بین الاقوامی تعلقات میں عالمی کثیر قطبیت اور عظیم تر
جمہوریت کو فروغ دینا انصاف اور شفافیت کو برقرار رکھنے کا اہم جزو ہے۔یہی
وجہ ہے کہ ایک بڑے اور ذمہ دار ملک اور دنیا کی دوسری بڑی معاشی طاقت کی
حیثیت سے چین نے ہمیشہ مساوی اور منظم کثیر قطبی دنیا کی وکالت کی ہے، جس
کا مطلب ہے کہ ہر ملک کثیر قطبی نظام میں اپنی جگہ بنا سکتا ہے اور بین
الاقوامی قانون کے مطابق اپنا مناسب کردار ادا کر سکتا ہے۔
چین اس بات کی حمایت کرتا ہے کہ کثیر قطبی دنیا مساوی ہونی چاہیے، یعنیٰ
تمام ممالک کی برابری پر زور دینا، بالادستی اور طاقت کی سیاست کی مخالفت
کرنا، بین الاقوامی معاملات میں چند ممالک کی اجارہ داری کی مخالفت کرنا
اور بین الاقوامی تعلقات میں زیادہ سے زیادہ جمہوریت کو مؤثر طریقے سے فروغ
دینا ، چین کے نزدیک بنیادی عوامل ہیں۔چین کا ماننا ہے کہ کثیر قطبیت ایک
تاریخی عمل ہونا چاہیے جس میں ممالک تقسیم کے بجائے یکجہتی، محاذ آرائی کے
بجائے بات چیت، تنازعات کے بجائے تعاون اور شکست یا ہار کے حالات کے بجائے
جیت جیت نتائج کا انتخاب کریں۔اس مقصد کے حصول کے لیے تمام ممالک کو اقوام
متحدہ کے چارٹر کے مقاصد اور اصولوں کو برقرار رکھنا چاہیے، بین الاقوامی
تعلقات کو چلانے والے عالمی سطح پر تسلیم شدہ بنیادی اصولوں کا تحفظ کرنا
چاہیے اور حقیقی کثیر الجہتی پر عمل کرنا چاہیے۔
اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ بین الاقوامی منظر نامہ کس طرح تبدیل ہوتا ہے
، چین ہمیشہ تاریخ کی درست سمت میں کھڑا رہا ہے اور انصاف اور شفافیت کو
برقرار رکھے ہوئے ہے۔دنیا بھی تسلیم کرتی ہے کہ چین ہمیشہ عالمی امن کا
مضبوط معمار، عالمی ترقی میں حصہ دار اور بین الاقوامی نظم و نسق کا محافظ
رہے گا۔چین نے ہمیشہ یہ موقف اپنایا ہے کہ وہ انصاف اور شفافیت کو برقرار
رکھے گا، حقیقی کثیر الجہتی کی پاسداری کرے گا، اقوام متحدہ کے دائرہ کار
اور کردار کا تحفظ کرے گا، عالمی گورننس کے ڈھانچے کو زیادہ متوازن اور
موثر بنائے گا، اور ایک مساوی اور منظم کثیر قطبی دنیا کی تعمیر کرے گا۔
حالیہ برسوں میں دنیا نے بخوبی یہ مشاہدہ کیا ہے کہ کیسے چین نے بین
الاقوامی امور میں مسلسل عدل و انصاف کو برقرار رکھا ہے جبکہ اہم مسائل کا
حل تلاش کرنے کے لیے بات چیت اور مشاورت کا تعمیری راستہ اپنایا ہے ۔ چین
کے نزدیک مساوات اور انصاف کو فروغ دینے کی کوششیں دیرپا امن و استحکام کی
کلید ہیں ۔اس کی ایک تازہ مثال رواں برس تیس مئی کو چینی صدر شی جن پھنگ کا
چین عرب ممالک تعاون فورم کی 10 ویں وزارتی کانفرنس کی افتتاحی تقریب سے
کلیدی خطاب ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ چین فلسطین کی ایک آزاد
ریاست کے قیام کی بھرپور حمایت کرتا ہے جسے 1967 کی سرحدوں کی بنیاد پر
مکمل خودمختاری حاصل ہو اور مشرقی یروشلم اس کا دارالحکومت ہو۔ چین اقوام
متحدہ میں فلسطین کی مکمل رکنیت کی حمایت کرتا ہے اور زیادہ وسیع البنیاد،
مستند اور موثر بین الاقوامی امن کانفرنس کی حمایت کرتا ہے۔تقریب میں شریک
ممالک کے رہنماؤں نے مسئلہ فلسطین پر چین کے منصفانہ اور دوٹوک موقف کو
سراہا۔ انہوں نے غزہ میں کشیدگی اور انسانی بحران کو کم کرنے میں مدد کے
لئے چین کے ساتھ مل کر کام کرنے پر آمادگی کا اظہار کیا۔
اسی طرح چار جولائی کو شی جن پھنگ نے آستانہ، قازقستان میں "شنگھائی تعاون
تنظیم پلس" کے اجلاس میں شرکت کے دوران اہم خطاب کیا، جہاں انہوں نے عدل و
انصاف کے مشترکہ گھر کی تعمیر پر زور دیا۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہ
اجلاس میں آستانہ اعلامیہ اور انصاف، ہم آہنگی اور ترقی کے لیے عالمی اتحاد
سے متعلق شنگھائی تعاون تنظیم کا اقدام جاری کیا گیا ہے۔ یہ نئے دور کا ایک
مضبوط پیغام تھا، جو تقسیم، محاذ آرائی اور بالادستی کے بجائے یکجہتی،
تعاون اور انصاف کا مطالبہ کرتا ہے۔
|