کراچی میں کارساز کے مقام پر امیرزادی نتاشہ کی طوفانی
رفتار لینڈ کروزر سے ہلاک ہونے والے افراد کے بعد اگرچہ ملزمہ پولیس کسٹڈی
میں ہے ۔ لیکن بااثر طبقات کی جانب سے وقوع پذیر ہونے والے ایسے کیسز اور
واقعات کی شہرت کو مدنظر رکھتے ہوئے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ملزمہ
نتاشہ وہاں کتنے سکون میں ہوگی ۔ گو کہ اس کیس میں کراچی پولیس کا متاثرین
کے ساتھ رویہ اور برتاؤ حیرت انگیز طور پر قابل تحسین ہے ، پولیس حکام کے
ساتھ ساتھ صوبے کے اہم حکومتی عہدیداروں نے بھی لواحقین کو انصاف کی یقین
دہانی کروائی ہے …… لیکن ہائی پروفائل کیسز میں پولیس، قانون یا مجموعی طور
پر جوڈیشل سسٹم کو بھلا کون خاطر میں لاتا ہے؟ ۔ ہمارے قانون کے اندر بھی
ایک قانون موجود ہے جو ایسے اثر رسوخ رکھنے والوں کے تحفظ کی راہ نکالتا ہے
۔ ریمنڈ ڈیوس، شاہ رخ جتوئی، مجید اچکزئی اور نجانے ایسے کتنے ہی نام ہیں
جنہوں نے اپنی معاشرتی پوزیشن کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہمارے قانون اور نظامِ
انصاف کی آزادی اور شفافیت کو عیاں کیا ۔
کارساز میں باپ بیٹی کو کچلنے والی نتاشہ کی مالی حیثیت بھی کسی سے ڈھکی
چھپی نہیں رہی ۔ بڑی بڑی کمپنیوں کے اہم عہدوں پر فائز اس خاتون سے جب
واقعہ سرزد ہوا تو اس کے وکلاء اور ڈاکٹرز کی جانب سے کبھی نفسیاتی ، کبھی
ذہنی دباؤ کا شکار ، کبھی انٹرنیشنل ڈرائیونگ لائسنس ہولڈر اور کبھی کچھ
اور تاویلیں گھڑ کے معاملے کی سنگینی کو کم کرنے کی کوشش کی گئی ۔ بات بنتی
دکھائی نہ دی تو موصوفہ کو درمیانی راستہ دینے کیلئے ایسے مزید حربے بھی
استعمال کئے گئے ۔ دوسری جانب نتاشہ کی سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی
ویڈیوز میں بھی واضح ہے کہ ملزمہ کو اپنے کئے پر کوئی شرمندگی نہیں ہے اور
وہ قانون کو انگلیوں پر نچانے کا یقین رکھے ہوئے ہے ۔ ملزمہ کا اطمینان بھی
بتا رہا ہے کہ وہ ایسا کرنے میں کامیاب رہے گی اور جلد وکٹری کا نشان بنا
کر نظامِ انصاف کا منہ چڑا رہی ہوگی ۔
وکیل کا کہنا ہے کہ نتاشہ فیملی، متاثرہ فیملی کو قانونی طور پر متعین کردہ
68 لاکھ روپے دیت فی فرد کے حساب سے ادا کرنے کو تیار ہے ۔ یہ بگڑے ہوئے
رئیس دیت کے اسلامی قانون کا فائدہ اپنے مقاصد کیلئے کتنی آسانی سے اٹھا
لیتے ہیں ، اس کا اندازہ ہمیں اس طرز کے سابقہ کیسز سے بخوبی ہوجاتا ہے ۔
المیہ تو یہ بھی ہے کہ ہمارے نظام عدل کے رکھوالے بھی اس طرح کے ’’چھوٹے
موٹے‘‘ کیسز پر اپنا حق ادا نہیں کرتے ، بلکہ عوامی مسائل کی بجائے غیر
ضروری مسائل پر زیادہ توجہ دیتے ہیں۔ ہمارے صحافی دوست نوید چوہدری نے ایسے
طرزِ عمل پر کیا خوب تبصرہ کیا ہے کہ ’’جس معاشرے میں زندگی لڈو کا کھیل بن
جائے اور ریاست کا تمام نظام سانپ کو بچانے نکل پڑے، وہاں صرف سانپوں کا
راج ہو سکتاہے‘‘۔ ایسے واقعات میں عام تاثر یہی دیا جاتا ہے کہ لواحقین جھک
گئے اورانہوں نے ملزم کو معاف کر دیا ۔ لیکن حقیقت اس کے برعکس ہوتی ہے ۔
متاثرین کو سرنڈر ہونے پر مجبور کیا جاتا ہے اور نظام عدل انہیں تحفظ فراہم
کرنے میں ناکام رہتا ہے ۔ قانون بھی اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے سے ہچکچاتا
ہے ۔ ایسے میں غریب کے پاس طاقتور کی بات ماننے کے علاوہ کوئی آپشن بھی
نہیں بچتی ۔
نتاشہ جیسی حیثیت کے افراد کے کیسز میں بالخصوص جوڈیشل سسٹم کا کردار ہمیشہ
ہی سوالیہ نشان رہا ہے۔ متاثرین کے خون کی قیمت لگانا ’’بڑے لوگوں‘‘ کا
بائیں ہاتھ کا کام ہے۔ انصاف کو یہ اپنے گھر کے دربان سے زیادہ کی حیثیت
نہیں دیتے ۔ ایسے میں ’’نتاشہ کا کیا ہوگا‘‘ ، اس سوال کا جواب تلاش کرنے
کی ضرورت نہیں۔ البتہ اس رویے میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے کہ جب قانون کا
واسطہ کسی اثر و رسوخ رکھنے والے سے پڑ جائے تو قانون معمول کے تقاضے پورے
کرنے سے نجانے کیوں خوفزدہ ہو جاتا ہے ۔ ہمارا نظام عدل خودمختار اور
بااختیار ہو تو ہمیں یہ دن نہ دیکھنے پڑیں۔
یہ امر بھی حقیقت پر مبنی ہے کہ ہمای بھولی بھالی قوم ہر کیس میں انصاف کی
امید لگا لیتی ہے ۔ موجودہ کیس پر بھی پورے پاکستان کی نظریں ہیں۔ حالانکہ
ماضی کے تجربات کو مدنظر رکھیں تو یہ کیس آغاز سے ہی اختتام پذیر ہو چکا ہے
۔ دنیا کو دکھانے کیلئے صرف فارمیلیٹی پوری کی جا رہی ہے ۔ جب نتاشہ کا
میڈیا ٹرائل کچھ تھمے گا اور ہمیں دیگر عنوانات میں الجھا دیا جائے گا تو
ہم بھی یہ موضوع بھول کر حالات کی رو میں بہنا شروع ہو جائیں گے اور
متاثرین دل پر جبر کر کے خاموش رہنے پر مجبور ہو جائیں گے، کیونکہ ہمارے
نظام میں مظلوم کی داد رسی کی کوئی شق شامل نہیں ہے ۔ طاقتور اور کمزور کے
درمیان تفریق کرنے والا نظام نجانے کب تبدیل ہوگا اور ہمارا نظام عدل کب
درست طریقے سے اپنا کردار ادا کر پائے گا، اس سوال کا جواب تلاش کرتے کتنی
نسلیں گزر گئیں اور مزید نجانے کتنی گزر جائیں گی ۔
منفی افعال ملک کی جڑیں کھوکھلی کررہے ہیں اور ہم گذشتہ 77 سال سے یہ سب
برداشت کررہے ہیں ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم لوگ ایک قوم ہیں یا ایک
ہجوم …… کیا ہماری وقعت یہی ہے کہ ہم ایک ہجوم کی حیثیت سے جانے جائیں ……
یا پھر ایک باشعور قوم کے طور پر پہنچانے جائیں …… ؟؟؟
|