محسن نقوی پاکستان کرکٹ کے بہتر مستقبل کے لیے تو انھیں پاپولسٹ روش سے ہٹ کر قدم اٹھانا ہو گا

پاکستان میں شاید کرکٹ کے مداحوں نے کبھی یہ سوچا بھی نہیں ہو گا، کہ آج پاکستان کو بنگلہ دیش نے ہوم گراؤنڈ پر ٹیسٹ کرکٹ میں تاریخ میں پہلی مرتبہ شکست دے دی ہے۔

جس پچ کے بارے میں پاکستانی کے بہترین بولرز کا گمان یہ تھا کہ یہ نہ تو فاسٹ بولرز اور نہ ہی سپنرز کے لیے سازگار ہے، اسی پچ پر بنگلہ دیش کی نوجوان بولنگ لائن اپ نے پاکستانی بیٹنگ کو 146 رنز پر ڈھیر کر دیا۔

راولپنڈی میں کھیلے جانے والے پہلے ٹیسٹ کے پہلے چار روز کے دوران بات صرف پچ کے فلیٹ ہونے پر تبصرہ و تجزیہ نکالتے رہے جہاں پاکستان کے سعود شکیل اور محمد رضوان بڑی سنچریاں بنانے میں کامیاب ہوئے وہاں ہی بنگلہ دیش کے مشفیق الرحیم نے 191 رنز کی شاندار اننگز کھیلی۔

تاہم آخری روز کے آغاز پر کسی نے سوچا بھی میں بھی نہیں تھا کہ آج چائے کے وقفے سے پہلے ہی بنگلہ دیشی ٹیم فتح کا جشن منا رہی ہو گی۔

یہ گذشتہ ایک سال کے دوران پاکستانی کرکٹ کی تنزلی کی ( مُسلسل کہانی کی مرحلہ وار قسط جیسے چل رہی ہو) جس میں پاکستان کو ایشیا کپ، ورلڈ کپ اور ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں تو پہلے ہی راؤنڈز میں زلت آمیز شکست سے باہر ہونا پڑا ہے، لیکن ساتھ ہی ٹیسٹ کرکٹ میں بھی اسے یکے بعد دیگرے ہوم ٹیسٹ سیریز اور بین الاقوامی دوروں میں بھی شرمناک شکستوں کا سامنا رہا ہے۔

بنگلہ دیش ٹیسٹ میچ میں پاکستان کی جانب سے پچ کے حوالے سے کی گئی تنقید ضرورت سے زیادہ تھی اور اس کے برعکس بنگلہ دیش کے بولرز کی جانب سے نپی تلی بولنگ کی گئی اور ڈسپلن لائین و لینگتھ اپنا برقرار رکھا گیا جبکہ پاکستانی بولرز میں نہ تو ردھم میں دکھائی دیے اور نہ ہی کسی منصوبے کے ساتھ میدان میں آئے۔

ہمیشہ کی طرح یہی غلطی پاکستانی بلے بازوں کی جانب سے بھی دیکھنے کو ملی جنھیں بظاہر یہی سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ جارحانہ انداز اپنائیں یا دفاعی انداز میں کھیلتے ہوئے میچ کو ڈرا کی طرف لے جائیں.

اس موقع کا فائدہ بنگلہ دیش کے اسپنرز نے بھرپور طریقہ سے اٹھایا بنگلہ دیشی کھلاڑیوں نے ایک ایسی پچ پر جہاں بقول نسیم شاہ ’پچ نہ تو فاسٹ بولرز اور نہ ہی سپنرز کے سازگار ہے‘ پاکستان کے سات بلے بازوں کو پویلین کی راہ دکھائی۔

ہمیشہ کی طرح اکثریت پاکستان بلے باز انتہائی غیر ذمہ دارانہ اسٹروکس کھیلتے ہوئے آؤٹ ہوئے اور پچ پر جم کر بیٹنگ نہ کر سکے۔ صائم ایوب تو ہمیشہ کی طرح وہ بھی گذشتہ روز ہی ایک رن بنا کر پویلین لوٹ گئے تھے لیکن کپتان شان مسعود پہلے ہی گھنٹے میں وکٹ کیپر کو کیچ دے بیٹھے۔

بابر اعظم اور عبداللہ شفیق کے درمیان ایک اچھی شراکت بن رہی تھی لیکن بابر بھی ( جب مُلک کو ضرورت ہوتی ہے یہ اس ہی طرح آؤٹ ہوتا ہے) صرف 21 رنز بنا کر کور ڈرائیو کھیلنے کی کوشش میں بولڈ ہو گئے۔
پہلی اننگز میں سنچری بنانے والے سعود شکیل دوسری اننگز میں صفر پر سٹمپ ہوئے تو پاکستانی بیٹنگ کی صورتحال خراب سے خراب تر ہوتی دکھائی دی اور یہاں ایک بار پھر محمد رضوان کی نصف سنچری نے پاکستانی بیٹنگ کو سہارا تو دیا اور اننگز کی شکست سے بچایا لیکن وہ بھی آخر کار 51 رنز بنا کر پویلین لوٹ گئے اور پھر ٹیل اینڈرز بھی سکور میں خاطر خواہ اضافہ نہیں کر سکے۔

بنگلہ دیش کو جیت کے لیے 30 رنز درکار تھے جو انھوں نے صرف سات اوور میں مکمل کر لیے اور پاکستان کو دس وکٹوں سے شکست دے دی۔
بنگلہ دیش کے تجربہ کار وکٹ کیپر بیٹر مشفق الرحیم کو پہلی اننگز میں 191 رنز بنانے پر مین آف دا میچ قرار دیا گیا۔

بنگلہ دیش کے کپتان نجم الحسن شانتو اپنی ٹیم کی کارکردگی پر بہت خوش نظر آئے اور انھوں نے کہا کہ ’اس سیریز کے شروع ہونے سے پہلے ہم نے سوچا تھا کہ ہم اس مرتبہ جیتیں گے۔‘

انھوں نے تجربہ کار بیٹر مشفق الرحیم کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ وہ برسوں سے بنگلہ دیش کے لیے یہ ذمہ دارایا نبھا رہے ہیں۔

جہاں کرکٹ دیکھنے والے پاکستانی ٹیم کی خراب کارکردگی پر تنقید کر رہے ہیں وہیں بنگلہ دیش کی ٹیم کو بھی سراہ رہے ہیں۔

جبکہ بنگلہ دیش ملک میں جس طرح کی سیاسی صورتحال بنی ہوئی ہے، جس میں بنگلہ دیش کی ٹیم کا ایک اہم کھلاڑی مقدمے میں نامزد ہے پھر بھی ٹیم نے اسے اپنے حواس پر سوار نہیں ہونے دیا اور ( ایک ہماری پاکستان کی ٹیم کے کھلاڑی جنھیں ہارنے اور بری کارگردگی پر بھی سر آنکھوں پر بیٹھایا جاتا ہے) پھر ان کی کارگردگی گلی محلے کے بچوں کی طرح رہتی ہے.

اس کی خاص وجہ یہی چیز نمایاں سامنے آتیں ہیں کہہ پاکستانی کرکٹ ٹیم میں تقسیم نمایاں نظر آ رہی ہے۔

پاکستان کی کرکٹ ٹیم یہ میچ بغیر کسی اسپین بولر کے کھیل رہی تھی۔ پاکستان یہ ٹیسٹ میچ دیکھا جائے تو غلط کھلاڑیوں کو میدان میں اُتارنے کے سبب ہارا ہے۔

’ابرار جیسے ایک باصلاحیت اسپنر کو ڈراپ کردیا اور یہ تباہ کن ثابت ہوا کیونکہ بنگلہ دیشی اسپنرز نے میچ میں 16 میں سے نو وکٹیں حاصل کیں۔‘
نظر یہی آرہا تھا کہ پاکستان جیسے متنوع کلچر میں ایسی ٹیم کی قیادت کرنا آسان نہیں جس کی اکثریت عموماً اچھی تعلیم اور عمدہ مالی بیک گراؤنڈ سے قاصر ہو ۔ جو خام ٹیلنٹ اپنی ناپختگی کی پُرجوش دلیل لے کر اس ڈریسنگ روم میں داخل ہوتا ہے، اسے تراشنا بہرحال کپتان اور کوچ کی ذمہ داری ہوا کرتی ہے۔

جو اس ٹیسٹ میں نہ ہونے کے برابر تھی شان مسعود میں وہ کپتانی والا ٹیلنٹ نظر بالکل نہیں آیا سوائے اچھی انگلش بول کر صحافیوں کے سوالات کو گھمانے کا فن صرف نظر آیا لگتا یہی ہے کہ بورڈ کی مجبوری یہی ہے کہ ایسے کھلاڑی کو لیڈ دئی جائے جو صحافیوں کو رام کرسکے( مگر قوم کو ہر میدان میں رسوا کرئے اس کی پرواہ نہیں)
نہ
بورڈ کے چیرمین کو چاہیے کہ جو کرکٹ کلچر عمران خان کی سخت گیر قیادت میں پاکستان کے لیے بے شمار فتوحات سمیٹنے اور شاندار نئے فاسٹ بولرز کی آمد کا موجب بن رہا تھا، عمران کا سخت گیر ہاتھ سر سے ہٹتے ہی پاکستانی کرکٹ ٹیم کے کھلاڑی ایسے آزاد ہوئے کہ اپنی دیوانگی میں وارفتہ ہو کر ایک پوری دہائی پاکستانی کرکٹ ٹیم منشیات، افیئرز اور فکسنگ کے پے در پے الزامات میں گنوا بیٹھے.

آج پاکستان کرکٹ ایک بار پھر اسی دوراہے پر کھڑی ( جس طرح پاکستان کی سیاست کے کرتا دھرتا ) سوچ رہی ہے کہ کدھر کو منہ کرے۔ بورڈ چیرمین محسن نقوی جذبات میں بہہ کر ’میجر سرجری‘ کا تیر تو پھینک دیا مگر اب نبھانے پر آئی تو طے ہی نہیں کر پا رہے کہ عبدالرزاق اور وہاب ریاض کی ’قربانی‘ کے علاوہ کیا ایسا قدم اٹھائیں جس سے ان کا نام کو چارچاند میں گونجنے لگے۔

لیکن کوئی بھی قدم اٹھانے سے پہلے چیرمین بورڈ محسن نقوی کو معلوم رہنا چاہیے کہ ڈیڑھ دہائی پہلے جب نظریہ ضرورت کے تحت، چئیرمین اعجاز بٹ نے مصباح الحق کو کپتان مقرر کیا تھا تو یہ پاپولسٹ فیصلہ نہیں تھا بلکہ میڈیا کی رو کے بہاؤ کے بالکل الٹ سمت جا کر، انھوں نے اس معمر بلے باز کو کپتان بنانے کا فیصلہ کیا جس پر وسیم اکرم کو بھی حیرت ہوئی تھی۔

اگرچہ وہاب ریاض کی برطرفی ایک پاپولسٹ فیصلہ ہے مگر دراصل یہ بھی اسی قدر موثر ہو گا جس قدر محمد عامر اور عماد وسیم کی واپسی کا فیصلہ تھا۔

اگر پاکستانی کرکٹ بورڈ کے چیرمین محسن نقوی پاکستان کرکٹ کے بہتر مستقبل کے لیے واقعی سنجیدہ ہیں تو انھیں پاپولسٹ روش سے ہٹ کر قدم اٹھانا ہو گا اور اس ٹیم کے لیے پھر سے کوئی کاردار یا عمران خان مضبوط اعصاب ہجیسے بندے کو ٹیم میں لانا ہو گا جو اس بھٹکتے ہوئے کرکٹ کلچر کو راہِ راست پر لا سکے
 

انجینئر! شاہد صدیق خانزادہ
About the Author: انجینئر! شاہد صدیق خانزادہ Read More Articles by انجینئر! شاہد صدیق خانزادہ: 392 Articles with 196407 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.