ٹھنڈا کمرہ

چھٹی کے دن خوب نیند کے بعد میں نے سٹڈی روم کا رخ کیا اور آنے والی کتاب کے مسودے پر کام کرنے لگا اوائل عمری سے ہی مجھے کتب بینی کا بہت زیادہ شوق ہے یہ شوق نیچرل تھا گاؤں میں پیدائش اور بچپن کے دوران پڑھنے کو کتابیں دستیاب نہیں تھیں لیکن بڑ ے بھائی جان کو کتابوں رسالوں کا بہت شوق تھا لہذا وہ جو بھی کتاب لاتے میں اُس کو قبضے میں لے کر چاٹنا شروع کر دیتا اُس وقت سے لے کر کتابوں سے یہ محبت آج بھی جاری و ساری ہے میں چند دن کتابوں سے دور گزار کر اداس ہو جاتا ہوں اِس لیے جیسے ہی موقع ملتا سٹڈی روم میں پڑی سینکڑوں کتابوں کے درمیان آکر بہت اچھا محسوس کر تا ہوں پھر اپنی پسند کی کوئی کتاب نکال کر اُس میں ڈوب جاتا ہوں یا پھر آنے والی کتاب پر کام کر تا ہوں کتابوں سے محبت والی ہم شاید آخری نسل ہیں نئی نسل کتابوں سے دور ہو تی جارہی ہے بلکہ ہو چکی ہے موبائل اور یو ٹیوب برق رفتاری سے کتابوں کو کھا رہے ہیں چند سالوں بعد نئی کتاب سے محبت کر نے والے کم سے کم ہو تے چلے جارہے ہیں اِسی طرح کتابیں رسالے ناول افسانے شاعری لکھنے والے اور شائع کر نے والے لوگ بھی کم ہو تے جا رہے ہیں ایک دور تھا جب ہر ماہ سب رنگ جاسوسی ڈائجسٹ سسپنس ڈائجسٹ کا انتظار کیا جاتا تھا اور جب یہ رسالے آتے تھے تو کتب شاپس پر اشتہار لگ جاتے تھے کہ فلاں ڈائجسٹ آ گیا ہے اِسی طرح محلوں گلیوں میں جو لا ئبریریاں تھیں جہاں سے ایک روپے پانچ روپے میں کتابیں ملتی تھیں و ہ کب کی بند ہو چکی ہیں سکول کالج کی لائبریریوں سے جو کتابیں طالب علم گھر لاتے تھے وہ سلسلہ بھی ختم ہو چکا ہے لیکن جو کتابیں پڑھنے یا شوقین ہیں ان کو پرانی کتابوں کی خوشبو سے عشق ہے وہ جیسے ہی اپنی کتابوں کے کمرے میں داخل ہو تے ہیں ان کو ایسے لگتا ہے جیسے محبوب کے پاس آگئے ہیں اور اگر کتاب پسندیدہ مصنف اور موضوع پر ہو تو پھر تو سونے پر سہاگہ ہے کتابیں ایک نشہ ہے جس کو لگ جا ئے وہی جانتا ہے اِسی طرح کتابوں ناولوں کے کرداروں سے آپ کو محبت ہو جاتی ہے آپ ادھیڑ عمر ی میں داخل ہو کر بھی ان کر داروں کو یاد رکھتے ہیں ان سے محبت کرتے ہیں لیکن بہت افسوس کی بات ہے آج کا نوجوان اور نسل اِس نشے او ر محبت سے محروم ہو چکی ہے اِن کے لیے سٹڈی روم اور کتابیں بیکار مشغلہ ہے انہیں نہ کتابوں سے اور نہ ہی مطالعے سے شوق ہے وہ موبائل کے رسیا ہیں اور اسی میں گم رہتے ہیں بہر حال میں اپنی سٹڈی میں مصروف تھا کہ ملازمہ سے آکر بتایا گاؤں سے کوئی بندہ اپنے بیٹے کو دم کر نے اور ملنے آیا ہے نام سننے کے بعد میں نے ملازمہ سے کہا اُس کو میرے کمرے میں بھیج دو اور شربت چائے وغیرہ لے کر آؤ پھر تھوڑی دیر میں وہ شخص اپنے دس سالہ بیٹے کے ساتھ اندر آگیا بیٹا بہت کمزور اور بیمار لگ رہا تھا سلام دعا کے بعد شربت پھر چائے لوازمات آگئے تو دونوں نے خوب جی بھر کے چائے پی اور ساتھ آئی کھانے کی چیزوں سے بھی لطف اٹھا یا مجھے جب بھی کوئی پسماندہ شخص خوب پیٹ بھر کر کھانا کھائے تو بہت اچھالگتا ہے ان کی بھوک دیکھ کر میں نے مختلف پھل منگوائے اور اُن کے سامنے ڈھیر کر دئیے انہوں نے پیٹ بھر کر کھالیے تو بندہ شرمندہ لہجے میں بولا جناب فروٹ بچ گیا ہے میں اِس کو باقی بچے جو گھر میں ہیں ان کے لیے لے جاؤں میں نے اجازت دی اور گھر کے لیے اور پھل بھی لا کر دے دئیے باپ بیٹا بہت خو ش تھے اب ان کو ورد ذکر اذکار بھی بتا دئیے تاکہ وہ واپس جاسکیں میں اچھی طرح میزبانی کر چکا تھا اب اِس انتظار میں تھا کہ وہ واپس جائیں میں پھر سے کتابوں میں غرق ہو سکوں میں نے بار بار الوداعی جملے بھی بول دئیے تھے میرا ارادہ بھانپ کر باپ بولا میں واش روم سے ہو آؤں تو میں نے واش روم کا راستہ دکھا دیا وہ واش روم سے بہت دیر بعد کمرے میں آیا تو بولا آپ کا کمرہ بہت ٹھنڈا خوشگوار ہے یہاں سے جانے کو دل نہیں کر رہا کمرے میں اے سی چل رہا تھا اب وہ پھر بیٹھ کر اِدھر اُدھر کی باتیں کر نے لگا میری کوشش تھی کہ اب وہ چلا جائے لیکن وہ بہانوں سے کمرے میں مزید رکنا چا رہا تھا آخر میں نے پوچھ لیا یار آپ جا نہیں رہے کوئی مزید بات رہ گئی ہے تو وہ بولا سر جی اصل میں میرا بیٹا گرمی لگنے کی وجہ سے بیمار ہو گیا ہے اِس کا بخار نہیں اُتر تا ڈاکٹر نے کہا ہے اِس کو گرمی لگ گئی ہے اِس کو اے سی والے ٹھنڈے کمرے میں رکھو اب میں غریب نہ اے سی اور نہ ہی بجلی کا بل افورڈ کر سکتا ہوں میں مختلف بہانوں سے کبھی اُس مسجد کبھی اِس مسجد میں اِس کو لے کر جاتا ہوں تاکہ یہ ٹھنڈے کمرے میں وقت گزار سکے رات کو چھت پر سوتے ہیں تاکہ اِس کی گرمی کا توڑ ہو سکے اِس لیے میں زیادہ سے زیادہ وقت آپ کے ٹھنڈے کمرے میں گزارنا چاہتا ہوں اُس کی بے بسی دیکھ کر میری آنکھیں بھر آئیں میں بولا آپ دونوں یہاں آرام سے سو جائیں جب سورج ڈھلے گا تو چلے جانا مہنگائی کے طوفان نے لوگوں کو در بدر بھٹکنے پر مجبور کر دیا ہے ہو شر با مہنگائی اور بجلی کے بل لوگ فقیر بن کر سڑکوں پر ذلیل ہو رہیں پتہ نہیں کب گورنمنٹ کر ان بے بس غریبوں پر رحم آئے گا اور بجلی سستی کریں گے ۔
 

Prof Abdullah Bhatti
About the Author: Prof Abdullah Bhatti Read More Articles by Prof Abdullah Bhatti: 804 Articles with 699861 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.