بڑھتی آبادی و بیروزگاری سے کینیڈین وزیراعظم نے بھی لیا U ٹرن


حالیہ سالوں میں کینیڈا میں آبادی کا دباؤ حد سے زیادہ بڑھ گیا اس کی وجہ سے بیروزگاری میں بھی اضافہ ہونا ضروری تھا. اس بڑھتی ہوئی آبادی و بیروزگاری کے دباؤ کی وجہ سے کینیڈا کے وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے بھی حالیہ دنوں میں اپنے ایک بیانیہ میں کہنا پڑا کہ “ ان کی حکومت ملک میں کم اجرت والے عارضی طور پر مقیم غیر ملکی کارکنوں کی تعداد میں کمی کرنے جا رہی ہے۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ کینیڈا کے کاروبار گھریلو ملازمین اور نوجوانوں میں سرمایہ کاری کریں۔”

کینیڈین وزیراعظم نے یہ قدم ایک ایسے وقت پر اٹھایا ہے جب کینیڈا میں بڑھتی ہوئی آبادی کے مسئلے سے نبرد آزما ہے۔ اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس مسئلے نے ہاؤسنگ اور ہیلتھ کیئر جیسی عوامی خدمات پر دباؤ ڈالا ہے۔

کینیڈین وزارت داخلہ کے وفاقی اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ برس کینیڈا کی آبادی میں اضافے کی سب سے بڑی وجہ خاص وجہ امیگریشن تھی۔
کینیڈین وزیراعظم جسٹن ٹروڈو اور ان کی حکومت کو ملک میں خدمات اور مکانات کی تعمیر جیسی سہولیات میں اضافہ کیے بغیر امیگریشن کو فروغ دینے پر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ جبکہ کینیڈا میں گذشتہ دو ماہ میں بے روزگاری کی شرح 6.4 فیصد تک بڑھ گئی ہے جو کینیڈین کی تاریخ میں سب سے بڑا بیروزگاری میں اضافہ ہے، جس کا صاف نتیجہ یہی نکلتا ہے کہ پورے ملک میں ایک اندازے کے مطابق 14 لاکھ سے ذائد لوگ بے روزگار ہیں۔

کینیڈا دنیا بھر میں اپنی اوپن ڈور امیگریشن پالیسی کے لیے جانا جاتا ہے۔ اس پالیسی کی بدولت، دنیا بھر سے پچھلے کئی برسوں میں لاکھوں ہنر مند افراد کینیڈا منتقل ہوئے۔

حالیہ برسوں میں کینیڈا کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہونے لگا ہے جہاں آبادی میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ سنہ 2024 میں کینیڈا کی آبادی 3.3 فیصد اضافے کے ساتھ 4 کروڑ سے بھی ذائد تجاوز کر گئی۔ یہ اب تک ہونے والا سب سے زیادہ اضافہ ہے۔

کینیڈا کے امیگریشن ڈیپارٹمنٹ کا کہنا ہے کہ ’کینیڈا کی آبادی میں ہونے والا اضافہ تقریباً مکمل طور پر عارضی یا مستقل امیگریشن کی وجہ سے ہے۔‘

مگر اس غیر معمولی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کے باعث ملک میں رہائش کے لیے دستیاب مکانات کا بہت بڑا فقدان سامنے آ رہا ہے اور یہ ایک ایسے مسئلے کو جنم دے رہا ہے جس نے کینیڈین معیشت کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے.

جنگِ عظیم دوئم کے وقت کینیڈا کی آبادی محض 1 کروڑ 20 لاکھ نفوس پر مشتمل تھی۔ اس کے بعد آنے والی دہائیوں میں، کینیڈا کی حکومت نے ملک کی آبادی بڑھانے اور معیشت کے فروغ کے لیے غیر ملکیوں کو راغب کرنے کے لیے مختلف پالیسیاں اپنائیں۔

اس کے نتیجے میں 50 سال میں کینیڈا ایک کثیر ثقافتی ملک میں تبدیل ہوتا چلاگیا. اور اس کی آزاداںہ امیگریشن پالیسیوں نے ملک میں ہنرمند افراد کی آمد کو یقینی بنایا اور اس نے کینیڈا کی معیشت کو تقویت بھی بہت بخشی۔

سنہ 2023 میں کینیڈا کی جی ڈی پی (GDP) میں %1.29 کا اضافہ ہوا جبکہ اس کے برعکس آبادی 3.2 فیصد کے حساب سے بڑھتی گئی
آبادی کے جال کا مسئلہ اس وقت پیش آتا ہے جب کسی ملک کی آبادی اس کی معیشت سے کہیں زیادہ رفتار سے بڑھ رہی ہو۔ اس کے باعث، ملک میں موجود کمپنیاں اور سرکاری اداروں کی سرمایہ کاری صرف موجودہ وسائل کو برقرار رکھنے کے لیے کافی ہوتی ہے اور معیارِ زندگی بہتر بنانا ممکن نہیں رہ پاتا۔

اکثر اقتصادی ماہرین کا یہی کہنا ہے کہ تارکینِ وطن کی تعداد میں نمایاں اضافے اور معیشت کے اس کے مساوی اضافہ نہ ہونے کے باعث یہ مسئلہ پیش آرہا ہے۔

'یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ کینیڈا کی فی کس خالص سرمایہ سٹاک میں سالانہ کمی واقع ہوئی ہے۔'

فی کس خالص سرمایہ سٹاک سے مراد پیداواری وسائل میں اوسط اضافہ ہے جو ہر فرد کو دستیاب ہو جیسے کہ عمارتیں، ٹیکنالوجی اور مشینری وغیرہ۔

ابتدائی اعداد و شمار کے مطابق، پچھلی سہہ ماہی اس اندیکس میں کمی کی چھٹی مسلسل سہہ ماہی ہے۔ جبکہ 1982 کے بعد سے یہ کساد بازاری کا طوال ترین سلسلہ ہے۔

حکومت کے امیگریشن مقاصد کو مدِ نظر رکھتے ہوئے لگتا ہے کہ جب تک سرمایہ کاری میں قابلِ ذکر اضافہ حاصل نہیں کرلیتے، تب تک اس لیے مسئلے سے چھٹکارا پانا ناممکن ہے۔

سنہ 2024 جون تک میں ساڑھے 16 لاکھ سے زائد افراد نے کینیڈا کا رُخ کیا جبکہ اس دوران صرف دو لاکھ سے ذائد نئے گھروں کی تعمیر پر کام شروع ہوا. جو کینیڈین حکومت کی سست روئی عیاں کرتی ہے.

جبکہ کینیڈین نیشنل بینک کے ڈیٹا کے مطابق، کینیڈا میں ہر زیر تعمیر رہائشی جگہ کے لیے 4.2 افراد ملک میں داخل ہوئے۔

اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ 2023 کے پہلے کے برسوں میں یہ فرق نہیں تھا لیکن اس عدم توازن نے حالیہ دنوں میں رہائشی افراطِ زر پر شدید دباؤ میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ اور اس کے نتیجے میں گھروں کے کرایوں اور قیمتوں میں خاطرخواہ اضافہ ہورہا ہے۔

دیکھا جائے کینیڈین امیگریشن کے نتیجے میں آبادی میں نمایاں اضافہ ایک ایسے وقت ہوا جب سپلائی محدود تھی۔ یہ سب سے زیادہ واضح طور پر ہاؤسنگ اور کرائے کی مد میں دیکھا جاسکتا ہے۔

رینٹل پورٹل کے اعداد و شمار کے مطابق، کینیڈا میں انفرادی اپارٹمنٹ کا اوسط کرایہ دسمبر 2023 میں تقریباً 1,610 امریکی ڈالر تھا جو دو سال پہلے کے مقابلے میں 22 فیصد زیادہ ہے۔ جب کہ اونٹاریو اور وینکوور جیسے شہروں میں یہ 2000 ڈالر سے بھی زیادہ تجاوز کر جاتا ہے۔

حال ہی میں کینیڈا کی مارگیج اور ہاؤسنگ کارپوریشن کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق اگر یہ رجحان جاری رہا تو سنہ 2030 تک 35 لاکھ مکانات کی کمی ہو جائے گی۔

ان سب کے باوجود کینیڈا کی وزارتِ امیگریشن اب بھی پر امید ہے۔ وزارت امیگریشن کے مطابق، 'امیگریشن کی وجہ سے آبادی میں اضافے سے ہاؤسنگ، انفراسٹرکچر اور خدمات کی مانگ میں اضافہ ہوتا ہے، مگر دوسری جانب یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ نئے گھر بنانے کے لیے مزدوروں کی فراہمی سمیت تعمیراتی شعبے میں بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔'
پچھلے سال مارچ کے مہینے میں کینیڈین حکومت نے ہاؤسنگ ایکسیلیلیٹر فنڈ بھی قائم کیا۔ اس کا مقصد شہروں میں رہائشی عمارتوں کی زیادہ سے زیادہ تعمیر کی حوصلہ افزائی کرنا ہے اور اس مد میں 2026-27 تک چار ارب امریکی ڈالر بھی مختص کیے گئے تھے۔

اس کا مقصد صرف یہی تھا کہ آئندہ برسوں میں ملک بھر میں 100,000 اضافی رہائشی یونٹس فراہم کرنا ہے۔

تاہم، آبادی میں اضافے کو مدِ نظر رکھتے ہوئے یہی چیز جو نظر آرہی ہے کہ مکانات کی اتنی تعداد اس بحران سے نمٹنے کے لیے ناکافی ہوگی۔


 

انجینئر! شاہد صدیق خانزادہ
About the Author: انجینئر! شاہد صدیق خانزادہ Read More Articles by انجینئر! شاہد صدیق خانزادہ: 392 Articles with 191829 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.