کراچی ایک زمانے میں واقعی عروس البلاد تھا


کراچی ایک زمانے میں واقعی عروس البلاد تھا۔ بہت بڑا‘ روشن‘ ترّقی یافتہ‘ مہذب اور بارونق شہر تھا۔ لاہور تو اس کے مقابلے میں ایک گاؤں ہی معلوم ہوتا تھا۔ ان دنوں لاہور والے حیران ہونے کے لیے کراچی جایا کرتے تھے اور واپسی میں ایسے ہی قصّے سناتے تھے جیسے کہ یورپ سے واپس آنے والے سنایا کرتے تھے۔

”کیا بتائیں۔ کراچی میں کتنا ہنگامہ ہے۔ کاروں کی ریل پیل ہے۔ وہاں تو سڑک عبور کرنا بھی دشوار ہے۔ دولت کمانا اس قدر آسان ہے کہ جو وہاں گیا وہ امیر ہو گیا۔ کراچی بڑا غریب پرور شہر ہے۔ ٹریفک ایسا ہے کہ دیکھنے سے تعّلق رکھتا ہے۔ ایک جگہ سے دوسری جگہ کے فاصلے اتنے زیادہ ہیں کہ آمدورفت ہی میں گھنٹوں لگ جاتے ہیں۔ کراچی والوں کو ایک دوسرے کی خبر نہیں ہوتی۔ پڑوس والے کو بھی یہ معلوم نہیں کہ برابر میں کون رہتا ہے۔ کراچی کی سڑکوں‘ بازاروں اور دکانوں کا کیا کہنا۔ روشنی ایسی کہ دن نکلا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ وہاں کے لوگ مشینوں کی طرح زندگی بسر کرتے ہیں۔ ان کی شام رات کے گیارہ بارہ بجے شروع ہوتی ہے اور یہی ایک دوسرے کے گھر جانے کا وقت ہے۔“ (ان دنوں لاہور میں سات بجے ہی رات ہو جایا کرتی تھی اور آٹھ نو بجے تو سارا شہر سنسان ہو جاتا تھا۔)

کراچی یاترا سے آنے والوں کی داستانیں کئی کئی دن جاری رہتی اور لوگ بڑے شوق و ذوق سے سنتے اور حیران ہوتے رہتے تھے۔

اس وقت کا کراچی سب کو بہت اچھا لگتا تھا۔ کوئی بھی ایک بار کراچی گیا تو پھر بار بار وہاں جانے کے بہانے ڈھونڈتے رہے۔ عموماً لوگ جب کراچی جاتے یا ان کا جانا ہوتا تھا۔ کبھی دوست احباب کے گھر قیام کرتے تو کبھی ہوٹلوں میں۔ کراچی کے متوسط طبقہ کا میٹروپول ہوٹل پسندیدہ ہوٹل تھا۔ بعد میں اس کے سامنے کلفٹن روڈ پر پُل سے اُترتے ہی ایک چھوٹا سا خوب صورت اور ماڈرن ہوٹل بن گیا تھا۔ جس کا نام ”کولمبس“ تھا۔ ایک بار اس میں قیام کرؤ تو پھر ادھر ہی ٹہرنا اچھا لگتا تھا. اس کے کلفٹن کی طرف کے کمرے میں ٹہرنا تو بہت ہی اچھا لگتا تھا ۔ اس کی شیشے کی دیوار میں کلفٹن کو جانے والی سڑک کی روشنیاں دور تک نظر آتی تھیں اور آنکھوں کو بہت بھلی لگتی تھیں۔

اس کشادہ روشن سڑک کے دونوں جانب سمندری دلدل تھی۔ کافی فاصلے پر کلفٹن کے ساحل کی آبادی تھی جو زیادہ اس وقت پھیلی ہوئی نہیں تھی ۔ اگر اب اس جگہ کو دیکھیں تو پہچانی نہیں جاتی۔ کولمبس ہوٹل بھی اب ناپید ہو چکا ہے۔ فلک بوس عمارتوں اور شاپنگ سینٹرز کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے جو دور تک پھیلا نظر آتا ہے۔

کراچی کو پسند کرنے والوں کے پاس پسندیدگی کی مختلف وجوہات ہوتیں تھیں۔ کراچی کا شوروغل (اکثر لوگ ایسے غُل غپاڑہ کہتے تھے) کبھی پسند نہیں آیا حالانکہ آج کے مقابلے میں بہت کم تھا مگر شہر کی صفائی خوبصورتی اور نظم و ضبط نے اُس وقت بہت متاثر کرتا تھا۔ یہ ایک مہذب ، ایجوکیٹیڈ افراد کا اور ترقّی یافتہ شہر تھا۔ جس کے بعض حصّے مغربی ملکوں کے شہروں کے معیار کے تھے۔ ملک کے دوسرے شہروں کے مقابلے میں یہ ایک بالکل مختلف دنیا تھی ، اُس وقت یہ جنوبی ایشیاء کا آج کا دبی و ملیشیاء اس کے آگے کچھ نہیں تھے. جس کے طور طریقے بھی مختلف تھے۔

عوام کو جن چیزوں نے حیران اور متاثر کیا ان میں گدھا گاڑی بھی شامل تھی۔ اُس زمانے میں شہر میں گدھا گاڑیوں کی ریل پیل تھی۔ چھوٹی سی گاڑی کے آگے ایک چھوٹا سا گدھا جتا ہوا بھاگا جاتا تھا۔ اس کے ساتھ ہی ایک اور گدھا بھی دوڑتا رہتا تھا۔ پوچھا کہ بھئی یہ کیا ہے۔ جواب ملا ”یہ پخ ہے۔“

”یعنی گدھے کی پخ؟“ ہر نے حیران ہو کر پوچھا ”مگر اس کا فائدہ کیا ہے، گاڑی تو ایک ہی گدھا کھینچتا ہے۔ بولے ”اس کا فائدہ یہ ہے کہ دونوں میں سے ہر گدھا یہی سمجھتا ہے کہ گاڑی دوسرا گدھا کھینچ رہا ہے۔ اس طرح دونوں خوش رہتے ہیں اور تیز بھاگتے ہیں۔“
گدھے کے گدھے پن کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو گا۔

گدھا گاڑی کے علاوہ اونٹ گاڑی بھی اُس وقت کراچی میں کثرت سے استعمال ہوتی ہوئی نظر آتی تھیں اونٹ اکیلا ہی بوجھ کھینچتا ہے۔ اس کے ساتھ کوئی پخ نہیں دیکھی۔ شاید اس لیے کہ اونٹ کو دھوکا دینا بہت مشکل ہے۔ وہ ایک ذہین اور چالاک جانور ہے۔

اس وقت فِٹُن یا وکٹوریا کو دیکھ کر لاہور سے آنے والوں کی خوشی کا دیکھنا ادھر ناقابل بیان ہے ۔ لاہوری تو یہی کہتے نظر آتے تھے کہ لاہور میں تو اس کا رواج ہی نہیں ہے۔ البتہ دہلی اور میرٹھ میں خاندانی رئیسوں کو فٹن میں سواری نظر آتی تھی ۔ بمبئی کی فلموں میں بھی فِٹُن یا وکٹوریا نظر آجاتی ہے۔یہ خاصی آرام دہ‘ کشادہ اور ہوا دار سواری ہے جس میں ڈرائیور یعنی کوچوان سواریوں کے مقابلے میں اونچی جگہ پر بیٹھتا ہے۔

محبوب صاحب کی فلم آن میں ایک گانے میں دلیپ کمار جب راج کماری (نادرہ) کو لے کر جاتے اور گانا گاتے ہیں تو وہ بھی فِٹُن ہی میں سوار ہیں۔ میرٹھ کی چھاؤنی میں کبھی کبھی وکٹوریا نظر آ جاتی تھی۔ یہ بہت صاف شفّاف اور چمکدار تھی۔ اسے چار گھوڑے کھینچتے تھے۔ آگے پیچھے بگل بجاتے ہوئے گھوڑوں پر سوار فوجی ہوتے تھے۔
چھاؤنی کی کشادہ سڑکوں اور لاہور کے کمپنی باغ کے سامنے والی ٹھنڈی سڑک یا مال پر سے یہ جلوس گزرتا تو چلتے ہوئے لوگ رُک کر دیکھنے لگتے تھے۔

دیگر پاکستانی علاقوں سے آنے والے کراچی پہنچ کر جو سب سے پہلا کام یہ کیا کرے تھے کہ وکٹوریا میں سواری کی جائے ۔ اونٹ گاڑی اور گدھا گاڑی یہ لوگ اپنے اپنے علاقوں میں کرتے رہتے تھے. اس لیے فٹن یا وکٹوریہ کی سواری کے کیے بیتاب رہتے تھے.

وکٹوریا کی سیر کرنے سے کراچی کی کُھلی‘ صاف شفاّف سڑکوں پر بہت لطف دیا کرتی تھی ۔ جبکہ اُس وقت صاف اور تازہ ہوا کے جھونکوں جو پلوشن سے پاک ہوتی تھی ان ہوا کے جھونکوں نے اس لطف کو دوبالا کر دیا کرتے تھے۔ کراچی میں ہر وقت چلنے والی ہوائیں بھی لوگوں بہت اچھّی لگیں۔ شام کے وقت تو آسمان پر گہرے بادلوں اور ہوا کے جھونکوں کی بہار ہی کچھ اور ہوتی تھی۔ لاہور اور پنجاب کے دیگر علاقوں میں یہ ہوا میّسر نہ تھی۔ یہاں بس ضرورت کے مطابق ہوا چلتی رہتی ہے۔ اگر تیز چلے تو اسے آندھی کہتے ہیں۔ مگر کراچی میں یہ ہوا ایک مستقل تازگی فراہم کیا کرتی تھی (افسوس کہ اب یہ بھی کمیاب ہے)۔ کراچی میں ہر وقت ہوا چلنے کے باوجود خاک نہیں اڑتی تھی۔ سڑکیں اور فٹ پاتھ بہت صاف ستھرے تھے۔ کافی عرصے تک تو پاکستان کے دیگر شہروں سے آنے والے اس پر ہی حیران ہوتے رہے کہ فٹ پاتھوں اور سڑکوں پر سفر کرنے کے باوجود نہ جوتوں پر گرد جمتی تھی نہ قمیص کا کالر میلا ہوتا تھا۔ یہی خوبیاں لوگ فرماتے کہ انہوں نے یورپ اور امریکہ میں بھی اس ہی طرح کا لطف پایا کہ کپڑے جوتے وغیرہ پر دھول مٹی یا ٹریفک پلوشن کی راکھ نہیں لگتی تھی.

وکٹوریہ شاہانہ سواری ہونے کے باوجود کافی سستی لگی۔ اس میں عام طور پر سیّاح اور باہر سے آنے والے لوگ ہی سواری کرتے تھے۔ کچھ دور جانے کا کرایہ چار آنے سمجھ لیجئے۔ اگر بھاؤ تاؤ کر لیں تو اس میں مزید کفایت ہو جاتی تھی۔ وکٹوریا کا کوچوان ایک لمبا سا کوڑا لے کر بیٹھتا ہے۔ کبھی کسی نے یہ کوڑا گھوڑے کو مارنے کے لیے استعمال ہوتے نہیں دیکھا۔ شاید یہ ڈیکوریشن کا حصّہ ہے یا وکٹوریا کے لوازمات میں شامل ہے۔ کوچوان کی گفتگو بھی بہت مزے دار ہوتی تھی۔ کراچی کے بارے میں ساری معلومات انہیں حفظِ زبان تھیں۔ کئی کوچوان کافی ادب ذوق نظر آئے۔ انہیں شعر و شاعری سے خاصی رغبت تھی۔ ایک درمیانہ عمر کوچوان کو داغ کا سارا دیوان حفظ تھا ایسا لگتا تھا کہ ہم کسی پروفیسر کے ساتھ سفر پر نکلیں ہیں لوگ اس کے ساتھ اپنے سفر کو مزید طویل کر کردیا کرتے تھے کہ اس کوچوان کے انداز بیاں اتنا متاثر کن ہوتا کہ اکثر کوچوان داغ دہلوی کے اشعار تحت اللّفظ میں سُناتے تو اکثر مُسافر جو اس کے سواری ہوتی وہ یہ بھول جاتے کہ ہمیں جانا کہاں ہے۔ بس وہ سڑکوں پر چکّر لگاتے رہتے اور شعر سناتے رہتے.

بار بار یہ ہی الفاظ سُن نے کو ملتے وہ اکثر یہ ہی کہتے کہ ا ”میاں۔ داغ کی کیا بات ہے۔ اُس جیسا شاعر تو پھر دلّی میں بھی پیدا نہیں ہوا‘ کراچی میں کیا پیدا ہو گا۔“

اس پر کسی مسافر نے کہا ”بھائی۔ آپ کیوں کوشش نہیں کرتے؟“
بولے ”میاں کیوں مذاق کرو ہو۔ ہم شاعری جوگے کہاں رہے؟“
”تو پھر کس جوگے رہ گئے ہو؟“
کہنے لگے ”بس فٹن ہانکتے جوگے رہ گئے ہیں سو ہانک رہے ہیں۔ زندگی کی گاڑی ہانکنا ان دنوں بڑا مشکل ہووے ہے۔ ایڑی چوٹی کا زور لگانا پڑے ہے۔“
وہ سستا زمانہ تھا۔ مسافروں نے آدھے سے زیادہ دیوانِ غالب بھی سنا۔ سیر کی سو الگ‘ کرایہ ایک روپے چار آنے دیا تو وہ خوش ہو گئے۔ آج کی مہنگائی کے زمانے میں خدا جانے ان کا کیا حال ہو گا اور وہ زندگی کی گاڑی کیسے ہانک رہے ہوں گے۔

وکٹوریا اب کراچی میں بھی خال خال ہی نظر آتے ہیں بعض اوقات جو نظر آتی ہے وہ شادی بیاہ میں ایکا دوکا نظر آتیں ہیں اس وقت کراچی میں ناپید ہو چکے ہیں۔ آج کی تیز رفتار دنیا میں ان چیزوں کا بھلا کیا کام۔ البتہ نمائش اور تفریح کی اور بات ہے۔

تیز رفتاری سے یاد آیا کہ اس زمانے میں کراچی میں ٹرام بھی چلتی تھی۔ ٹن ٹن گھنٹی بجاتی ہوئی سڑک پر سے گزرتی تو جو شہر میں نووارد تو چوکنّا ہو کر دیکھنے لگتے تھے۔ سڑک کے درمیان میں ٹرام کی پتلی سی پٹری ہوتی تھی جس پر دوسرا ٹریفک مداخلت کرنے سے گریز کرتا تھا۔ ٹرام کافی سست رفتاری سے چلتی تھی۔ اوپر چھت آس پاس سے کھلی ہوئی۔ درمیان میں لکڑی کی سیٹیں۔ ٹرام کے پچھلے حصّے میں کھڑے ہونے کے لیے کُھلی جگہ ہوتی تھی۔ لوگوں کو وہ جگہ سب سے زیادہ پسند آئی۔
چلتی ٹرام میں سوار ہونا اور اس پر سے اُترنا کوئی مشکل کام نہ تھا کیونکہ وہ بہت سُست رفتار سے چلتی تھی۔ اسے پکڑنے کے لیے بھاگنا بھی ضروری نہ تھا۔ بس ذرا تیز قدمی سے چل کر ٹرام پر چڑھ جائیے۔ پچھلے حصّے میں کھڑے ہو کر آس پاس کا نظارہ کیجئے۔ یار لوگ سڑک چلتے اور باتیں کرتے کرتے بڑے آرام اور اطمینان سے ٹرام میں سوار ہو جاتے تھے۔ اُترتے وقت بھی کسی تکلّف یا اہتمام کی ضرورت نہ تھی۔ بس پہلے ایک پیر لٹکائیں‘ پھر جیسے ہی ٹرام کی رفتار ہلکی ہو آہستہ سے سڑک پر کود جائیں۔

ٹرام بہت غریب پرور سواری تھی۔ غالباً کراچی کے ایک حصّے سے دوسرے حصّے تک سفر کرنے کا کرایہ ایک یا ڈیڑھ آنہ تھا۔ ٹریفک میں بہتری پیدا کرنے کے نام پر یہ بند کر دی گئی ( مگر جو آج تک اس ٹریفک میں بہتی نہ لاسکے ) اگر یہ چلتی رہتی تو کراچی کے لوگوں کا بھلا ہوتا۔

دنیا کے بہت سے ترّقی یافتہ ملکوں میں آج بھی ٹرام چلتی ہے مگر ہمارے ناسمجھ لوگوں کو بڑے شہر کو سنبھالنے کی سمجھ بوجھ سے آج تک عاری ہی رہے. شاید انہیں عام لوگوں کی سواری اور سہولت اچھّی نہیں لگتی۔ ٹرام کراچی میں آمدورفت کا بہت اچھّا اور سستا ذریعہ تھی۔ رش کے اوقات میں تو ذرا بھیڑ بھاڑ ہوتی تھی‘ اس کے علاوہ ہر وقت بڑے آرام سے سفر اور فاصلہ طے ہو جاتا تھا اور جیب پر بوجھ بھی نہیں پڑتا تھا۔ کراچی غریب پرور شہر تھا اور کافی عرصے تک ایسا ہی رہا.

مگر اب جو کراچی کا حال گزشتہ 40 سالوں سے کیا ہوا ہے اس پر کہنے کو اب کچھ نہیں رہا یہ تو آپ خود اندازہ لگالیں یہ عروس الباد شہر اب تو گداگروں، خواجہ سروں، چنگچیوں، رکشوں، کھٹارہ بسوں، تیز رفتار ڈمپروں و پانی کے ٹینکروں، لنگر خانوں کی لگی لائنوں، ٹوٹی پھوٹی سڑکوں، سڑکوں پر بہتے تالاب، کُھلے ہوئے قاتل مین ہولوں، فٹ پاتھوں پر قبضہ مافیا، سروس روڈوں پر مافیہ کے ہوٹلوں، آئے دن چھینا جھپٹی مافیہ کے کارندوں، بڑی بڑی گاڑیوں پر اسلحہ بردار سرداروں، پلاٹوں پر قبضہ مافیہ، روڈوں پر تیز رفتار گاڑیوں کا سرعام لوگوں کو ابدی نیند پہنچانا، جگہ جگہ کچرہ کُنڈی پر پہاڑ جیسا گندگی کا ڈھیر، گٹروں و نالوں سے گندہ پانی روڈوں پر آنا، وغیرہ وغیرہ اب کراچی وہ کراچی نہیں رہا اس کو تباہ و برباد کردیا ہر آنے والے نے اپنے ووٹ کے چکر میں بے تحاشہ اپنے اپنے ووٹ بینک میں تو اضافہ کرلیا مگر کراچی دنیا میں پہلا وہ شہر نظر آرہا ہے کہ اس شہر کو گاؤں بنتا دیکھ کر دل خون کے آنسو رورہا ہے کہ اس شہر کے ساتھ تم نے کیا کیا یہ شہر وہ شہر جس نے دبی، ملیشیا، سنگاپور، بمبی، استنبول، سے پہلے ترقی کی منزل پر رواں تھا اس وقت مغربی میڈیا یہی کہتا تھا کہ لندن، اور نیویارک شہروں سے مقابلہ دنیا میں ایک ہی شہر نظر آرہا ہے وہ پاکستان کا شہر کراچی اُس وقت یہ دبی، ملیشیا، سنگاپور، ٹوکیو، شنگاہی، ٹورنٹو، بمبی، استنبول وغیرہ تو مغربی میڈیا ان کے نام بھی نہیں جانتا تھا.

اللہ تعالی سے یہی دُعا ہے کہ کراچی کو دوبارہ ٹریک پر لانے والے ایسے لیکر آیں پھر یہ ترقی کے طرف رواں دواں ہو.
آمین
۔ا
 

About the Author: Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.