آزادی کی قیمت

لندن کے اخبار ڈیلی میل کے نمائندہ خصوصی مسٹر رالف نے انہی ایام میں کراچی سے دہلی تک کا سفر کیا۔ اس نے 27 اگست 1947کے ڈیلی میل میں لکھا : میری کہانی صرف وہ لوگ سن سکتے ہیں جو بہت بڑا دل گردہ رکھتے ہوں۔ جب میں کراچی سے براستہ لاہور عازم دہلی ہوا تو کراچی سے لاہور تک راستے میں سفاکی کا کوئی منظر نظر نہ آیا اور نہ ہی میں نے کوئی لاش دیکھی۔ لاہور پہنچ کر مشرقی پنجاب میں ہونے والی دہشت وبربریت کے آثار نمایاں نظر آنے لگے کیونکہ اسی دن لاہور میں خون سے لت پت ریل پہنچی تھی، یہ ریل 9 ڈبوں پر مشتمل تھی جس پر آسانی سے ایک ہزار مسافر سما سکتے تھے۔ اس ریل کے مسافروں کو بٹھنڈا کے جنکشن پر بے دریغ تہِ تیغ کر دیا گیا تھا۔ ہماری گاڑی اتوار کی صبح دہلی کے لئے روانہ ہوئی ۔پاکستان کی سرحد عبور کرنے کے بعد جابجا ایسے مناظر بکھرے پڑے تھے جو لاہور کی لٹی پٹی ٹرین سے کہیں زیادہ ہولنا ک اور دہلا دینے والے تھے۔ گدھ ہرگاں کے قریب سے گزرنے والی ریلوے کی پٹری پر اکٹھے ہو رہے تھے ۔ کتے انسانی لاشوں کو بھنبھوڑ رہے تھے اور فیروز پور کے مکانات سے ابھی تک شعلے اٹھ رہے تھے۔ جب ہماری ریل بٹھنڈا پہنچی تو مجھے ریل سے ذرا فاصلے پر انسانی لاشوں کا ایک ڈھیر نظر آیا۔ میرے دیکھتے ہی دیکھتے پولیس کے دو سپاہی وہاں مزید لاشوں سے لدی بیل گاڑی لائے جو لاشوں کے ڈھیر پر ڈال دی گئی۔ اس ڈھیر پر ایک زندہ انسان کراہ رہا تھا ۔ سپاہیوں نے اسے دیکھا لیکن وہ اپنی لائی ہوئی لاشیں ڈھیر پر پھینک کر سسکتے اور کراہتے انسان کو وہیں چھوڑ کر چلتے بنے۔ وہ مزید لکھتاہے : فیرو زپور سے ہجرت کرتے ہوئے ایک لٹاپِٹا قافلہ جب ایک جگہ سستانے کیلئے رکا تو اچانک سکھوں نے حملہ کردیا۔ ایک عورت کی گود میں پانچ چھ ماہ کا بچہ تھا۔ ایک وحشی درندے نے وہ بچہ ماں کی گود سے چھین کر ہوا میں اچھالا اور پھر اس کی کرپان ننھے معصوم کے سینے میں ترازو ہوگئی اور اس کا پاکیزہ خون اس وحشی درندے کے کراہت آمیز چہرے پر ٹپ ٹپ گرنے لگا۔ بچے کے تڑپتے جسم کو ماں کے سامنے لہرا کر درندے نے کہالو! یہ ہے تمہارا پاکستان۔ جب ماں نے اپنے جگر گوشے کو نوکِ سناپہ سجے دیکھا تو اس کا دل بھی دھڑکنا بھول گیا۔ ڈیلی میل کایہ نمائندہ خصوصی آگے چل کر لکھتا ہے : بٹھنڈا سٹیشن پر ہم نے جو آخری نظارہ دیکھا وہ انتہائی کریہہ ، گھنانا اور انسانیت سوز تھا۔ جونہی ہماری ٹرین چلی، ہم نے دیکھا کہ چار سکھ چھ مسلمان لڑکیوں کو انتہائی بے دردی سے زدوکوب کرتے ہوئے ان کی سرعام عصمت دری کررہے ہیں۔ دو لڑکیوں کو تو انہوں نے ہماری آنکھوں کے سامنے ذبح بھی کرڈالا۔کل جب 14 اگست کا سورج طلوع ہو تو اﷲ پاک کے حضور سجدہِ شکر بجا لائیں کہ آج ہم آزاد ہیں، یہ آزادی مفت نہیں ملی نسلیں ذبح ہوئیں نسلوں کے خوں کی قیمت پہ ملی یہ آزادی، ماں، بہنوں، بیٹیوں کی عصمتوں اور لاشوں کی قیمت پہ ملی ۔ یہ آزادی ، بچوں کے سینوں میں پار ہوئے نیزے پے ملی یہ آزادی ، لاکھوں نے یتیمی اور مامتا سے محرومی کا تاج سر پہ سجایا تو ملی آزادی، خاندان کے خاندان بکھرے تو ملی یہ آزادی ایسے ہی نہیں ملا یہ وطن ، شاہ ، فقیر ہوئے ، جاگیردار گدا گر ہوئے تو ملی یہ آزادی، گھروں والے بیگھر ہوئے تو ملی یہ آزادی، سیسکیوں ، چیخوں ، آہوں کی قیمت پہ ملی یہ آزادی ، ایک نسل گِدھوں کی خوراک بنی، ایک نسل کنوں اور درختوں پہ لٹکی رہ گئی ، ایک نسل چلتی ریل گاڑیوں سے پھینکی گئی، ایک نسل کی عزتیں تار تار ہوئیں، ایک نسل گوشت کے ٹکڑوں میں بدلی، ایک نسل نیزوں پہ لٹکی تو ملی آزادی، لاکھوں شہیدوں کے خون سے وہ ناپاک راستے پاک ہوئے تو ملی آزادی.اس دن ایک نسل بے نام و نشاں ہوئی تو ملی آزادی، ایک نسل صفحہِ ہستی سے مٹی تو ملی یہ آزادی، اس دن خوشیاں منائیے مگر یار رکھیے کہ ملک موٹر سائیکلز کے سائلنسر نکال کر اور سڑکوں پہ ناچ گا کر نہیں تھا بنا، خوشیاں منائیے مگر ان لاکھوں قربانیوں کا احترام دل میں رکھ کر اور اﷲ پاک کے حضور سجدہ ریز ہوکر. یہ وطن قربانیوں کی لازوال داستان رکھتا ہے قربانیاں دی گئیں تو بنا تھا یہ وطن، قربانیاں دی جا رہی ہیں تو بچا ہے یہ وطن. کوشش کیجیے گا ہمیشہ اس وطن سے وفادار رہیے، جو فیصلے اس وطنِ عزیز کے مقدر میں لکھے جاچکے ہیں وہ انمٹ ہیں ان فیصلوں کا حصہ بننے کی کوشش کیجیے ان مخالف سمت میں چلنا سوائے بربادی اور مایوسی کے کچھ نہیں اس لیے شکر کیجیے پاکستان کے لیے اور قدر کیجیے پاکستان کی.پاکستان رھتی دنیاتک قائم و دائم رھنے کیلئے وجود میں آیا۔ان شا اﷲ!اس تاریخی حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ قیام پاکستان خود اپنے اندر اﷲ کی نصرت اور اسکی برکتوں کی ڈھیروں نشانیاں لیے ھوئے ھے۔ ایکطرف برطانیہ کی عالمی استحصالی طاقت اور دوسری طرف شاطر ھندوں کا تعصب وارانہ روایہ اور تیسری طرف مسلمانوں میں عمومی طور پر اعلی پائے کی قیادت کی کمیابی کے باوجود پاکستان کا صحفہ ھستی پر ظہور اﷲ کے خاص فضل کا ھی نتیجہ ھے ۔ لیکن آج تہتت پچھتر سال بعد یہ ملک خداداد پاکستان تاریخ کے جس دوراھے پرکھڑا اسکی مثال ملنا مشکل ھے۔ اندرونی طور پر ھمیں ایک ناھل اور کرپٹ حکومت کا سامنا ھے جو گڈ گورنس اور کرپشن مخالف ایجنڈے پر اقتدار تک پہنچی تھی۔ دوسری طرف ملک دفاعیافواج اپنے گلیتک ملکی سیاست تک پھنس چکی ھیں اور ماضی سے سبق سیکھنے کو تیار نہیں۔ اپوزیشن بظاھر مظلوم نظر آتی ھے لیکن وہ بھی اپنا محاسبہ کرنے کو تیار نہیں۔۔۔اور حکومت احتساب کے نام پر کھلم کھلا یکطرفہ محاسبہ کرنے کی سر توڑ کوشش کر رھی ھے جو بظاھر اپوزیشن کیلئے مزید ھمدردی پیدا کرنے کا باعث بن رھی ھے۔دوسری طرف عوام اوربالخصوص سیاسی ورکرز اندھی تقلید کا شکار ھوتے ھوئے کھوتے اور گھوڑے کا فرق کرنے کو تیار نہیں۔ انکا لیڈر اگر کالا چور بھی ھے تو انھیں قبول ھے اور وہ اسکی کسی کرپشن اور غلط پالیسیوں پر اسکا موخذاہ کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ مزید براں ملک میں فسطائیت بڑھتی جارھی ھے اور حکومتی خفیہ محکمے دن دھاڑے صحافیوں اور سوشل میڈیا تنقید نگاروں کو پریشان کر رھے ھیں ۔ حکومتی نا اھلیوں کی وجہ سے تو ملکی معیشت کا بھٹہ کرونا وائرس سے پہلے ھی بیٹھ چکا تھا، رھی سہی کسر کرونا وائرس نے نکال دی اور جو بچ گئی وہ حکومتی مافیا کی نظر ھو گئی۔ الغرض اندرونی طور پر ملک مکمل طور پر انتشار کا شکار ھے۔ اور شاید وطن عزیز زیادہ عرصے یہ صورتحال برداشت کرنے کا متحمل نہ ھو سکے ۔ بیرونی طور پر ھماری جغرافیائی پوزیشن کی وجہ سے ھماری اھمیت میں موجودہ عالمی پیشرفت کی بدولت بے پناہ اضافہ ھوا ھے ۔ لیکن ھماری اندرونی کمزوریاں اس اھمیت کا فائدہ اٹھانے کی راہ میں حائل ھیں۔ مثال کے طور پر چین کی ون بیلٹ ون روڈ پالیسی اس خطہ میں سی پیک سے بہت آگے بڑھ چکی ھے۔ چین نے یہ پالیسی ایران کیساتھ بھی قائم کی ھے یوں پاکستان کو گومگو کی حالت سے نکلنا ھوگا۔ خطہ میں جہاں امریکہ بھارت کو استعمال کرتے ھوئے چین کے مفادات کو کاری ضرب لگانا چاھتا ھے وھیں سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور مصر اسرائیل کیساتھ ھاتھ ملا چکے ھیں اور یہ تمام عرب ممالک اب امریکن بلاک کا حصہ ھیں ۔ یہی وہ عالمی سیاست ھے جو یمن اور شام میں امن قائم نہیں ھونے دے رھی۔پاکستان اپنی جغرافیائی پوزیشن اور ایٹمی صلاحیت کے بل بوتے پر اس عالمی سیاست اور رسہ کشی کا نہ چاھتے ھوئے بھی حصہ بننے پر مجبورھے۔ یوں اول تو پاکستان کو نہایت سمجھداری سے اس عالمی سیاست میں اپنی نیوٹرل حثیت کو قائم رکھنا چاھئیے اور اس سلسلے میں وزیر خاجہ شاہ محمود کی بونگیوں کو لگام ڈالنے کی اشد ضرورت ھے ۔ اور اگر پاکستان کو دیوار سے لگا ھی دیا جائے تو پھر پاکستان کو وہ ماضی کی غلطی کبھی نہیں دوھرانا چاھئیے جب پاکستان نے اپنے پڑوسی روس کو مسترد کرتے ھوئے ھزاروں میل دور بیٹھے امریکہ سے ھاتھ ملایا تھا ۔آج پاکستان کو چین، روس، ترکی،ایران، قطر، ملائیشا اور افغانستان میں طالبان حکومت کا ھی ساتھ دینا چاھئیے اور اسکی بہت ھی آسان توجہیہ یہ ھے کہ پاکستان کی سرحدیں ایران، افغانستان اور چین سے ملتی ھیں اور روس بھی کچھ زیادہ دور نہیں ھے۔عالمی سطح پر دنیا دو بلاکز میں بٹ چکی ھے جہاں ایک بلاک کی قیادت امریکہ کر رھاھے اور دوسری کی قیادت چین کے ھاتھوں میں ھے۔ پاکستان کو بہت جلد نہایت اھم فیصلہ کرنا ھونگے ۔ اس کیلئے ضروری ھے کہ پاکستان اندرونی طور پر مستحکم ھو اور ملک میں قابل اعتماد حکومت قائم ھو۔ موجودہ صورتحال میں بلا تفریق احتساب ھی اس امر کو یقینی بنا سکتا ھے ۔لیکن نیب کی موجودہ ناقص کارکردگی اور اسکا اپوزیشن کیساتھ امتیازی سلوک ملک میں حالات کو بہتری کیطرف نہیں آنے دیتا اور الٹا فوج کو یہ سیاسی کمبل اب چمٹ چکا ھے اور وہ دامن چھڑانا بھی چاھے تو بظاھر یہ نا ممکن لگتا ھے۔ لیکن بلا امتیاز احتساب ھوتا دیکھ کر حالات میں بہتری لائی جا سکتی ھے اور اسکے لئے حکومت میں بیٹھے چینی، آٹا اور دوائی مافیا کو بھی لٹکانے کی ضرورت ھے ۔ اﷲ پاکستان کو اپنے فضل اور رحمتوں کے سائے تلے ھمیشہ آباد رکھے۔ آمین،بشکریہ سی سی پی ۔بحوالہ: خون مسلم ارزاں ہے ۔ از ڈاکٹر سعید احمد ۔
 

Mehr Ishtiaq
About the Author: Mehr Ishtiaq Read More Articles by Mehr Ishtiaq: 33 Articles with 23943 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.