معاشرتی منافقت کا عروج: طاقتوروں کی خوشامد اور کمزوروں کی تحقیر
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
مضبوط افراد کے سامنے ہمارا رویہ کتناخوشامدانہ اور فدویانہ ہوتا ہے ، جبکہ کمزور افراد کے سامنے ہم اپنے بدمعاشی کا اظہار کیسے کرتے ہیں اس کا اندازہ اس معاشرے میں ہر ایک کو ہے لیکن ایک بات جو ہر زبا ن زد عام ہے کہ اگر قوی شخص کے سامنے کوئی شخص فدوی بن کر پیش ہوتا ہے اورغریب پر چڑھ چڑھ کر سامنے آتا ہے تو اسے منافقت کہتے ہیں.جو کہ ہمارے معاشرے میں اب عام ہے - اپنے اصل بات کی طرف جانے سے قبل ایک دو پریس ریلیز جوکہ انگریزی زبان میں جاری کی گئی تھی یہ دوپیرا گراف نشاندہی کرتے ہیں کہ ہم منافقت کی کس نہج پر پہنچ چکے ہیں.
صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے ڈائریکٹر آپریشنز اینڈ ٹریننگ نے پشاور سپورٹس کمپلیکس میں سینئر کوچز کے ساتھ ایک اہم میٹنگ کی۔ اس اجتماع کا مقصد محکمہ کے اسٹریٹجک وڑن کا خاکہ پیش کرنا اور کوچز کے لیے واضح توقعات کا تعین کرنا تھا۔اس موقع پر اے ڈی آپریشنز، اے ڈی ٹریننگ ، چیف کوچ سمیت اہم افسران بھی موجود تھے۔ اس میٹنگ نے مستقبل کے منصوبوں پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے ایک پلیٹ فارم مہیا کیا، جس میں نوجوان ٹیلنٹ کو پروان چڑھانے میں کوچز کے اہم کردار پر زور دیا گیا۔ محکمہ کھیل نے کوچز کی غیر معمولی کھلاڑی پیدا کرنے کی صلاحیت پر اعتماد کا اظہار کیا جو نہ صرف صوبے کے لیے باعث فخر ہوں گے بلکہ قومی اور بین الاقوامی سطح پر بھی چمکیں گے۔
ڈائریکٹر آپریشنز اینڈ ٹریننگ ڈائریکٹوریٹ جنرل آف سپورٹس کے پی نے ایک اجلاس کی صدارت کی۔ جس میں محکمہ کھیل میں ڈیلی ویج پر کام کرنے والے کوچزسے ملاقات ہوئی جس میںیہ بات پائی گئی کہ یہ کوچز اپنے متعلقہ کھیلوں میں انتہائی ماہر ہیںاس میٹنگ میں اے ڈی آپریشنز اور چیف کوچ نے بھی شرکت کی۔زیر دستخطی نے انہیں محکمہ کھیل کے اہداف اور مقاصد کے بارے میں اچھی طرح آگاہ کیا اور ان سے محکمہ کھیل کی توقعات کا بھی اظہار کیا۔
یہ دونوں پیراگراف دومختلف دنوں کے ہیں اور مختلف کوچز سے ہونیوالے ملاقات کے ہیں ، اندرونی کہانی کی طرف بعد میں آئیں گے لیکن پہلے والے مستقل کوچزہیں جنہیں تنخواہیں بھی ملتی ہیں تاہم انکے مکھن لگاتے ہوئے انہیں سینئرکہا گیا باقی ان کی کوئی اہلیت نہیں ، البتہ انکے مقابلے میں ڈیلی ویج کو یہ کہہ کر مکھن لگانے کی کوشش کی گئی کہ یہ بہتر ہیں.اورہائی سکلڈ ہیں. ان دونوں میٹنگ کی اندرونی کہانی یہ ہے کہ مستقل ملازمین سے یہ نہیں پوچھا گیا کہ آپ کی کارکردگی گذشتہ کئی سالوں سے کیا ہے،کتنے قومی ، صوبائی اوربین الاقوامی کھلاڑی پیدا کئے گئے نہ ہی ان سے کوئی پروفارما لیا گیا ،تعداد بھی انتہائی کم تھی جس کی تصاویر بھی جاری کی گئی لیکن ڈیلی ویج کوچ جن کی تعداد بھی زیادہ تھی کے دوران یہ بھی کہا گیا کہ جوڈیلی ویج نہیں آئے ان کی تنخواہیں کاٹ دی جائے .چونکہ یہ ڈیلی ویج ملازم تھے اور گذشتہ ایک سال سے بغیر تنخواہ کے کام کرتے رہے ہیں اس لئے ایک دوسرے افسر نے جوکہ خود ایکٹنگ چارج بیس پر کام کررہے ہیں نے میٹنگ کے دوران انتہائی تحقیر آمیز لہجے میں ڈیلی ویجزملازمین کویہ بھی کہا کہ تم لوگ نہیں تھے تو بھی کام چل رہا تھا اور بہتر طور پر ہم چلارہے تھے ، حالانکہ ان صاحب کی کارکردگی بس اتنی سی ہے کہ اس سے قبل ڈائریکٹریٹ میں آنیوالے ایک بڑے صاحب نے ان کی دم پر پاﺅں رکھا تھا اور ان کی تعیناتی کے دوران اپنے کمرے تک محدود رہے ، یہ الگ بات کہ ان بڑے صاحب نے بعد میں غلطیاں کی لیکن انہوں نے ڈیلی ویج ملازمین کو تحقیر آمیزاندازمیں مخاطب کرنے والے افسر کو " پٹہ"ڈال دیا تھا لیکن چونکہ انہیں "دبانے" اور"اٹھانے " کی بہت زیادہ پریکٹس ہے اس لئے ان بڑے صاحب کے جانے کے بعد متعلقہ افسراپنی اوقات پھر بھول گئے ہیں.
کسی بھی ملازم کی تحقیر کا حق کسی کو حاصل نہیں خواہ وہ گریڈ اٹھارہ کا ہو یا گریڈ بیس کا ،لیکن کیاکہیے یہ ہمارا معاشرتی المیہ ہے کہ ہم لوگ بہت جلداپنی اوقات بھول جاتے ہیں اوراپنے شعبوں میں فرعون بن کر اپنے سے کمزورلوگوں پربدمعاشی کرتے رہتے ہیں ، سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے یہ ڈیلی ویج ملازمین خصوصا پشاور سپورٹس کمپلیکس کے گذشتہ ایک سال سے"زہ ھم بھرتی کوم" کے نام پرکام کراتے رہے لیکن انہیں تنخواہیں نہیں ملی اب ایک دن کی تنخواہ ان سے کاٹی جائے تو انہیں کوئی پروا نہیں ، لیکن اس ڈائریکٹریٹ میں کتنے ہی ایسے ملازم ہیں جو دوسرے دفاترمیںکام کررہے ہیں ، اوروہ مستقل ملازم ہیں لیکن ان کی طرف انگلی اٹھانے کی کسی میں ہمت نہیں ، بقول ایک "وڈے افسر"کی یہ ہماری مجبوری ہے کیونکہ جن کے پاس یہ ملازم کام کررہے ہیں وہ دوسرے ڈیپارٹمنٹ کے ہیں لیکن چونکہ وہ طاقتور ہیں اس لئے انکی اوقات نہیں ، کسی نے اس میٹنگ میں یہ سوال نہیں کیا کہ آخران ملازمین کوپرانی تنخواہیں کب ملیں گی .
چلیں یہ تو پرانی باتیں جوبہت ساروں کوبری لگتی ہیں لیکن کیا پینتیس اضلاع کے اس صوبے میں چارسدہ ،صوابی ،کوہاٹ سمیت دیگر اضلاع نہیں جہاں پر ڈیلی ویجزکوچزکومکمل طورپر نظراندازکیا گیااورانکی تنخواہیں کھانے کے ساتھ ساتھ انہیں اب دوبارہ بھرتیوں میں نظر انداز کیا گیا. کیا یہ قابل افسوس امرنہیں ، کیا صرف پشاورکے کھلاڑیوں میں سرخاب کے پر لگے ہوئے ہیںجن کیلئے کوچز بھرتی کئے گئے کیا دیگر اضلاع کے کوچزانسان نہیں کیاوہاں کے کمپلیکس میں آنیوالے بچے تربیت کے متلاشی نہیں ہوتے.کیاانکا حق نہیں ،کیا کسی نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ چارسدہ کے عبدالولی خان سپورٹس کمپلیکس میں کتنے اہلکار گریڈ دس سے سولہ بن کرواپس آئے اور انہوں نے ڈیوٹیاں نہیں کی ،اپنے تعیناتی کے دوران اپنے کھیل میں ایک کھلاڑی بھی پیدا نہیں کرسکے، حالانکہ یہ مستقل ملازمین تھے جبکہ جن ڈیلی ویج ملازمین کی کارکردگی اچھی تھی باوجود اس کے انہیں نظر انداز کیا گیا کیونکہ ان کا سفارش کرنے والا کوئی نہیں ، یہی صورتحال صوابی کے بھی ہیں اوریہی تقریبانوشہرہ،اورکوہاٹ سمیت دیگر اضلاع کی بھی ہیں.اس بارے میںسپورٹس ڈائریکٹریٹ کے کسی بھی بڑے کو شائد کسی کو اندازہ نہیں ،نہ ہی جاننے کی خواہش رکھتے ہیںکیونکہ جن کے ہاتھ میں طاقت ہیں انہیں تنخواہیں بھی مل رہی ہیں ، انہیں گاڑیاں اورمراعات سمیت وی آئی پی کمرے اوررہائشی گھربھی ملے ہوئے ہیں اوربعض کیلئے بن رہے ہیں حالانکہ ہاﺅس رینٹ بھی سب کوملتاہے.لیکن یہ کہہ کر"مڑہ پاکستان دے " چل چلاﺅ کیا جاتا ہے.
|