بھی خراب ہو چکی تھی جس کے لیے وہ چندہ اکٹھا کر کے اس کو ٹھیک کرواتے رہے جبکہ دوسری طرف اُن کے حریف نیرج چوپڑا کو بھارتی حکومت نے ٹوکیو اولمپک سے پہلے 177 جیولن خرید کر دیے تھے۔
٭ اگر صرف نیر ج چوپڑا کی مثال دی جائے تو اِنڈین حکومت نے اُنھیں گزشتہ برس دسمبر 2023ء سے اس سال فروری2024ء تک جنوبی افریقہ میں ٹریننگ کروائی اور پھر مارچ تا مئی2024ء تک اُنھوں نے ترکی میں بھی ٹریننگ حاصل کی۔
٭ اِنڈیا کی حکومت نے 2021 ء اولمپکس سے قبل نیرج چوپڑا کی ٹریننگ پر سات کروڑ انڈین روپے لگائے تھے۔
٭ مارچ 2024 میں ارشد ندیم نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ جس جیولن کو وہ لینے کی کوشش کر رہے ہیں اُسکی قیمت سات سے آٹھ لاکھ روپے کے قریب ہے۔
٭ بی بی سی کے مطابق ہی نیرج چوپڑا فن لینڈ، امریکہ،برطانیہ، فرانس، پولینڈ اور سویڈن میں حکومتی خرچے پر ٹریننگ کے لیے جاتے رہتے ہیں اور اُنھوں نے اولمپک سے پہلے اپنا زیادہ تر وقت یورپ میں گزارا تھا جہاں وہ سویڈن میں جرمنی کوچ کے زیرِ نگرانی ٹریننگ کرتے رہے۔جبکہ ارشد ندیم پنجاب اسٹیڈیم میں محدود وسائل کے ساتھ اپنے کوچ اور ڈاکٹرز کی زیرِنگرانی ٹریننگ کرتے تھے۔
٭ پیرس الیکٹرک سے پہلے نیر چوپڑا نے پانچ بین الاقوامی مقابلوں میں حصہ لیا جبکہ ارشد ندیم نے صرف ایک بین الاقوامی ایونٹ میں حصہ لیا۔
**ایک خودساختہ چیمپیئن کی کہانی اور فخر ِعالم کا ٹویٹ**
ارشد کی کامیابی خود پر زور دینے، محنت و مشقت، اور غیر متزلزل عزم کا ثبوت ہے۔ اگرچہ انہیں کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جیسے حکومتی حمایت کی کمی اور تربیتی سہولیات کی عدم دستیابی۔ندیم کی یہ کہانی خودکی طاقت اور استقلال کا مظہر ہے۔ اُن کا یہ سفر بے شمار نوجوانوں کیلئے سبق ہے کہ کامیابی کی راہ میں ذاتی عزم اور لگن اہم کردار ادا کرتی ہے چاہے وسائل کی کمی کیوں نہ ہو۔
** فخر ِعالم کا ٹویٹ**
پاکستانی میڈیا شخصیت اداکار، گلوکار اور اینکر فخر ِعالم نے ارشد ندیم کی کامیابی پر بہت خوبصورت الفاظ میں ٹویٹ کیاشاید جسکے بعد کسی کو کچھ جاننے کی ضرورت نہیں! کہ:
٭٭کوئی مرکزی معاہدہ نہیں، کوئی غیر ملکی کوچ نہیں، ماہانہ تنخواہ میں اضافے کا کوئی مطالبہ نہیں، کوئی بین الاقوامی لیگ نہیں، کوئی سیل فون کمپنی، کوئی مشروبات کا برانڈ، کوئی بینکوں کے ملٹی ملین روپے کے اشتہاری معاہدے، کوئی ہیرا پھیری کرنے والا منیجر نہیں، کوئی مناسب تکنیکی مدد نہیں، کوئی مناسب جیولن کی سہولت نہیں، کوئی این او سی سیاست، کوئی اَنا، کوئی بہانہ نہیں ….بس" ایک حقیقی چیمپیئن۔ ایک شیر دل، چیمپیئن کا عزم "۔ ارشد ندیم آپ نے آج رات ریکارڈ فاصلہ تک نیزہ نہیں پھینکا بلکہ آپ کے نیزے نے ستارے بننا چاہنے والے بہت سے لوگوں کی بے معنی گفتگو میں سوراخ کر دیا ہے۔ آج رات آپ گولڈ میڈل لے کر چلیں گے، 240 ملین لوگوں کا شکریہ اور کرہ ِارض پر ہر کھیل سے محبت کرنے والوں کا احترام٭٭
**کرکٹ سے نیزہ بازی: تقدیر میں تبدیلی**
ندیم کی کامیابی کی کہانی خاص طور پر متاثر کن ہے، کیونکہ اُنھوں نے ایک اُمید افزا کرکٹ کیریئر سے نکل کر نیزہ بازی کو اپنایا۔ یہ ایسا انتخاب تھا جو اُنھیں آخرکار اولمپک اسٹیج تک لے آیا۔ یہ تبدیلی نہ صرف ان کی قدرتی مہارت کو ظاہر کرتی ہے بلکہ مشکل حالات میں شاندار کامیابی کے حصول میں ان کی ہم آہنگی کو بھی اُجاگر کرتی ہے۔
**رکاوٹوں کو توڑنا اور تاریخ بنانا**
اس طلائی کے تمغے کے ساتھ ارشد ندیم نے پاکستان میں ایتھلیٹکس کے بارے میں کہانی کو نئے سرے سے لکھ دیاہے۔ 1984ء لاس اینجلیس اولمپکس میں پاکستان کے ہاکی میں طلائی تمغہ جیتنے کے 40 سال بعد اور1992ء کے بارسلونا اولمپکس میں پاکستان کے ہاکی میں کانسی کا تمغہ جیتنے کے 32سال بعد پاکستانی ایتھلیٹس ارشد ندیم نے پاکستان کیلئے کوئی اولمپکس تمغہ جیتا اور وہ بھی طلائی۔2021ء کے ٹوکیو اولمپکس میں وہ پانچویں نمبر پر رہے اور 2023 کی عالمی چیمپئن شپ میں چاندی کا تمغہ جیتا۔اس دوران ساؤتھ ایشین گیمز2019ء کھٹمنڈو، اسلامی یکجہتی گیمز2021ء منعقد کونیا اور کامن ویلتھ گیمز 2022 برمنگھم میں طلائی تمغے جیت چکے ہیں اور مختلف بین الااقوامی مقابلوں 4 کانسی کے تمغے جیتنے کا اعزاز بھی حاصل ہے،لیکن ا ب ارشد ندیم کو اولمپکس کی فتح سے ایسا عروج حاصل ہوا جو استقلال اور عزم کی خصوصیت رکھتا ہے۔
**بہتر وسائل کی ضرورت پر زور**
ان کی عظیم الشان فتح کے بعد، ندیم نے اپنے پلیٹ فارم کا استعمال کرتے ہوئے پاکستانی ایتھلیٹس کے لیے مزید حمایت اور وسائل کی ضرورت پر زور دیا۔ اُنھوں نے یہ بات واضح کی کہ نئے ٹیلنٹ کو عالمی سطح پر متعارف کروانے کیلئے جدید سہولیات اور فنڈنگ کو اہمیت دی جائے۔ آپ دوسرا ارشدندیم بغیر ان سہولیات کے نہیں بنا سکتے۔اُنھوں نے کہا کہ و ہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ملک میں ایتھلیٹکس کی ثقافت کو پروان چڑھانے کے لیے ریاستی معاونت کی انتہائی ضرورت ہے۔
**نتیجہ**
ارشد ندیم کی پیرس اولمپکس 2024 میں کامیابی صرف ایک طلائی کے تمغے کی بات نہیں، یہ پاکستان کیلئے ایتھلیٹکس کے میدان میں ایک تاریخی سنگ میل ہے۔ ان کا سفر ناکامی سے کامیابی کی طرف سچائی، جذبہ اور خودی کی طاقت کا نمونہ ہے۔ ارشد ندیم ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ محنت اور استقامت کے ساتھ، غیر معمولی کامیابیاں حاصل کرنا ممکن ہیں،چاہے راستے میں کتنی ہی رکاوٹیں کیوں نہ آئیں۔ اپنے اولمپک ریکارڈ کے ساتھ اُنھوں نے نہ صرف پاکستان اور اولمپکس کی کھیل کی تاریخ میں اپنا مقام بنایا ہے بلکہ آنے والے کئی ایتھلیٹس کو بھی بڑے خواب دیکھنے اور اپنی خواہشات کے پیچھے جانے کی ترغیب دی ہے۔
**حکومت ِ پاکستان کی ذمہداری**
پاکستان کی وزارت کھیل، مختلف اسپورٹس کے محکموں اور کوچز کو دُور دراز کے شہروں، دیہاتوں اور شمالی علاقوں میں جاکر مختلف کھیلوں میں قدرتی صلاحیتیں رکھنے والے بچوں اور نوجوانوں کو تلاش کرنا چاہیئے۔ اُن کا مشن پاکستان میں کھیلوں کو اس طرح فروغ دینا ہوکہ نئے ٹیلنٹ کی صلاحیتوں کو بین الاقوامی معیار کے مطابق نکھار کر عالمی سطح پر پاکستان کا نام روشن کریں۔ متنوع خطوں سے ٹیلنٹ کی شناخت اور ان کی تربیت کے ذریعے ان کا مقصد کھیلوں کی مزید جامع ثقافت کو فروغ دینا ہونا چاہیئے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ بین الاقوامی مقابلوں میں ملک کی نمائندگی کرنے والے پاکستان کے بھرپور وسائل اور کھیلوں کی عمدہ کارکردگی کے عزم کی عکاسی کرے۔ لہذاجدید کھیلوں کا سامان،آلات اور فنڈزکا مناسب انتظام نوجوان کی تربیت کیلئے لازم ہواور یہ صر ف حکومت ِپاکستان ہی کر سکتی ہے۔
٭٭٭

Arif Jameel
About the Author: Arif Jameel Read More Articles by Arif Jameel: 205 Articles with 332523 views Post Graduation in Economics and Islamic St. from University of Punjab. Diploma in American History and Education Training.Job in past on good positio.. View More