پروفیسر ڈاکٹر نورین اکرم راٹھور
میں نے زندگی میں بہت اتار چڑھاؤ دیکھے۔ ٹوٹ کر بکھرنے اور پھر سنبھلنے کے
عمل سے کئی بار گزری۔ ہر دفعہ درد کا انداز نیا تھا اور ٹوٹ کر بکھرنے کا
بھی مختلف طریقہ ہوتا تھا۔ سمجھ نہیں آتی تھی کہ میرے ساتھ ایسا کیوں ہو
رہا ہے۔ آخر میں ہی کیوں ان تکالیف کے لیے چنی گئی ہوں؟ کیوں مجھے ہی
آزمایا جا رہا ہے؟ دنیا میں سب لوگ خوش ہیں میرے سوا، سب ہنستے ہیں، زندگی
کو جیتے ہیں۔ یہ درد اور آنسو میرے حصے میں کیوں آتے ہیں؟بس اسی طرح سوچتے
سوچتے ایک باب زندگی کا تمام ہوا۔ پھر تنہائی اور خاموشی میری ساتھی بن
گئیں اور میں نے اپنے درد سے خاموش گفتگو کی۔ جتنے سوال تھے، اتنے ہی کیے۔
اشکبار ہوئی آنکھیں کئی بار۔ رقت طاری ہوئی، سجدے میں گرتی اور گھنٹوں روتی
رہتی کہ میرے ساتھ ہی کیوں ایسا ہو رہا ہے؟ جس سے بات کی، اس نے وظیفہ تھما
دیا کہ اسے پڑھو۔ پڑھتی رہی، گھنٹوں گزر جاتے، پر سوالوں کے جواب نہ ملے۔
حالت ویسی کی ویسی رہی۔زندگی اسی کشمکش میں گزر رہی تھی کہ والدین اور
چھوٹا بھائی اﷲ کے پاس چلے گئے۔ ایک وقت میں تین درد جیسے اندر سے قلب کو
چیر دیا گیا ہو۔ سب کچھ بکھر گیا، کچھ باقی نہیں رہا، سوائے اندھیروں کے۔
میرے پاس دعا کے سوا کوئی راستہ نہیں تھا۔ اپنوں کے جانے کا دکھ جس نے مجھے
مار دیا، زندہ تھی مگر زندگی نہ تھی۔ بس خاموشی اور تنہائی میرے ساتھ
تھیں۔پھر ایک دن اندر سے دستک سنائی دی۔ دستک قلب پر ہوئی اور درِ روح کھلا۔
آواز آئی: ''میں ہوں تمہارے ساتھ، تمہیں کس بات کا غم ہے؟ کیا میں تمہارے
لیے کافی نہیں؟'' بس یہ الفاظ تھے کہ میرے درد میں ایک نئی سوچ نے جنم لیا۔
یہ الفاظ نہیں بلکہ جامِ حیات تھے۔ پھر ہر بار یہ آواز آتی اور میں زندہ
ہونے لگی۔ اب میں وہ لڑکی نہیں تھی جو ٹوٹ کر مر چکی تھی، بکھر چکی تھی اور
تنہائی میں قید تھی۔ اب میری تنہائی کا ساتھی آ چکا تھا جس نے قلب کے در کو
کھول دیا، اور یہ در ذکرِ قلبی سے کھلا۔ جس ذکر کو میں نے ہمیشہ خاموشی اور
تنہائی میں کیا تھا، وہ کلام تھا اپنے رب سے، اور جواب بھی اسی کے پاس
تھا۔بس مجھے راستہ مل گیا۔ پھر میرے سوال ہوتے، باتیں ہوتیں، اور میرا رب
سنتا تھا۔ میں بات کرتی تھی، وہ سنتا تھا۔ اس یقین نے میرے اندر گھر بنا
لیا اور مجھے میرے سوالوں کے جواب ملنے لگے۔ میری سوچ، میرے آنسو، میری
تنہائی اور خاموشی نے مجھے اتنا مضبوط کر دیا، اتنا مثبت کر دیا کہ میں
مکمل بدل چکی تھی۔
مجھے ساری دنیا سے محبت ہو گئی، قدرت سے محبت ہو گئی۔ ہر ایک انسان مجھے
عزیز ہو گیا، یہ تھا مثبت سوچ کا اثر۔ پھر میرے الفاظ دعائے خیر میں بدل
گئے۔ میں برائی کا جواب بھی مسکرا کر دینے لگی کیونکہ میں ان حالات کو سمجھ
چکی تھی جن میں انسان دوسروں کو ذمہ دار ٹھہرا کر خود کو بڑا سمجھنے لگ
جاتا ہے۔ مجھے اب ان کے لیے دعائے خیر کرنی تھی۔یہاں مجھے شعور کی منزلوں
کا ادراک ہوا اور میں نے سمجھا کہ انسان پہلی شعور کی سطح پر بدکلامی کا
جواب بدکلامی سے دیتا ہے، برے کے ساتھ برا کرتا ہے، اینٹ کا جواب پتھر سے
دیتا ہے۔ دوسری شعور کی سطح پر انسان بدکلامی کے جواب میں خاموشی اختیار کر
لیتا ہے کیونکہ وہ اندر کی کیفیت کو جان لیتا ہے اور بدکلامی کرنے والے کو
اپنے حال پر چھوڑ دیتا ہے، دعائے خیر دے کر گزر جاتا ہے۔پھر اسے شعور کی
تیسری سطح پر لایا جاتا ہے، جہاں انسان نہ صرف اپنے جذبات پر قابو پا لیتا
ہے بلکہ برے الفاظ کا جواب بہترین اخلاق سے دیتا ہے کیونکہ اس کے پاس دینے
کے لیے خیر ہی ہوتی ہے، وہ اور کچھ دے ہی نہیں سکتا۔شعور کی اس سطح پر جب
انسان آ جاتا ہے تو معاشرے میں اچھا اخلاق پروان چڑھتا ہے، علم پھیلایا
جاتا ہے، لوگوں کے قلوب سے کلام ہوتی ہے، اور یہی راستہ علم کے حصول کے لیے
بنتا ہے۔ اشرف المخلوقات انسان بننے کے سفر پر چل نکلتا ہے۔ علم، اخلاق
سکھاتا ہے اور عمل بولتا ہے۔ علم اور عمل دونوں ایک دوسرے کے ساتھ جڑ جاتے
ہیں۔ اس سطح پر آپ کو علم عطا ہی نہیں ہوتا اگر آپ عمل سے خالی ہوں، کیونکہ
ان دونوں کے لیے اخلاق کا ہونا ضروری ہوتا ہے۔ضروری ہے کہ مثبت رہو کیونکہ
تمہارے اندر جو بولتا ہے، وہ باہر والے بھی سنتے ہیں۔ انسان اپنی طرف سے
کچھ نہیں کہہ سکتا۔ جب یہ ساری حقیقتیں مجھ پر کھلیں تو میرے اندر مچلتی
ہوئی سمندر کی لہروں کو سکون مل گیا اور میں پھر ''میں'' نہیں رہی، بلکہ ''تم''
تک پہنچ چکی تھی۔ میرا وجود مٹ گیا تھا اور اس کا کلام گفتگو کرتا تھا۔
میرا کچھ نہ رہا، میری ہستی مٹ چکی تھی، اور مجھے میرے ہونے کا مقصد سمجھ آ
چکا تھا۔ اب میں خاموش ہوں اور وہ بولتا ہے، لوگ سنتے ہیں، اور میں سجدہ
شکر کرتی ہوں
|