امریکہ کے ایک ریسٹورنٹ میں ویٹریس نے لنچ کا مینو ایک
شخص اور اس کی بیوی کو دیا اور اس سے پہلے کہ وہ مینو کو دیکھتے، انہوں نے
اس سے کہا کہ وہ انہیں دو سستے ترین کھانے پیش کرے کیونکہ ان کے پاس اتنے
پیسے نہیں ہیں۔ کئی مہینوں سے تنخواہیں نہیں مل رہیں۔ جس کی وجہ سے وہ مشکل
وقت سے گذر رہے ہیں.
ویٹریس سارہ نے زیادہ دیر نہیں سوچا۔ اس نے انہیں دو ڈشیں تجویز کیں اور وہ
بغیر کسی ہچکچاہٹ کے مان گئے کہ وہ سب سے سستے ہیں۔ وہ دونوں آرڈر لے کر
آئی اور انہوں نے بھوک کی شدت سے جلدی سے کھانا کھایا، اور جانے سے پہلے
انہوں نے ویٹریس سے بل مانگا۔ وہ اپنے بلنگ والیٹ میں کاغذ کا ایک ٹکڑا لے
کر ان کے پاس واپس آئی جس پر اس نے لکھا تھا کہ : "میں نے آپ کے حالات کو
مدنظر رکھتے ہوئے آپ کا بل اپنے ذاتی اکاؤنٹ سے ادا کیا۔ یہ میری طرف سے
تحفے کے طور پر ایک سو ڈالر کی رقم ہے، اور میں آپ کے لیے کم سے کم اتنا تو
کر سکتی ہوں۔ آپ کی آمد کے لیے شکریہ۔ سارہ کے دستخط شدہ۔
ریستوراں سے نکلتے ہی یہ جوڑا بہت خوش تھا۔
مشکل صورتحال میں مبتلا سارہ کے لئے حیرت انگیز بات یہ تھی کہ اس نے اپنے
سخت مالی حالات کے باوجود جوڑے کے کھانے کا بل ادا کرنے میں بے حد خوشی
محسوس کی۔ حالانکہ وہ تقریباً ایک سال سے ایک آٹومیٹک واشنگ مشین خریدنے کے
لئے پیسے بچا رہی تھی کیونکہ پرانی واشنگ مشین سے کپڑے دھونے میں اسے بہت
مشکل ہوتی تھی
لیکن جس چیز نے اسے سب سے زیادہ دکھ پہنچایا وہ یہ تھا کہ جب اس کی دوست کو
اس معاملے کا پتہ چلا تو سارہ کی دوست نے اسے بہت ڈانٹا۔ کیونکہ اس نے خود
اپنی اور اپنے بچے کی ضرورتوں کو پس پشت ڈال کر یہ پیسے بچائے تھے اسے
دوسروں کی مدد کرنے سے زیادہ اپنے لئے واشنگ مشین خریدنے کی ضرورت تھی۔
اسی دوران اسے اپنی ماں کا فون آیا جس میں اسے اونچی آواز میں کہا گیا:
"سارہ تم نے کیا کیا؟"
اس نے ایک ناقابل برداشت جھٹکے سے ڈرتے ہوئے دھیمی، کانپتی ہوئی آواز میں
جواب دیا: ’’میں نے کچھ نہیں کیا۔ کیا ہوا؟"
اس کی والدہ نے جواب دیا: "فیس بک تمہاری تعریف کرنے اور تمہارے طرز عمل کی
تعریف کرنے میں زمین آسمان ایک کر رہا ہے۔ اس بندے اور اسکی اہلیہ نے فیس
بک پر تمہارا پیغام پوسٹ کیا جب تم نے ان کی طرف سے بل ادا کیا اور بہت سے
لوگوں نے اسے شیئر کیا۔ مجھے تم پر فخر ہے۔" ...
اس نے بمشکل اپنی والدہ کے ساتھ اپنی بات چیت مکمل کی تھی جب اسکول کے ایک
دوست نے اسے فون کیا جس سے یہ ظاہر ہوا کہ اس کا پیغام تمام ڈیجیٹل سوشل
پلیٹ فارمز پر وائرل ہو چکا ہے۔
جیسے ہی سارہ نے اپنا فیس بک اکاؤنٹ کھولا، اسے ٹیلی ویژن کے پروڈیوسروں
اور پریس رپورٹرز کے سینکڑوں پیغامات ملے جن میں اس سے ملنے کے لیے کہا گیا
تاکہ وہ اپنے مخصوص اقدام کے بارے میں بات کریں۔
اگلے دن، سارہ سب سے مشہور اور سب سے زیادہ دیکھے جانے والے امریکی ٹیلی
ویژن شوز میں سے ایک پر نمودار ہوئی۔ پروگرام پیش کرنے والے نے اسے ایک بہت
ہی پرتعیش واشنگ مشین، ایک جدید ٹیلی ویژن سیٹ اور دس ہزار ڈالر دیے۔ اس
ایک الیکٹرانکس کمپنی سے پانچ ہزار ڈالر کا پرچیز واؤچر حاصل کیا۔ اس پر
تحائف کی بارش ہوئی یہاں تک کہ اس کے عظیم انسانی رویے کی تعریف میں حاصل
ہونے والی رقم $100,000 سے زیادہ تک پہنچ گئی۔ دو کھانے جن کی قیمت چند
ڈالر + $100 سے زیادہ نہیں تھی نے اس کی زندگی بدل ڈالی۔
سخاوت یہ نہیں ہے کہ جس چیز کی آپ کو ضرورت نہیں ہے وہ کسی کو دے دیں بلکہ
سخاوت یہ ہے کہ جس چیز کی آپ کو ضرورت ہے وہ کسی دوسرے ضرورت مند کو دے
دیں۔
حقیقی غربت انسانیت اور رویوں کی غربت ہے۔
دیکھا جائے تو یہ مسلمانوں کا شیوہ غیر مسلموں نے اپنایا۔دنیا میں ترقی کے
منازل طے کرلئے۔ہم ذاتی خول میں بند اور اپنی آنا اور ذاتی مفادات سے آگے
نہ سوچتے ہیں نہ دیکھتے ہیں ۔اور ایسا کردار ہم مسلمانوں میں عام ہونا
چاہیے تھا.
یہی وجہ ہے کہ خاتون کے اس بہترین انسان دوست عمل پہ اس کو داد بھی ملی اور
انعامات بھی ملے۔ تاہم ضرورت اس بات کی ہے کہ سوسائٹی بھی ایسی ہو کہ جہاں
اچھے کاموں کا احساس ہو، تعریف کی جائے اور انعامات دیکر حوصلہ افزائ بھی
کیجائے ۔
ایسا کردار ہم مسلمانوں میں عام ہونا چاہیے تھا مگر ۔۔۔۔۔۔۔ افسوس! کہ ہم
تو غریب کی زکات ، صدقہ، فطرہ ، یہاں تک کہ غریب، مسکین ، یتیم و بیوہ کا
مال بھی نہیں چھوڑتے اور کہلاتے ہم مسلمان اس پر جتنا بھی افسوس کریں کم
ہے.
|